قیام میلاد کی شرعی حیثیت

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

محفلِ میلاد وغیرہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر پر کھڑے ہو جانا بے اصل اور بے ثبوت عمل ہے، جس کی بنیاد محض نفسانی خواہشات اور غلو پر ہے۔ شرعی احکام، قرآن و حدیث اور اجماع امت سے فہمِ سلف کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں۔ ان مصادر میں سے کسی میں بھی اس کا ثبوت نہیں، لہٰذا یہ کام بدعت ہے۔

 

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس محفل میں تشریف فرما ہوتے ہیں، بعض کہتے ہیں : ”تاہم یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روحانی طور پر محفلِ میلاد میں تشریف لائیں۔“ بعض نے کہا ہے : ”ایسا ہونا گو بصورتِ معجزہ ممکن ہے۔“ وغیرہ۔

 

یہ سب ان لوگوں کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ قرآن و سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ جاہل صوفیوں میں سے جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں یا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محفل میلاد میں حاضر ہوتے ہیں یا اس سے کوئی ملتی جلتی بات کرتے ہیں، وہ قبیح ترین غلط بات کہتے ہیں، بدترین تلبیسی پردہ اس پر چڑھاتے ہیں، بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں اور کتاب و سنت اور اہلِ علم کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ مردے تو روز قیامت ہی اپنے قبروں سے نکالے جائیں گے، دنیا میں نہیں، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ۝ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ﴾ (المؤمنون : ۱۵-۱۶)
”پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو، پھر تم روزِ قیامت زندہ کیئے جاؤ گے۔“

 

اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مردے روز قیامت ہی زندہ ہوں گے، دنیا میں نہیں۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ سفید جھوٹ بولتا ہے ملمع سازی سے غلط بات سناتا ہے۔ وہ اس حق کو نہیں پہچان پایا جسے سلف صالحین نے پہچانا تھا اور جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم چلتے رہے۔

 

جہاں تک قیام کا تعلق ہے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی، کسی تابعی یا کسی ثقہ مسلمان سے ایسا کرنا باسند صحیح مروی نہیں، لہٰذا یہ قبیح بدعت ہے۔

 

علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (1264-1304ھ) لکھتے ہیں :
ومنها أى من القصص المختلقة الموضوعة ما يذكرونه من أن النبى صلى الله عليه وسلم يحضر بنفسه فى مجالس وعظ عند ذكر مولده، بنو عليه القيام عند ذكر المولد تعظيما و إكراما، وهذا أيضا من الأباطيل لم يثبت ذلك بدليل، ومجرد الاحتمال والإمكان خارج عن حد البيان
”انہی من گھڑت باتوں میں یہ بات بھی ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کی مجلسوں میں اس وقت خود حاضر ہوتے ہیں، جب ان کے میلاد کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام گھڑ لیا ہے۔ یہ بھی ان جھوٹی باتوں میں سے ہیں جو کسی دلیل سے ثابت نہیں۔ صرف احتمال اور امکان ہے وہ بھی دلیل سے عاری ہے۔“ ( الآثار المرفوية فى الاخبار الموضوعة لعبد لحي : ص : ۴۶)

 

علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی رحمہ اللہ (۹۴۲ھ) لکھتے ہیں:
 جرت عادة كثير من المحبّين إذ سمعوا بذكر وصفه صلي الله عليه وسلم أن يقوموا تعظيما له صلي الله عليه وسلم، وھذا القيام بدعة، لا أصل له
”بہت سے دعویداران حبِ نبی میں یہ عادت رواج پا گئی ہے کہ وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صفت کا ذکر سنتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ قیام ایسی بدعت ہے، جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔“ (سبل الھدى والرشاد فى سيرة خير العباد : ۴۱۵/۱)

 

مبتدعین کے ممدوح ابن حجر ہتیمی ( 909-974ھ) کہتے ہیں :
وَنَظِير ذَلِك فعل كثير عِنْد ذكر مولده صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَوضع أمه لَهُ من الْقيام وَهُوَ أَيْضا بِدعَة لم يرد فِيهِ شَيْء على أَن النَّاس إِنَّمَا يَفْعَلُونَ ذَلِك تَعْظِيمًا لَهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فالعوام معذورون لذَلِك بِخِلَاف الْخَواص
”اسی طرح ( بدعت ) کا کام بہت سے لوگوں کا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے آپ کو جننے کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا ہے۔ یہ بھی بدعت ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ملتی۔ لوگ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی نیت سے کرتے ہیں۔ عام لوگوں کا تو ( لاعلمی کی وجہ سے ) عذر قبول ہو جائے گا، برعکس خاص ( جاننے والے ) لوگوں کے ( کہ وہ بدعتی ہی شمار ہوں گے )۔“ ( الفتاويٰ الحديثية لابن حجر الھيتمى : ص : ۵۸)

 

اس کے باوجود بعض دیوبندی اکابر بھی اس قیام کو جائز قرار دیتے ہیں، جیسا کہ دیوبندیوں کے عقیدۂ وحدت الوجود کے پیشوا اور ”سیدالطائفہ“ حاجی امداد اللہ مکی صاحبب ( م 1317ھ) کہتے ہیں : ”البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے۔ اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ عالمِ خلق مقید بزمان و مکان ہے، لیکن عالم امر دونوں سے پاک ہے۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذات بابرکات کا بعید نہیں۔“ ( امداد المشتاق از اشرف علی تھانوی : ۵۶)

 

نیز اشرف علی تھانوی صاحب خود لکھتے ہیں :
”جب مثنوی شریف ختم ہو گئی۔ بعد ختم حکم شربت بنانے کا دیا اور ارشاد ہوا کہ اس پر مولانا (روم) کی نیاز بھی کی جائے گی۔ گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں۔ ایک عجز و بندگی اور وہ سوائے خدا کے دوسرے کے واسطے نہیں ہے، بلکہ ناجائز شرک ہے۔ اور دوسرے خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا، یہ جائز ہے۔ لوگ انکار کرتے ہیں۔ اس میں کیا خرابی ہے ؟ اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیئے، نہ کہ اصل عمل سے انکار کر دیا جائے۔ ایسے امور سے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہے، جیسے قیام مولد شریف اگر بوجہ آئے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے ؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر اس سردارِ عالم و عالمیان ( روحی فداہ ) کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا ؟“
( امداد المشتاق از تھانوی : ص ۸۸)۔

 

لو جی ! یہ ہیں دیوبندیوں کے ”سید الطائفہ“ صاحب اور یہ ہیں ان کی خرافات و بدعات۔ معلوم ہوتا ہے کہ ”سیدالطائفہ“ کا شمار بھی ”بدعات پسند حضرات“ میں ہوتا ہے۔

 

کیا قیاس مع الفاروق ہے کہ عالم ارواح کو عالم اجساد پر قیاس کیا، جبکہ دونوں کے احکام جدا جدا ہیں۔ اس پر سہاگہ یہ کہ سلف صالحین میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں۔ اہل علم نے اسے بدعت بھی قرار دیا ہے۔

 

بنیادی فرق :

 خوب یاد رہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہر مؤمن کے ایمان کا جزو لازم ہے، لیکن اس تعظیم کی حدود کون متعین کرے گا ؟ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے۔

 

امام اہل حدیث علامہ بشیر احمد سہسونی رحمہ اللہ (۱۲۵۰۔ ۱۳۶۶ھ) فرماتے ہیں :
فنحن معاشر أهل الحديث نعظم رسول الله صلى الله عليه وسلم بكل تعظيم جاء فى الكتاب والسنة الثابتة سواء كان ذلك التعظيم فعلياً أو قولياً أو اعتقادياً، والوارد فى الكتاب العزيز والسنَّة المطهرة من ذلك الباب في غاية الكثرة… وأما أهل البدع فمعظم تعظيمهم تعظيم محدث كشد الرحال إلى قبر الرسول صلى الله عليه وسلم والفرح بليلة ولادته، وقراءة المولد، والقيام عند ذكر ولادته صلى الله عليه وسلم، وتقبيل الإبھام عند قول المؤذّن : أشھد أن محمّدا رسول الله، والتمثّل بين يديه قياما و طلب الحاجات منه صلى الله عليه وسلم والنذر له وما ضاھاھا، وما ضاهاها، وأمّا التعظيمات الثابتة فهم عنها بمراحل
” ہم تمام اہل حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وہ تعظیم بجا لاتے ہیں جو قرآن کریم اور سنتِ ثابتہ میں وارد ہے، خواہ وہ تعظیم فعلی ہو، قولی ہو یا اعتقادی۔ قرآن عزیز اور سنت مطہرہ میں اس طرح کی بہت زیادہ تعظیم موجود ہے۔۔۔ لیکن بدعتوں کے خوگر لوگوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ تعظیم یہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی بدعت جاری کر لیتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف شدّ رحال، ولادتِ رسول کی رات جشن، مولد کر قرأئت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام کرنا، اذان میں مؤذن کےأشھد أن محمّدا رسول الله کہنے کے وقت انگوٹھے چومنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے بت بن کر کھڑے ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجات طلب کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی نیاز دینا وغیرہ۔ رہی قرآن و سنت میں ثابت شدہ تعظیمات تو وہ ان سے کوسوں دور ہیں۔ “ (صيانة الانسان عن وسوسة دحلان از سھسوانی : ص 244)

 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 611-728ھ) فرماتے ہیں :
وإنما تعظيم الرسل بتصديقھم فيما أجبروا به عن الله وطاعتھم فيما أمرو به ومتابعتھم ومحبتھم و موالاتھم . ” رسولوں کی تعظیم تو بس ان کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے ميں ہے۔ “ ( كتاب الرد على الاخنائي لا بن تيمية : ص 24-25)

 

اس کے برعکس بعض لوگوں کی آزادی بھی ملاحظہ فرمائیں۔

جناب احمد یار نعیمی بریلوی گجراتی صاحب ( 1324-1391ھ) لکھتے ہیں :

تعظیم میں کوئی پابندی نہیں، بلکہ جس زمانہ میں اور جس جگہ جو طریقہ بھی تعظیم کا ہو، اس طرح کرو، بشرطیکہ شریعت نے اس کو حرام نہ کیا ہو، جیسے کہ تعظیمی سجدہ و رکوع۔ اور ہمارے زمانہ میں شاہی احکام کھڑے ہو کر بھی پڑھے جاتے تھے۔ لہٰذا محبوب کا ذکر بھی کھڑے ہو کر ہونا چاہیئے۔ دیکھو كلوا و اشربوا میں مطلقاً کھانے پینے کی اجازت ہے کہ ہر حلال غذا کھاؤ پیو تو بریانی، زردہ، قورمہ سب ہی حلال ہوا خواہ خیرالقرن میں ہو یا نہ ہو۔ (وجاء الحق از نعیمی : جلد 1 ص 254)

 

اگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے تو صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین، ائمہ دین اور سلف صالحین اس سے محروم کیوں تھے ؟ کہاں ہمارے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جو کہ دین و ایمان ہے اور کھانے پینے کے دنیاوی مسائل۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مسلم اصول ہے کہ دینی معاملات میں کرنے کی دلیل ضروری ہے، جبکہ دنیاوی معاملات میں منع کی دلیل۔ لیکن ان لوگوں کے ہاں تو اصل مسئلہ شکم پروری کا ہے، اس لیے ان کے ہر مسئلہ کی انتہا کھانے پینے پر ہوتی ہے۔

 

ایک وضاحت :

ابومجلز لاحق بن حمید تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
خرج معاوية على ابن الزبير وابن عامر، ‏‏‏‏ فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير، ‏‏‏‏ فقال معاوية لابن عامر : ‏‏‏‏ اجلس، ‏‏‏‏ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ‏‏‏‏ من أحب أن يتمثل له الرجال قياما فليتبوأ مقعده من النار
” سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عامر کے پاس آئے تو ابن عامر کھڑے ہو گئے، جبکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیٹھے رہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر سے کہا : بیٹھ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی اس کے لیے بت بن کر کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔ “ ( مصنف ابن ابی شیبۃ رحمه الله 586/8، مسند الامام احمد : 91/4، 93، 100، مسند عبد بن حمید : 413، الادب الفرد للبخاری : 977، سنن ابی داؤد : 5229، سنن الترمذی 2755، وقال حسن، تھذیب الآثار للطبری : 568، 569/2 وسنده صحیحٌ)

 

تہذیب الآثار طبری (568، 567/2، وسندہ حسن ) میں یہ الفاظ ہیں :
خرج معاية ذات يوم، فوثبوا في وجھة قياما، فقال : اجلسوا، اجلسوا، فاني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول : من سره أن يستخم بنو آدم قياما دخل النار
” سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک دن باہر تشریف لائے تو لوگ ان کے سامنے جلدی سے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے فرمایا : بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں وہ آگ میں داخل ہوگا۔ “

 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 611-728ھ) ان الفاظ کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فإن ذلك أن يقوموا له وهو قاعد ليس هو أن يقوموا لمجيئه إذا جاء؛ ولهذا فرقوا بين أن يقال قمت إليه وقمت له والقائم للقادم ساواه فى القيام بخلاف القائم للقاعد.
” اس وعید سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بیٹھے ہوئے کے لیے کھڑے ہوں۔ کسی آنے والے کے لیے کھڑے ہونا اس سے مراد نہیں۔ اسی لیے علمائے کرام نے کسی کی طرف کھڑا ہونے اور کسی کے لیے کھڑے ہونے میں فرق کیا ہے۔ کسی باہر سے آنے والے کی طرف کھڑا ہونے والا کھڑنے ہونے میں اس کے برابر ہوتا ہے، برعکس اس شخص کے جو بیٹھنے والے کے کھڑا ہو۔ “ ( مجموع الفتاوي لابن تيمية : 375/1)

 

محدث البانی رحمہ اللہ (م 1420 ھ) اس کی تشریح میں لکھتے ہیں :
دلنا هذا الحديث على أمرين : الأول : تحريم حب الداخل على الناس القيام منهم له، وهو صريح الدلالة، بحيث إنه لا يحتاج إلى بيان والآخر : كراهة القيام من الجالسين للداخل، ولو كان لا يحب القيام، وذلك من باب التعاون على الخير، وعدم فتح باب الشر، وهذا معنى دقيق، دلّنا عليه راوى الحديث معاوية رضي الله عنه، وذلك بإنكاره على عبدالله بن عامر قيامه له، واحتجّ عليه بالحديث، وذلك من فقهه فى الدين، وعلمه بقواعد الشريعة، التى منها سد الذرائع.
” اس حدیث سے ہمیں دو باتوں کا علم ہوتا ہے : پہلی یہ کہ داخل ہونے والے کا اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے کو پسند کرنا حرام ہے۔ یہ بات تو بالکل صریح ہے کہ اس کی شرح کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیٹھنے والوں کا باہر سے آنے والے کے لیے کھڑا ہونا ناپسندیدہ عمل ہے، اگرچہ داخل ہونے والا بھی اس عمل کو پسند نہ کرتا ہو۔ اس پیچیدہ معنی کی خبر ہمیں راویٔ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے دی ہے، جیسا کہ انہوں نے عبداللہ بن عامر کو اپنے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا اور انہیں حدیث سے دلیل دی۔ یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی دینی فقاہت ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قواعد شریعت سے واقف تھے۔ سد ذرائع بھی انہی قواعد میں سے ایک ہے۔ “ ( السلسلة الصحيحة للالبانی : 679/1)

 

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما كان أحد من الناس أحب إليهم شخصا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، كانوا إذا رأوه ؛ لا يقوم له أحد منھم، لما يعلمون من كراهيته لذلك.
” صحابہ کرام کے ہاں کوئی بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑا نہ ہوتا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں۔ “ ( مسند الامام احمد : 134/3، وسنده صحیحٌ، سنن الترمذی : 2754، وقال : حسن صحیحٌ)

 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 611-728ھ) فرماتے ہیں :
لم تكن عادة السلف على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وخلفائه الراشدين : أن يعتادوا القيام كلما يرونه صلى الله عليه وسلم كما يفعله كثير من الناس
” نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے عہد میں سلف صالحین کی یہ عادت نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( یا کسی اور بزرگ شخصیت ) کو جب دیکھیں کھڑے ہو جائیں، جیسا کہ بہت سے لوگ (اب ) کرتے ہیں“ ( مجموع الفتاوي لابن تيمية : 374/1)

 

کسی صحابی سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں یا آپ کے ذکر کی تعظیم میں کھڑے ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے۔

 

فائدہ نمبر 1 :

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
كانت إذا دخلت عليه، ‏‏‏‏ قام إليها فأخذ بيدها، ‏‏‏‏ فقبلها، ‏‏‏‏ وأجلسها فى مجلسه، ‏‏‏‏ وكان إذا دخل عليها، ‏‏‏‏ قامت إليه، ‏‏‏‏ فأخذت بيده، ‏‏‏‏ فقبلته وأجلسته فى مجلسها
وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف کھڑے ہوتے، ان کے ہاتھ کو پکڑتے، اسے بوسہ دیتے اور ان کو اپنی جگہ بٹھاتے، اسی طرح جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپ رضی اللہ عنہا آپ کی طرف کھڑی ہوتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتیں، آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ ( سنن ابی داؤد : 5217، سنن الترمذی : 3872، وسنده صحیحٌ)   

اس روایت کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (6952) اور امام حاکم رحمہ اللہ ( 264/4) نے ” صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

 

یہ قیام جائز ہے۔ اگرچہ یہ روایت پہلی روایات کے بظاہر مخالف و معارض ہے، لیکن ان کے درمیان جمع و تظبیق ہو سکتی ہے،  جیسا  کہ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ( 691-751ھ) لکھتے ہیں :
فالمذموم : القيام للرجل، وأمّا القيام إليه، للتلقّي إذ قدم، فلا بأس به، وبھذا تجتمع الأحاديث.
” کسی آدمی کے لیے (تعظیماً) کھڑا ہونا مذموم عمل ہے، البتہ جب کوئی آئے تو اس کی طرف اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ “ ( شرح ابن القیم لسنن ابی داؤد مع عون المعبود : 127/14)

 

فائدہ نمبر 2 :

عمرو بن السائب بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر کا بعض حصہ بچھا دیا۔ وہ اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی۔ وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آ گئے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔ ( سنن ابی داؤد : 5145)

تبصرہ:
اس کی سند ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

فائدہ نمبر 3 :

 

سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
أتي النبّي صلي الله عليه وسلم، فلمّا رآه (أي العبّاس) قام  إليه وقبّل ما بين عينيه ثم أقعده عن يمينه نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور پھر آپ کو اپنی دائیں جانب بٹھا لیا۔(المعجم الکبیر للطبرانی : 235/1، المعجم الاوسط للطبرنی : 9246، تاریخ بغداد : 63/1 )

تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل قرار دیا ہے ( میزان الاعتدال : 97/1 )
اس کے راوی احمد بن رشین الہلالی کے بارے میں  حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فھو الذى اختلقه بجھل ” اسی نے اپنی جہالت کی بناء پر اس روایت کو گھڑا ہے۔ “ (میزان الاعتدال : 97/1)

صرف اور صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات (40/8) میں ذکر کیا ہے۔ یہ ان کا تساہل ہے۔

 

شبہ ضعیفہ اور اس کا ازالہ :  

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلس معنا في المجلس يحدثنا، فإذا قام قمنا قياما حتى نراه قد دخل بعض بيوت أزواجه
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھے باتیں کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے۔ (سنن ابو داؤد : 4775، السسن الكبريٰ للنسائي : 4780، سنن ابن ماجه مختصرا : 2093، شعب الايمان للبيھقي : 8930)

تبصرہ :
۱۔ اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس کے راوی ہلال بن ابی ہلال المدنی کے بارے میں
:

 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفه ” میں اس کو نہیں پہچانتا۔ “ ( العلل 1476)

امام ابن شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفه ” میں اس کو نہیں جانتا۔ “ ( الثقات لا بن شاھین : 1245)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : لا يعرف ” یہ غیر معروف ہے۔ “ (ميزان الاعتدال:317/4)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”مقبول“ (مستورالحال) کہا ہے۔ ( تقریب التھذیب : 7351)

صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس ”الثقات“ (503/5) میں ذکر کیا ہے، لہٰذا یہ ”مجہول الحال“ راوی ہے۔

 

۲۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ( 773-852ھ) فرماتے ہیں :
وَالَّذِي يَظْهَرُ لِي فِي الْجَوَابِ أَنْ يُقَالَ لَعَلَّ سَبَبَ تَأْخِيرِهِمْ حَتَّى يَدْخُلَ لِمَا يَحْتَمِلُ عِنْدَهُمْ مِنْ أَمْرٍ يَحْدُثُ لَهُ حَتَّى لَا يَحْتَاجَ إِذَا تَفَرَّقُوا أَن يتَكَلَّف استدعائهم ثمَّ رَاجَعْتُ سُنَنَ أَبِي دَاوُدَ فَوَجَدْتُ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ مَا يُؤَيِّدُ مَا قُلْتُهُ وَهُوَ قِصَّةُ الْأَعْرَابِيِّ الَّذِي جَبَذَ رِدَاءَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا رَجُلًا فَأَمَرَهُ أَنْ يَحْمِلَ لَهُ عَلَى بَعِيرِهِ تَمْرًا وَشَعِيرًا وَفِي آخِرِهِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ انْصَرِفُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ تَعَالَى
” جو بات میرے ذہن میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے تک صحابہ کرام کے کھڑے رہنے کا سبب شاید یہ ہو کہ ان کے ذہن میں یہ احتمال ہوتا تھا کہ ان کے چلے جانے کے بعد کسی ضرورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں بلانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ پھر میں نے سنن ابوداؤد کی طرف رجوع کیا تو اس حدیث کے آخر میں مجھے وہ الفاظ مل گئے جو میری اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ وہ اعرابی کا واقعہ ہے جس نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کو کھینچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلایا اور حکم فرمایا کہ وہ اس اعرابی کے اونٹ پر کھجور اور جو لاد دے اور اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اللہ تم پر رحم کرے، اب تم جا سکتے ہو۔ “ ( فتح الباری : 53، 52/11)

 

۳۔ ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م 1014ھ) فرماتے ہیں :
ولعلّھم كانوا ينتظرون رجاء أن يظھر له حاجة ألي أحد منھم أو يعرض له رجوع ألي الجلوس معھم، فإذا أيسوا تفرّقوا ولم يقعدوا العدم حلاوة الجلوس بعده عليه السلام
” شاید کہ وہ اس امید سے انتظار کرتے تھے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں کسی سے کوئی کام پڑ جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی طرف دوبارہ آنے کا ارادہ بن جائے۔ جب وہ اس بات سے ناامید ہو جاتے تو چلے جاتے۔ دوبارہ نہ بیٹھتے تھے، کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں بیٹھنے کا مزہ نہیں آتا تھا۔ “ (مرقاة المفاتيح للقاري : 488/13)

 

لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے تھے، صحیح نہ ہوا۔ نیز اس کو دلیل بنا کر ان کا ذکر ولادت کی تعظیم میں کھڑا ہونا غلط در غلط ہے۔

 

سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
لمّا قدم جعفر من ھجرة الحبشة تلقّاه النبيّ صلي الله عليه وسلم فعانقه، وقبل ما بين عينيه، وقال : ما أدري ايّھما أنا أسرّ ؟ بفتح خيبر أو بقدوم جعفر؟
جب سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ سے واپس آئے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا : مجھے معلوم نہیں کہ دو چیزوں میں زیادہ خوشی مجھے کس بات کی ہے، فتح خیبر کی یا جعفر کی آمد کی ؟ ( المعجم الکبیر للطبرانی : 108/2، المعجم الاوسط للطبرانی : 2003، المعجم الصغیر للطبرانی : 30 )

 

تبصرہ :
اس کی سند ” ضعیف“ ہے۔
اس میں احمد بن خالد الحرانی راوی ہے، جس کے بارے میں:
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ضعيف، ليس بشيء، ما رأيت أحدا اثني عليه.
” یہ ضعیف راوی ہے، کچھ نہیں، میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ “ (سوالات حمزہ السھمی للدارقطنی : ص 148)

 

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واہ ” یہ کمزور راوی ہے۔ “ ( المغنی للذھبی : 65/1 )  

 

اس کے متابع راوی انس بن سلم کے بارے میں:
 حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ولم أعرفه ” میں اسے پہچان نہیں سکا۔ “ ( مجمع الزوائد : 271/9)

 

اس کی متابعت ایک اور راوی عثمان محمد بن عثمان نے بھی کی ہے۔ ( تاریخ بغداد للخطیب البغدادی : 292/11)

اس کے بارے میں بھی تعدیل و توثیق کا کوئی قول ثابت نہیں۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔

 

عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے :
فلمّا بلغ باب رسول الله صلي الله عليه وسلم استبشر و وثب له رسول الله صلي الله عليه وسلم قائما علي رجليه فرحا بقدومه.
” جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کے آنے کی خوشی میں ان کے لیے جلدی سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔ “ ( المغازی للواقدی : 853-850/2، المستدرک للبیھقی : 269/3، المدخل الی السنن الکبریٰ للبیھقی : 710 )

تبصرہ :

یہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔
اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”متروک“ راوی ہے۔ اور اس کا استاذ ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرہ ”وضاع“ (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا ) اور کذاب (جھوٹا) راوی ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یضع الحدیث ”یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔“ ( الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 306/7)

 

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے دروازہ کھٹکٹایا : فقام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم عريانا يجر ثوبه والله ما رأيته عريانا قبله ولا بعده فأعتنقه وقبله
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف مکمل لباس کے بغیر اپنے کپڑے کو سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی قسم ! میں نے اس سے پہلے اور بعد کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل لباس کے بغیر کسی سے ملتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ کیا اور ان کو بوسہ دیا۔“ ( سنن الترمذی : 2732، وقال : حسن، شرح معانی الآثار للطحاوی : 92/4)

تبصرہ :

یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
(۱) اس کا راوی ابراہیم بن یحییٰ بن محمد الشجری ” لين الحديث “ ہے۔ ( تقریبب التھذیب لا بن حجر : 268)

(۲) یحییٰ بن محمد بن عباد المدنی الشجری راوی بھی ”ضعیف“ ہے۔

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وكان ضريرا يتلقّن  ”یہ نابینا تھا اور لوگوں کی باتوں میں آ جاتا تھا۔“ (تقریب التھذیب : 7637)

(۳) محمد بن اسحاق المدنی ”مدلس“ ہیں۔

(۴) امام زہری رحمہ اللہ بھی مدلس ہیں۔ دنوں نے سماع کی تصریح نہیں کی، لہٰذا روایت ”ضعیف“ ہے۔

تاریخ ابن عساکر (360/19) کی سند میں محمد بن عمر الواقدی راوی ”متروک“ ہے۔

 

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مسئلہ بتایا :
فقمت إليه، فقلت له : بأبي انت و أمّي ! انت أحقّ بھا.
”میں آپ رضی اللہ عنہ کی طرف کھڑا ہوا اور ان سے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔“ (مسند الامام احمد : 6/1، مسند البزار : 4، مسند ابی یعلی : 24 )

تبصرہ :

اس کی سند ” رجل مبہم “ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

قارئین کرام !
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا بھیجا تو وہ دراز گوش پر سوار ہو کر آئے۔ جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : قوموا إلي سيّد كم ”اپنے سردار کی طرف اٹھو۔“ (صحیح البخاری : 6262، صحیح مسلم : 1768)

اس کا یہ مطلب نہیں کہ سعد جو اپنے قبیلے کے سردار ہیں، ان کے اکرام اور تعظیم میں کھڑے ہو جاؤ، بلکہ کھڑے ہو کر ان کو سواری سے اتارو، کیونکہ اس وقت وہ زخمی تھے۔ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : قوموا إلي سيّد كم فأنزلوه، فقال عمر : سيّدنا الله عزّ و جلّ، قال : أنزلوه، فأنزلوه ”اپنے سردار کی طرف اٹھو اور ان کو سواری سے نیچے اتارو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ہمارا سردار اللہ تعالیٰ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سعد کو نیچے اتارو تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو نیچے اتار دیا۔“ ( مسند الامام احمد 142,141/6، وسنده حسن)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (7028) نے ”صحیح“ کہا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو ”حسن“ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :
وھذه الزيادة تخدش في الاستدلال بقصّة سعد علي مشروعيّة القيام المفنازع فيه
”یہ زائد الفاظ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے واقعے سے متنازع فیہ ( تعظیمی) قیام پر استدلال کو باطل قرار دیتے ہیں۔“ ( فتح الباری : 51/11)

ابن الحاج رحمہ اللہ (م 737ھ) اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
لو كان القيام المأمور به لسعد هو المتنازع فيه لما خص به الأنصار فإن الأصل فى أفعال القرب التعميم، ولو كان القيام لسعد على سبيل البر والإكرام لكان هو صلى الله عليه وسلم أول من فعله وأمر به من حضر من أكابر الصحابة، فلما لم يأمر به ولا فعله ولا فعلوه دل ذلك على أن الأمر بالقيام لغير ما وقع فيه النزاع وإنما هو لينزلوه عن دابته لما كان فيه من المرض، كما جاء فى بعض الروايات، ولأن عادة العرب أن القبيلة تخدم كبيرها، فلذلك خص الأنصار بذلك دون المهاجرين، مع أن المراد بعض الأنصار لا كلهم وهم الأوس منهم لأن سعد بن معاذ كان سيدهم دون الخزرج وعلى تقدير تسليم أن القيام المأمور به حينئذ لم يكن للإعانة فليس هو المتنازع فيه، بل لأنه غائب قدم، والقيام للغائب إذا قدم مشروع .
”اگر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے قیام کے حکم سے مراد قیام متنازع فیہ ( تعظیمی) ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم میں انصار کو خاص نہ کرتے، کیونکہ نیکی کے کاموں میں اصل عموم ہوتا ہے ( یعنی وہ سب کے لیے مشترک ہوتے ہیں )۔ اگر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑے ہونا عزت کے لیے اور نیکی کے لیے ہوتا تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسا کرتے اور وہاں موجود اکابر صحابہ کو اس کا حکم دیتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابر صحابہ کو حکم نہیں دیا، نہ ہی خود ایسا کیا ہے، نہ ہی صحابہ کرام نے قیام کیا تو معلوم ہوا کہ قیام کا یہ حکم اس مقصد کے لیے نہیں تھا جس میں نزاع ہے ( تعظیمی نہیں تھا )۔ یہ حکم تو صرف سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سواری سے اتارنے کے لیے تھا، کیونکہ وہ اس وقت بیمار تھے، جیسا کہ بعض روایت میں یہ بات مذکور ہے۔ نیز عربوں کی یہ عادت بھی تھی کہ پورا قبیلہ اپنے بڑے کی خدمت کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف انصار کو دیا تھا، مہاجرین کو نہیں۔ پھر اس سے مراد سارے انصار بھی نہیں، بلکہ بعض انصار، یعنی قبیلہ اوس کے لوگ تھے، کیونکہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اوس کے ہی سردار تھے، خزرج کے نہیں۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس وقت قیام کا حکم سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سواری اتارنے میں مدد کرنے کے لیے نہیں تھا تو بھی یہ قیام متنازع فیہ ( تعظیمی ) نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ قیام ایک غائب کے آنے کی وجہ سے تھا اور کسی آنے والے کے کھڑا ہونا جائز ہے۔“ ( فتح الباری 51/11)۔

اگر کوئی اس قیام کو اکرام پر محمول کرے تو یہ قیام بھی ہمارے نزدیک مشروع ہے۔

امام حماد بن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں :
كنّا عند أيّوب، فجاء يونس، فقال حمّاد : قوموا السيّد كم، أو قال : لسيّدنا
”ہم امام ایوب سخیتیانی رحمہ اللہ کے پاس تھے۔ امام یونس رحمہ اللہ آئے تو امام حماد رحمہ اللہ نے فرمایا : اپنے سردار یا ہمارے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔“ ( الجامع لاخلاق الراوی للخطیب : 302، وسندہٗ حسنٌ)۔

سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فقام إليّ طلة بن عبيد الله يھرول حتّي صافحني و ھنّأني، والله ! ما قام إلّي رجل من المھاجرين غيره
”میری طرف طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے خوشخبر دی۔ اللہ کی قسم ! میری طرف ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی آدمی کھڑا نہیں ہوا۔“ ( صحییح البخاری 4418، صحیح مسلم 2729)

یہ استقبال کی غرض سے قیام تھا جو کہ جائز و مباح ہے۔

 

فائدہ :

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہمارے پاس سے کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم اس کے لیے قیام کریں ؟ اس پر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، قوموا لھا، فإنّكم لستم تقومون لھا، إنّما تقومون إعظاما للذي يقبض النفوس ”ہاں ! تم اس کو دیکھ کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ تم اس کے لیے کھڑے نہیں ہوتے، بلکہ اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہو جو روحوں کو قبض کرتی ہے۔“ ( مسند الامام احمد : 168/2، مسند عبد بن حمید : 1340، المعجم الکبیر للطبرانی : 17/13، ح : 47، وسندہٗ حسنٌ)   

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3035) ، امام حاکم رحمہ اللہ (357/1) نے ”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رجال أحمد ثقات ” (اس روایت میں) مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں۔“ (مجمع الزوائد : 27/3)۔

اس کا راوی ربیعہ بن سیف المعافری جمہور کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہے۔

طبرانی کے الفاظ یہ ہیں :
إنّما تقومون لمن معھا من الملائكة
”تم تو ان فرشتوں کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہو جو اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔“

یاد رہے کہ جنازہ کو دیکھ کر کھڑا ہونا جائز اور مستحب ہے۔ اس کا وجوب منسوخ ہو چکا ہے، جبکہ استحباب باقی ہے۔

قارئین کرام !

اب ہم اس مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔ یہ تو آپ نے جان لیا ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت پر کھڑا ہونا کسی وضعی اور من گھڑت روایت سے بھی ثابت نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ قرآن و حدیث میں اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں، لہٰذا یہ بدعت ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب ( 1324-1391 ھ ) لکھتے ہیں :
ان نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذکر پر کھڑا ہونا سنت سلف صالحین ہے۔“
( جاء الحق از نعیمی : جلد 1 ص 252)

یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کسی صحابی، تابعی یا کسی تبع تابعی، حتی کہ امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے بھی قطعاً اس کا ثبوت نہیں ملتا۔

 

”مفتی“ صاحب مزید لکھتے ہیں :
”ولادت پاک کے وقت ملائکہ درِ دولت پر کھڑے ہوئے تھے۔ اس لیے ولادت کے ذکر پر کھڑا ہونا فعلِ ملائکہ سے مشابہ ہے۔“
( جاء الحق از نعیمی : جلد 1 ص 253)

یہ بے اصل اور بے ثبوت بات ہے۔ نہ جانے مفتی صاحب پر یہ وحی کس نے کی ؟ درحقیقت یہ اللہ کے فرشتوں پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔ ان لوگوں کی بے باکی اور بے بسی پر حیرانی ہوتی ہے۔

 

مزید لکھتے ہیں :
”حضور علیہ السلام نے اپنے اوصاف اور اپنا نسب شریف منبر پر کھڑے ہو کر بیان فرمایا تو اس قیام کی اصل مل گئی۔“
( جاء الحق از نعیمی : جلد 1 ص 253)

یہ روایت مسند الامام احمد (210/1) اور سنن الترمذی (3608) میں موجود ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس میں یزید بن ابی زیاد راوی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔

اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف، كبر فتغيّر، صار يتلقّن، و كان شيعيّا.
”یہ ضعیف راوی تھا بوڑھا ہو کر اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور یہ لوگوں کی باتوں میں آنے لگا تھا۔ یہ شیعہ تھا۔“ (تقریب التھذیب : 7717)

اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد ضعّفه جمھور الأئمّة ”اسے جمہور ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ ( مجمع الزوائد : 57، 56/5)

حافظ ابن حجر عسقالانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والجمھور علي تضعيف حديثه ”جمہور اس کی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ ( ھدی الساری لابن حجر:ص 459)

