روایت لوشتت لسارت معي جبال الذهب سند کیسی ہے؟

شمارہ السنہ جہلم

روایت لوشتت لسارت معي جبال الذهب بہ لحاظ سند کیسی ہے؟
جواب: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن النبى صلى الله عليه وسلم قال لها: يا عائشة لو شئت لسارت معي جبال الذهب ، أتاني ملك ، وإن حجزته لتساوي الكعبة ، فقال: إن ربك يقرء عليك السلام ويقول لك إن شئت نبيا ملكا وإن شئت نبيا عبدا ، فأشار إلى جبريل ضع نفسك فقلت نبيا عبدا ، قالت: وكان النبى صلى الله عليه وسلم بعد ذالك لا يأكل متكنا ويقول: أكل كما يأكل العبد وأجلس كما يجلس العبد
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ ! اگر میں چاہتا ، تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چل پڑتے ۔ میرے پاس ایک فرشتہ آیا ، جس کی کمر کعبہ کے برابر چوڑی تھی ، کہنے لگا: آپ کا رب سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ چاہیں تو بادشاہ نبی بن جائیں یا عام نبی ۔ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے اشارہ کیا کہ آپ متواضع بنیں ۔ میں نے کہہ دیا کہ میں عام نبی بننا چاہتا ہوں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد آپ ٹیک لگا کر نہیں کھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں عام آدمی کی طرح کھاتا ہوں اور بیٹھتا ہوں ۔“
[ طبقات ابن سعد: 288/1 ، مسند أبى يعلى: ٤٩٢٠ ، أخلاق النبى لأبي الشيخ ، ص 213 ، شرح السنة للبغوي: ٣٦٨٣]
تبصرہ:
سند ”ضعیف“ ہے ۔
➊ ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن مدنی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے ۔
حافظ ابن القطان فاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں
ضعفه الأكثر
”جمہور نے ضعیف کہا ہے ۔“ [ فيض القدير للمناوي: ٣٠٠/٢]
حافظ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعيف عند الجمهور
”جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے ۔“ [ طرح التثريب: ٤/٣]
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں
وقد ضعفه قوم كثيرون
”جمهور ائمه حديث نے ضعيف كها هے ۔“ [ مجمع الزوائد: 89/2]
➋ سعید بن ابی سعید مقبری رحمہ للہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ”مرسل“ ہوتی ہے ، لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر اعلام النبلاء: 2/ 195) کا اسے ”حسن غریب“ اور حافظ ہیشمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد: 22/9) کا اس کی سند کو ”حسن“ قرار دینا درست نہیں ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