جھوٹی قسم اٹھا کر سودا بیچنا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ
”سودا بیجتے وقت زیادہ قسمیں نہ اٹھایا کرو کیونکہ اس سے سامان تو بک جاتا ہے مگر برکت اٹھ جاتی ہے۔“ [صحيح مسلم/المساقاة : 1607]
فوائد :
خرید و فروخت اور تجارت کرتے وقت جھوٹی قسم تو ایک طرف رہی، سچی قسمیں بھی نہیں کھانا چاہئیں کیونکہ جب قسم کھانے کی عادت بن جائے تو سچ جھوٹ کا امتیاز نہیں رہتا، نیز اس طرح اللہ تعالیٰ کے نام کی حرمت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ قسم اس وقت اٹھائی جاتی ہے جب اس کے بغیر کوئی اور چارہ کار نہ ہو۔ تجارت میں جھوٹ بولنے سے نہ صرف برکت اٹھ جاتی ہے بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ضمیر کی خلش الگ بےچین کرتی رہتی ہے۔ برکت اٹھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ مال حرام ہو جائے گا اور کثیر ہونے کے باوجود ضروریات زندگی پوری نہیں کرے گا اور کسی بیماری یا پریشانی میں ضائع ہوتا رہے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو تاجر جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا کاروبار چلاتا ہے وہ ان مجرمین میں شامل ہے جن کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے :
”وہ ان سے ہم کلام نہیں ہو گا اور نہ ہی قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور انہیں پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ انہیں دردناک عذاب سے دو چار کرے گا۔ “ [نسائي/البيوع : 4467]
جھوٹی قسم اٹھا کر سودا فروخت کرنا انتہائی قبیح حرکت ہے جسے شریعت نے پسند نہیں کیا تاہم اگر کوئی خرید و فروخت کرتے وقت قصداً قسم نہیں اٹھاتا بلکہ اتفاقاً منہ سے نکل جاتی ہے تو اسے چاہئے کہ اس کی تلافی کے لئے صدقہ کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
”اے تاجروں کی جماعت ! تمہارے سودوں میں بلاقصد قسمیں اور فضول باتیں واقع ہوتی رہتی ہیں، لہٰذا صدقہ کرتے رہا کرو۔“ [نسائي/البيوع : 4468]

اس تحریر کو اب تک 43 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply