مسلمان کی خیرخواہی کرنا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

الدِّينُ النَّصِيحَةُ [صحيح مسلم/الديان : 196 ]
”دین خیر خواہی کا نام ہے۔ “
فوائد :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مذکورہ بالا حدیث بیان کی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ ! کس کے لئے خیر خواہی کی جائے ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ خیرخواہی اللہ، اس کے رسول، اہل اسلام حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ “
اللہ کے ساتھ خیرخواہی یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ اس کے علاوہ اس کی طرف سے آمدہ اوامر و نواہی کی فرمانبرداری کی جائے۔ رسول سے خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی انتہائی تعظیم و تکریم کی جائے۔ اسے اللہ کا نمائندہ خیال کرتے ہوئے اس کی بات کو آخری اتھارٹی کے طور پر مانا جائے، اہل اسلام حکمرانوں سے خیر خواہی یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کا کہنا مانا جائے، کھلے کفر کے علاوہ کسی بھی صورت میں ان سے بغاوت نہ کی جائے، عامۃ المسلمین سے خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں دین سکھایا جائے۔ ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو رواج دیا جائے، نیز ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے چنانچہ سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري /الايمان : 57 ]
عربی زبان میں پھٹے ہوئے کپڑے کو پیوند لگانا نصیحت کہلاتا ہے۔ نیز جب شہد سے موم کو الگ کیا جائے تو اس وقت بھی نصیحت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ شرعی طور پر کسی انسان کو اس کے عیوب پر اخلاص کے ساتھ مطلع کرنے کو نصیحت کہتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی پردہ دری مقصود نہ ہو، اگر خیر خواہی میں اخلاص نہ ہو تو اسے دھوکہ دہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اللہ کے ہاں ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا جذبہ بہت محبوب عمل ہے۔

صلہ رحمی کا بیان

الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَقُولُ : مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ [صحيح مسلم/كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ : 6519 ]
”رحم عرش کے ساتھ معلق ہے، وہ عرض کرتا ہے جس نے مجھے جوڑا، اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑا اللہ اسے توڑے گا۔ “
فوائد :
اسلامی تعلیمات میں اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے، اسے صلہ رحمی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خاص وصف جسے سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ : 3 ]
صلہ رحمی کی کچھ دنیوی برکات بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
” جو شخص پسند کرتا ہے کہ اس کا رزق فراخ کر دیا جائے اور اس کی عمر دراز کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ : 5986 ]
صلہ رحمی کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی کمائی سے اہل قرابت کی مالی خدمت کرے اور دوسرے یہ کہ اپنی زندگی اور وقت کا کچھ حصہ ان کے کاموں میں صرف کرے۔ ہمارے ہاں اکثر خاندانی جھگڑے حقوق قرابت ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، قطع رحمی کس درجہ کا گناہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا ہے : ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ : 5989 ]
اسلامی تعلیمات میں تو یہ ہے کہ قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کی جائے جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”صلہ رحمی کے بدلے میں صلہ رحمی کرنے والا ہی نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ : 5991 ]

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply