قریش کی دعوت سے متعلق ایک واقعہ

 

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

قریش کی دعوت
مؤرخین و اہل سیر لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان صفا کے چند روز بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دعوت کا سامان کرو، تمام خاندان عبدالمطلب اور دیگر رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا۔ تقریباً چالیس افراد نے دعوت میں شرکت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا : میں تم لوگوں کے لئے وہ چیز لے کر آیا ہوں جو تمہارے لئے دین و دنیا دونوں کی کفیل ہو، میں نہیں جانتا کہ عرب بھر میں کوئی شخص اپنی قوم کے لئے ایسا نادر تحفہ لےکر آیا ہو۔ کون ہے جو اس بار گراں کے اٹھانے میں میرا ساتھ دے۔ اور میری رفاقت اختیار کرے۔
تمام مجلس میں سناٹا تھا۔ دفعۃًحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا، گو مجھ کو آشوب چشم ہے، گو میری ٹانگیں پتلی ہیں اور گو میں سب سے نو عمر ہوں۔ تاہم میں آپ کا ساتھ دوں گا۔
قریش کے لئے یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا کہ وہ لوگ جن میں سے ایک سنیر ده سالہ نو جوان ہے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ حاضرین کو بےساختہ ہنسی آ گئی۔ لیکن آگے چل کر زمانہ نے بتا دیا کہ یہ سراپا سچ تھا۔

[سيرت النبى ص 210 ج1، تاريخ مسلمانان عالم ص 160 ج2 ]

تحقیق الحدیث :

مولانا شبلی نے بھی اس روایت کو سیرت النبی جلد اول میں درج کیا ہے۔ جو طبری کی تاریخ اور تفسیر سے ماخوذ ہے، لیکن سید سلیمان ندوی نے استاد کی تحریر کردہ روایت کو ضعیف کہا ہے اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کے راویوں میں عبد الغفار بن قاسم شیعی متروک ہے۔ دوسرا بدمذہب ہے جس کا نام منہال بن عمرو ہے۔

منھال بن عمرو کا تعارف
اس روایت کا ایک راوی منہال بن عمرو الکوفی ہے۔ اس نے کسی صحابی سے کوئی روایت نہیں سنی۔
یحییٰ بن سعيد القطان فرماتے ہیں :
”یہ ناقابل اعتبار ہے۔“
جوزجانی اپنی ضعفاء میں لکھتے ہیں : ”یہ بد مذہب تھا۔“
ابن حزم نے اس پر ہی اعتراض کیا ہے۔
شعبہ نے اس کی روایت ترک کر دی تھی۔
مسلم نے بھی اس کی روایت نہیں کی۔ [ميزان ص 192 ج4 ]
اس منہال کو اگر ثقہ بھی تسلیم کر لیا جائے۔ تب بھی یہ روایت قابل قبول نہ ہو گی۔ اس لئے کہ اس نے اوپر کے راوی بیان نہیں کئے۔ اس طرح ایک تابعی اور ایک صحابی سند سے غائب ہے۔ اور جس روایت سے دو راوی چھوٹ جائیں اسے اصطلاح محدثین میں معضل کہا جاتا ہے اور معضل روایت بدترین درجہ کی ضعیف سمجھی جاتی ہے۔

عبدالغفار بن قاسم
اس منہال سے اس روایت کو نقل کرنے والا عبدالغفار بن قاسم ہے۔ اس کا حال بھی ملاحظہ ہو۔
امام ذہبی میزان میں لکھتے ہیں : ”عبدالغفار بن قاسم :
اس کی کنیت ابومريم الانصاری ہے۔“ ذہبی کہتے ہیں : ”یہ ثقہ نہیں ہے بلکہ رافضی ہے۔“
امام علی بن المدینی جو فن رجال میں بخاری مسلم، ابوداؤد اور نسائی کے استاد ہیں فرماتے ہیں۔ ”یہ شیعوں کا رئیس (مجتہد ) تھا، احادیث وضع کیا کرتا تھا۔“
یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :
”یہ کچھ نہیں ہے۔ “امام بخاری کہتے ہیں :
”یہ محدثین کے نزدیک قوی ہیں۔“
امام شعبہ کا بیان ہے کہ
میں نے ابو مریم کی ایک بات پر سماک الحنفی کو یہ الفاظ کہتے سنا : ”اللہ کی قسم تو جھوٹ بولتا ہے۔“
عبد الواحد بن زیاد کا بیان ہے کہ
ابو مریم نے ایک روز لوگوں کے سامنے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے اعمال دیکھنے کے لئے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ میں نے اس سے کہا : ”تو جھوٹ بولتا ہے، وہ ڈھیٹ بن کر بولا کہ تو مجھے جھٹلاتا ہے۔“
ابوداؤد طیالسی کا بیان ہے کہ
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابو مریم جھوٹا ہے میں اس سے ملا ہوں اور میں نے اس کی باتیں سنی ہیں۔ اس کا نام عبدالغفار بن قاسم ہے۔
امام احمد بن حنبل کا ارشاد ہے کہ
ہم ابو عبیدہ سے احادیث سننے جایا کرتے تھے۔ لیکن جب کبھی وہ ابو مریم کی روایت بیان کرنا چاہتے تو لوگ شور مچا دیتے تھے کہ ہم اس کی کوئی روایت سننا نہیں چاہتے۔
نیز امام احمد یہ بھی فرماتے ہیں کہ
یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی برائیوں میں روایات بیان کیا کرتا تھا۔
ابو حاتم اور نسائی کہتے ہیں :
”یہ متروک الحدیث ہے۔“
عفان نے بھی اس کی روایت قبول نہیں کی۔
امام شعبہ نے اس سے ابتدا میں روایات سنی تھیں لیکن جب ان پر اس کا جھوٹ کھلا تو انہوں نے اس سے روایت لینا چھوڑ دیا۔ ابو مریم 120ھ تک زندہ رہا. [ميزان الاعتدال س 640 ج2 ]
ان تمام بیانات سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ یہ روایت عبد الغفار بن قاسم ابو مریم الانصاری کی وضع کردہ ہے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان بڑھانے کے لئے یہ روایت وضع کی۔ لیکن اپنی اس موضوع کہانی میں چند ایسے نقائص چھوڑ دیئے کہ اگر اس روایت کو بلحاظ سند صحیح بھی فرض کر لیا جائے۔ تب بھی معنوی اعتبار سے یہ درست نہ ہو گی۔ غالباً اسی لئے سید صاحب نے یہ جملہ تحریر فرمایا کہ اس کے موضوع ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔

شعب بنی هاشم میں محصور ہونا
واقعہ کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ جب کفار قریش نے یہ دیکھا کہ مسلمانوں پر اتنی سختیوں کے باوجود اسلام پھیلتا جا رہا ہے۔ اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور جو لوگ ان حالات سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ انہیں شاہ حبشہ نے پناہ دی ہے۔ لہٰذا انہوں نے مل کر اب یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کو محصور کر کے اور فقر و فاقہ میں مبتلا کر کے تباہ و برباد کر دیا جائے۔
چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ مرتب کیا کہ کوئی شخص نہ خاندان بنی ہاشم سے قرابت داری کرے گا، نہ ان کے ہاتھ خرید و فروخت کرے گا، نہ ان سے ملے گا اور نہ ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے د ے گا۔ یہ معاہدہ نبوت کے ساتویں سال محرم میں مرتب کیا گیا۔ اور منصور بن عکرمہ نے یہ معاہدہ لکھ کر در کعبہ پر آویزاں کر دیا۔
ابو طالب مجبور ہو کر تمام قبیلے بنی ہاشم کے ساتھ اس درہ میں پناہ گزیں ہو گئے اور تین سال تک بنی ہاشم نے اس محاصرہ میں بسر کی۔ یہ زمانہ ایسا سخت گزرا کہ کے پتے کھا کھا کر گزرا کرتے تھے۔ حدیثوں میں جو صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلحہ کی پتیاں کھا کر گزارہ کرتے۔ یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کا جو یہ بیان ہے کہ ہمارے پتے کھا کھا کر ہونٹ ایسے ہو گئے تھے۔ جیسے اونٹ کے ہونٹ ہوں۔”جب ہم اجابت کرتے تو وہ اونٹ کی مینگنیوں کی طرح ہوتی، ایک دفعہ رات کو سوکھا ہوا چمڑا میرے ہاتھ آ گیا۔ میں نے اسے پانی سے دھویا، آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا، یہ سب اسی دور کے حالات ہیں۔ گویا اس مقاطعہ میں وہ تمام حضرات شریک تھے جو مشرف باسلام ہو چکے تھے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہاشم کے باپ عبد مناف۔ جس وقت بنی ہاشم کا یہ مقاطعہ کیا گیا۔ تو ہاشم کے دو بھائیوں کی اولاد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ یعنی بنو نوفل اور بنو مطلب۔ اور بقیہ تین بھائیوں کی اولاد نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مال فے سے بنو مطلب اور بنو نوفل کو مال عطا کیا کرتے تھے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو ہاشم کے چوتھے بھائی عبد شمس کی اولاد میں سے تھے۔ آپ سے دریافت کیا کہ آپ ہمیں اس مال سے کیوں نہیں نوازتے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ مقاطعہ کے وقت بنو نوفل اور بنو مطلب نے ہمارا ساتھ دیا۔ لیکن بنو عبد شمس نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ یہ واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔
اس مقاطعہ میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔ بلکہ ابولہب کے علاوہ تمام خاندان بنی باشم، خاندان بنی مطلب اور خاندان بنی نوفل کے خلاف یہ مقاطعہ عمل میں آیا۔ حالانکہ ان تینوں خاندانوں کے بیشتر افراد کافر تھے۔ چونکہ عرب میں ایک خاندان دوسرے خاندان کے کسی فرد پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ورنہ جنگ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا۔ جو صدیوں تک منقطع نہ ہوتا۔ اس لحاظ سے قریش کا ہر خاندان حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے ڈرتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مکی زندگی میں کسی تاریخ اور کسی سیرت کی کتاب میں آپ کو یہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اسلام کی خاطر فلاں مصائب ڈھائے گئے۔ یا انہوں نے اسلام کی خاطر فلاں فلاں تکلیف برداشت کی۔ کیونکہ انہیں خاندان بنی ہاشم کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس لئے ان پر کوئی دست اندازی نہ کر سکا۔ اگر حضور کو صحیح معنی میں ابو طالب اور بنی باشم کی حمایت حاصل ہوتی تو آپ پر بھی ہرگز کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی تھی۔
ابن سعد نے روایت کیا ہے کہ جب بچے بھوک سے رہتے تھے۔ تو اس دره سے باہرآ واز آتی تھی۔ قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے۔ لیکن بعض رحم دل انسانوں کو رحم بھی آتا تھا۔ حضور کی بھی کمسن بچیاں تھیں (یعنی فاطمہ اور ام كلثوم ) ایک دن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جو حضرت خدیجہ رضی اللہ کے بھتیجے تھے۔ تھوڑے سے گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس بھیجے۔ راہ میں ابوجہل نے دیکھ لیا۔ اور چھین لینا چاہا۔ اتفاق سے ابو البختری کہیں سے آ گیا۔ اگرچہ وہ کافر تھا لیکن اس کو رحم آیا۔ وہ بولا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کچھ بھیجنا چاہتا ہے تو اسے کیوں روکتا ہے۔

بائیکاٹ کیسے ختم ہوا
یہ ہے اس مقاطعہ کا پس منظر۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مقاطعہ آخر کیسے ختم ہوا۔ اس کے خاتمہ کے لئے جو داستاں سرائی کی گئی۔ وہ ابن اسحاق، ابن سعد، بیہقی اور ابونعیم نے اس طرح نقل کی ہے۔
کہ قریش نے جب بنو ہاشم کا مقاطعہ کر کے انہیں شعب بنی ہاشم میں محصور کیا۔ اور باہم معاہد مرتب کر کے تحریری صورت میں در کعبہ پر لٹکایا۔ تو چند سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے دیمک کو بھیجا۔ جس نے کاغذ کو کھا لیا۔
ایک روایت میں ہے کہ اللہ کا نام چھوڑ کر باقی عبارت کو جس میں بنو ہاشم کے مقاطعہ کا عہد تھا۔ دیمک نے کھا لیا تھا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کا نام کھا لیا تھا۔ اور باقی عبارت چھوڑ دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے اس کا ذکر کیا۔ ابو طالب نے قریش کو اس کی خبر کی۔ اور بالا آخر اس واقعہ کے جھوٹ اور سچ ہونے پر معاہدہ باقی رہنے یا ٹوٹ جانے کا فیصلہ قرار پایا۔ کفار نے جب کاغذ کو اتار کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق ہو گئی۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی مرحوم اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ابن اسحٰق کی روایت تو بے سند ہے۔
بقیہ تمام روایتیں واقدی یا ابن لہیعہ سے مروی ہیں، جن کا اعتبار ہیں۔
اور جو ثقہ راویوں سے مروی ہیں تو وہ تمام تر مرسل ہیں۔ ان تمام روایتوں میں اگر کوئی بہتر روایت ہے تو وہ بیہقی میں موسیٰ بن عقبہ کی ہے جو امام زہری سے اس کو روایت کرتے ہیں مگر وہ زہری تک پہنچ کر رہ جاتی ہے۔ کسی صحابی تک نہیں پہنچتی۔
زہری بے شک ایک مسلمہ امام ہیں۔ لیکن ان کی روایت اسی صورت میں قبول کی جا سکتی ہے۔ جب وہ اوپر کی سند بیان کریں۔ اس لئے کہ وہ چھوٹے درجہ کے تابعی ہیں۔ اور بڑے درجہ کے تابعین سے روایت نقل کرتے ہیں۔ اس طرح اوپر کے دو راوی غائب ہیں۔ اور جب دو راوی ایک دم سے غائب ہوں تو محدثین ایسی روایت کو معضل کہتے ہیں۔ جو بدترین ضعیف روایت سمجھیجاتی ہے۔ اور زہری کی تو مرسلات بھی قابل قبول نہیں۔
امام ترمذی نے کتاب العلل میں امام یحیٰی بن سعید القطان کا قول نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
ان مرسلات يحي بن ابي كثير ليس بشيء وهكذا مرسلات الزهري و سفيان بن عينية.
”یحیٰی بن ابی کثیر کی مرسلات کچھ نہیں۔ اسی طرح زہری اور سفیان بن عینیہ کی مرسلات ہیں۔“
محمد بن اسحاق اور واقدی کا حال ہم پہلے پیش کر چکے ہیں۔ اب ابن لہیعہ کا بھی کچھ حال ملاحظہ فرمائیں۔ کیونکہ یہ محدثین میں بہت شہرت رکھتے ہیں۔

ابن لھیعہ:
اس کا نام عبد اللہ ہے۔ ابو عبدالرحمان اس کی کنیت ہے۔ مصر کا عالم تھا۔ وہاں کا قاضی بھی رہا۔ تبع تابعی ہے۔ ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں اس کی روایات پائی جاتی ہیں لیکن ترمذی نے اسے خود ضعیف کہا ہے۔
یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :
”یہ ضعیف ہے، قابل حجت نہیں۔“
حمیری کا بیان ہے کہ
”یحییٰ بن سعید القطان اسے کچھ نہ سمجھتے تھے۔“
عبد الرحمان بن مہدی فرماتے ہیں : میں اس کی روایت نہیں لیتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنی کچھ روایات لکھ کر بھیجی تھیں۔ جن میں اس نے یہ بیان کیا تھا کہ یہ روایت میں نے عمرو بن شعیب سے سنی ہیں۔ لیکن جب میں نے یہ روایات امام عبداللہ بن المبارک کو پڑھ کر سنائیں تو وہ اندر گھر میں گئے۔ اور اس ابن لہیعہ کی کتاب کی نقل اٹھا کر لے آئے۔ اس کتاب میں ان تمام روایات کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ ابن لہیعہ نے یہ تمام روایات اسحاق بن ابی فروہ سے سنی ہیں جو ناقابل اعتبار راوی ہے۔ ابن لہیعہ نے اسحاق کا نام تبدیل کر کے عمرو بن شعیب کی جانب یہ روایات منسوب کر دیں۔
(اس نے اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے بہانہ یہ تراشا کہ میرے گھر میں آگ لگ گئی تھی۔ جس سے میرے تمام مسوادرات جل گئے۔ اس لئے میں اب روایت میں بھول جانتا ہوں)۔
یحییٰ بن بکیر کا بیان ہے کہ اس کے گھر میں 170ھ میں آگ لگی تھی۔ جس سے اس مسودات جل گئے۔ لیکن عثمان بن صالح کہتے ہیں کہ کوئی مسودہ نہیں جلا تھا۔ صرف یہ ہوا تھاکہ اس مسودے میں چند اجزا علیحدہ نقل کر رکھے تھے۔ اور وہ لوگوں کو اسی میں سے روایات سنایا کرتا تھا۔ اس نقل کا کچھ حصہ جل گیا تھا۔ عثمان بن صالح یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں اس کی بیماری کی ابتدا سے واقف ہوں۔ ایک روز میں اور عثمان بن عتیق جمعہ پڑھ کر آرہے تھے۔ ہمارے آگے آگے گدھے پر سوار یہ ابن لہیعہ جا رہا تھا۔ اچانک اس پر فالج گرا۔ اور یہ گدھے سے نیچے گر پڑا۔ عثمان بن عقیق ایک دم سے آگے بڑھے۔ انہوں نے اسے سہارا
دے کر بٹھایا۔ اور پھر ہم اس سے اس کے گھر پہنچا کر آئے۔ اس کی اصل بیماری یہ تھی۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :
”یہ مثنی بن الصباح سے احادیث لکھتا اور انہیں عمرو بن شعیب کی جانب منسوب کر دیتا۔“
یحییٰ بن معین کہتے ہیں :
”یہ قوی نہیں، ایک بار فرمایا یہ ضعیف ہے۔“
یحییٰ بن سعید القطان کا قول ہے کہ
مجھے بشر بن السری نے حکم دیا کہ اگر تیری ابن لہیعہ سے ملاقات ہو تو اس سے کوئی روایت نہ لینا۔
یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :
”یہ کتابیں جلنے سے قبل بھی ضعیف تھا اور بعد میں بھی ضعیف ہے۔“
ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں :
”اس کی ابتدائی اور آخری روایات سب برابر ہیں۔“
ہاں ابن المبارک اور این وہب اس سے جو روایات نقل کرتے ہیں۔ وہ پرکھ کر نقل کرتے ہیں۔
نسائی کہتے ہیں ضعیف ہے۔ اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی سنن میں اس کی کوئی روایت نہیں لی۔ سوائے ایک روایت کے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں۔
ابن ابی مریم رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ آخر عمر میں اس کے پاس گیا۔ تو بربرقوم کی ایک جماعت اس سے احادیث پڑھ رہی تھی۔ اور یہ ان سے منصور، اعمش اور علماء عراق کی احادیث بیان کر رہا تھا۔ میں نے اس سے سوال کیا۔ تیرا اہل عراق کی احادیث سے کیا تعلق۔ تو مصر کا باشندہ ہے۔ مجھے اہل عراق کی احادیث کا کیسے علم ہوا، کہنے لگا کہ راہ چلتے یہ احادیث میرے کانوں میں پڑ گئی تھیں۔ (یعنی بلا تحقیق انہیں بیان کرنا شروع کر دیا۔)
ابوزرعہ اور ابو حاتم کہتے ہیں :
”اس کا معاملہ پریشان کن ہے لیکن شہادت کے طور پر اس کی روایت لکھی جائیں۔“
جوزجانی کا بیان ہے کہ
”اس کی حدیث پر کوئی نور نہیں ہوتا، یہ حجت کے قابل نہیں۔“
امام احمد فرماتے ہیں : ”ابن لہیہ کی حدیث حجت نہیں۔ لیکن میں اس کی روایات اس لئے لکھتا ہوں کہ شاید کسی حدیث صحیح اس کی روایات سے تائید ہوتی ہو۔“
امام ذہبی فرماتے ہیں :
”اسے خلیفہ منصور نے 155ھ میں مصر کا قاضی بنایا تھا اور تیس اشرفی ماہاند اس کا وظیفه متعین کیا تھا۔ یہ نو ماہ اس عہدہ پر فائز رہا۔“
ابو الاسود النضر کا بیان ہے کہ :
”مصر کے علماء جو احادیث بیان کرتے تھے۔ ان کے مطابق اس نے بہت کم فیصلے کئے ہیں۔“
امام ابن حبان اس کی زندگی کا مختصر سا جائزہ ان الفاظ میں پیش کر تے ہیں کہ :
ابن لہیعہ 96 میں پیدا ہوا۔ 174ھ میں وفات پائی۔ طبعاً یہ نیک آدمی تھا۔ لیکن ضعیف راویوں سے روایت نقل کرتا۔ اور درمیان سے ان کا نام اڑا دیتا۔ پھر اس کی کتابیں جل گئیں۔ اسی لئے بعض محدثین کا قول یہ ہے کہ جن حضرات نے اس سے ابتدا میں احادیث نقل کی ہیں تو وہ معتبر ہیں۔ اور وہ چار شخص ہیں۔ عبد الله بن المبارک، عبد اللہ بن وہب، عبد الله بن یزید المقری اور عبد الله بن مسلمة القعنبی۔ یہ لوگ جو اس سے روایت نقل کریں گے وہ قابل قبول ہو گی۔ ورنہ نہیں۔
آخر عمر میں اس کی جتنی روایات ہیں سب بے بنیاد ہیں۔ یہ ضعیف راویوں سے موضوع روایات نقل کرتا۔ اور انہیں ثقہ راویوں کی جانب منسوب کر دیتا ہے۔
بخاری نے کتاب الضعفاء میں اس کو ضعیف اور اس کی روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
ہم اس کی حقیقت حال ظاہر کرنے کے لئے اس کی ایک روایت پیش کئے دیتے ہیں۔
اس نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا۔ میرے بھائی کو میرے پاس بلاؤ۔ لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ آپ نے ان کی جانب سے منہ پھیر لیا۔ پھر فرمایا : میرے بھائی کو بلاؤ۔ اب علی رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا۔ آپ نے انہیں اپنے کپڑے میں چھپا لیا۔ جب علی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس سے نکلے تو لوگوں نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا باتیں کیں کہنے لگے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے ایک ہزار دروازوں کی تعلیم دی۔ اور ہر دروازے میں ایک ہزار دروازے تھے۔

تحقیق الحدیث :

امام ابن عدی کامل میں فرماتے ہیں :
یہ روایت اسی ابن لہیعہ کی وضع کردہ ہے۔ کیونکہ وہ غالی شیعہ تھا۔ [ميزان الاعتدال ص 475 ج2 ]
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مقاطعہ کیسے ختم ہوا۔ اس کا کوئی نہ کوئی سبب تو ضرور ہوگا۔ بے شک اس کے اسباب رونما ہوئے۔ لیکن وہ سب دنیاوی اسباب تھے۔ قدرتی اور آسمانی اسباب نہ تھے۔ اب ان اسباب کا حال علامہ شبلی کی زبانی سن لیجئے۔
متصل تین برس تک آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام آل ہاشم نے یہ مصیبتیں جھیلیں۔ بالآخر دشمنوں ہی کو رحم آیا۔ اور خود ان ہی کے طرف سے اس معاہدہ کے توڑنے کی تحریک ہوئی۔ ہشام عامری جو خاندان بنی ہاشم کا قریبی رشتہ دار اور اپنے قبیلہ میں ممتاز تھا۔ وہ چوری چھپے بنو باشم وغیرہ کو غلہ وغیرہ بھیجتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ ز ہیر کے پاس جو عبدaلمطلب کا نواسا تھا، گیا اور کہا : کیوں زہیر تم کو یہ پسند ہے کہ تم کھاؤ، پیو، ہر قسم کا لطف اٹھاؤ۔ اور تمہارے ماموں کو ایک دانہ تک نصیب نہ ہو، زہیر نے کہا کیا کروں، تنہا ہوں ایک شخص بھی میرا ساتھ دے تو میں اس ظالمانہ معاہدہ کو پھاڑ کر پھینک دوں، ہشام عامری نے کہا میں موجود ہوں، دونوں مل کر مطعم بن عدی کے پاس گئے۔ ابو البختری، ابن ہشام اور زمعة بن اسود نے بھی ساتھ دیا۔ دوسرے دن سب مل کر حرم میں گئے۔ زہیر نے سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا :
اے اہل مکہ کیا انصاف ہے کہ ہم لوگ آرام سے بسر کریں اور بنو ہاشم کو آب و دانہ نصیب نہ ہو۔ اللہ کی قسم جب تک یہ ظالمانہ معاہدہ چاک نہ کر دیا جائے گا میں باز نہ آؤں گا۔ ابوجہل برابر سے بولا۔ ہرگز اس معاہد ہ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ زمعہ نے کہا تو جھوٹ کہتا ہے۔ جب یہ لکھا گیا تھا۔ ہم تو اس وقت بھی راضی نہ تھے۔ جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم نے ہاتھ بڑھا کر اس دستاویز کو چاک کر دیا۔ مطعم بن عدی، عدی بن قیس، زمعة بن الاسود، ابو اختر کی اور زہیر وغیرہ سب ہتھیار باندھ کر بنو ہاشم کے پاس گئے۔ اور ان کو درہ سے نکال لائے۔ بقول ابن سعدیہ 10 نبوی کا واقعہ ہے۔
یہ تمام واقعہ ابن ہشام، طبری اور ابن سعد وغیرہ میں مذکور ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد حضرت خدیہ رضی اللہ عنہ انتقال کر گئیں۔ اور ابوطالب بھی مر گیا۔ اس کے بعد معراج کا واقعہ پیش آیا۔
اسحاق المکوسج کا بیان ہے کہ ہمارے سامنے محمد بن حمید نے کتاب المغازی جو وہ سلمہ بن الابرش کے ذریہ محمد بن اسحاق سے نقل کرتا ہے۔ پڑھ کر سنائی۔ اتفاق سے میں اس کے بعد علی بن مہران کے پاس گیا۔ میں نے اسے سلمہ کی کتاب المغازی پڑھتے دیکھا۔ میں نے علی بن مہران سے سوال کیا کہ کیا تو نے یہ المغازی محمد بن حمید سے سنی ہے۔ وہ یہ سن کر حیرت میں مبتلا ہو گیا۔ اور بولا کہ ابن حمید نے تو یہ کتاب مجھ سے سنی ہے۔ یعنی ابن حمید کا یہ دعویٰ کہ ابن اسحاق کی روایات اس نے سلمہ سے کی تھیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ اس نے تو علی بن مہران سے سنی ہیں اور علی بن مہران نے سلمہ سے۔ یہ حقیقت حال معلوم ہونے کے بعد اسحاق کوسج فرماتے ہیں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد بن حمید کذاب ہے۔
صالح جزرہ کا قول ہے کہ ہم لوگ اس محمد بن حمید کو ہر بات میں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ میں نے اس شخص سے زیادہ اللہ سے بے خوف کوئی انسان نہیں دیکھا۔ یہ لوگوں سے احادیث و روایات سنتا اور ان میں ردو بدل کرتا رہتا تھا۔
ابن خراش نے ایک بار اس محمد بن حمید کی روایت بیان کی اور فرمایا : اللہ کی قسم وہ جھوٹ بولتا ہے۔ دیگر محدثین کا قول ہے کہ وہ لوگوں کی احادیث لے کر دوسروں کی جانب منسوب کر دیتا۔
نسائی کہتے ہیں ضعیف ہے۔ صالح جزرہ کا قول ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں دو شخصوں سے زیادہ جھوٹ کا ماہر کوئی نہیں دیکھا۔ ایک محمد بن حمید مؤرخ اور دوسرا ابن الشاذ کونی۔
امام فضلک الرازی فرماتے ہیں کہ میں اس محمد بن حمید کے پاس گیا تو یہ سنی سنائی کہانیوں کی سندات وضع کر رہا تھا۔
ذہبی کہتے ہیں کہ اس کے شاگرد و مؤرخ طبری نے یہ بات تو یقین وصحت کے ساتھ لکھی ہے کہ اسے قرآن بھی یاد نہ تھا۔ آخر عمر میں اس سے روایات سننے والے دو شخص ہیں۔ ابو القاسم بغوی اور محمد بن جریر طبری۔ اس ابن حمید کا انتقالی 248ھ میں ہوا۔ [ميزان ص 530 ج3 ]

 

اس تحریر کو اب تک 23 بار پڑھا جا چکا ہے۔