بوصیری کہتے ہیں :
أخرجه مسلم في المتابعات، ضعّفه الجمھور
”امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کی حدیث متابعات میں بیان کی ہے۔ جمہور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ (زوائد ابن ماجه : 705)

اس میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ”تدلیس“ بھی ہے۔ جب یہ روایت ”ضعیف“ ہے تو ”مفتی“ صاحب کا اس پر بنایا ہوا مذہب بھی ”ضعیف“ اور اس سے کیا ہوا استدلال بھی باطل ہوا۔

مفتی صاحب لکھتے ہیں :
”شریعت نے اس کو منع نہ کیا اور ہر ملک کے عام مسلمان اس کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور جس کام کو مسلمان اچھا جانیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔“
( جاء الحق از نعیمی : جلد 1 ص 253)

دلائل نہ ہوں تو آخری سہار یہی ہے کہ منع نہیں، حالانکہ شرعی احکام میں اللہ تعالیٰ اور اس رسول کا اذن اور ان کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔

ہر ملک میں بدعتی لوگ اسے ثواب سمجھ کر کرتے ہیں، لیکن کیا صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ عظام کا عمل اس پر موجود ہے ؟ کیا وہ بھی اسے اچھا سمجھتے تھے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ عمل اللہ کے ہاں بھی اچھا ہو گا، لیکن اگر جواب نفی میں ہے تو اس کے بدعت سیٔہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

اللہ رب العزت اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں :
﴿أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا﴾ (۳۵-فاطر : ۸)
”کیا جس شخص کے لیے اس کا برا عمل مزین کر دیا جاتا ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے۔“

ضلال و جہال کی یہ عادت بھی ہوتی ہے کہ وہ عمومی دلائل سے اپنی بدعات کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور عام مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اولاً تو بدعات عمومی دلائل کے تحت آتی ہی نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طریقہ سے سلف صالحین کے بارے میں یہ بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ وہ تو ان دلائل سے وہ کچھ نہ سمجھ پائے جو مبتدعین نے سمجھ لیا ہے !
 

نئی دریافت :

ایک بدعتی صاحب کہتے ہیں کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کھڑے ہو کر پڑھنا انبیائے کرام کی سنت ہے، جیسا کہ :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفر معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:
مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ”میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پرھ رہے تھے“ ( صحیح مسلم : 268/2، ح : 2375 )

 

اسی طرح نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمایا :
وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي
”ابراھیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔“ ( صحیح مسلم : 96/1، ح : 172)

 

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي
”عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔“ ( صحیح مسلم : 96/1، ح : 172)

 

ان بدعتی صاحب کا کہنا ہے کہ لفظ صلوٰۃ کا معنیٰ یہاں نماز نہیں، بلکہ درود و سلام پڑھنا ہے، کیونکہ صلوٰۃ کا لفظ صرف نماز کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا، بلکہ رحمت بھیجنا، تعریف کرنا اور درود و سلام پڑھنے جیسے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

تبصرہ :

بے شک لفظ صلوٰٰۃ کے کئی معانی ہیں، لیکن مذکورہ بالا احادیث میں درود و سلام کا معنیٰ کرنا نری جہالت، عربیت سے عدم واقفیت کا ثبوت، حدیث کی معنوی تحریف اور سلف صالحین کی مخالفت ہے۔

یہاں صلوٰۃ کا لفظ درود سلام کے معنی میں ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا۔ وہ بھلا کیسے بیان کرتے۔ وہ تو اہل علم و تقویٰ تھے۔ صلوٰۃ کا لفظ اسی وقت درود و سلام کے معنیٰ میں ہو گا جب اس کے بعد ”علیٰ“ صلہ آئے۔ احادیث میں انبیائے کرام کے بارے میں قائم يصلّي في قبرهٖ کے لفظ ہیں قائم يصلّي عليه في قبره کے الفاظ نہیں ہیں۔

لہٰذا مبتدعین کی جہالت اور دھوکہ دہی پر مہر ثبت ہو گئی ہے۔

علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أي يدعو ويثني عليه و يذكره، فالمراد الصلاة اللغوية، وھي الدعاء والثناء، وقيل : المراد الشرعيّة، وعليه القرطبيّ
”یعنی وہ دعا کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کا ذکر کر رہے تھے۔ لہٰذا یہاں مراد لغوی صلاۃ ہے، جو دعا اور حمد و ثناء کے معنیٰ میں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں شرعی نماز مراد ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ اسی مؤقف کے حامل ہیں۔“ ( فیض القدیر للمناوی : 520-519/5)

قبر میں دعا اور نماز انبیائے کرام کے علاوہ لوگوں سے بھی ثابت ہے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أمر بعبد من عباد الله أن يضرب في قبره مائة جلدة، فلم يزل يسأل ويدعو حتيّ صارت جلدة واحدة، فجلد جلدة واحدة، فامتلأ قبره عليه نارا، فلمّا ارتفع عنه قال علام جلد تموني ؟ قالوا : إنّك صلّيت صلاة بغير طھور، و مررت علي مظلوم فلم تنصره.
”اللہ کے ایک بندے کو قبر میں سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔ وہ مسلسل اللہ سے دعا کرتا رہا اور معافی مانگتا رہا حتیٰ کہ سزا میں ایک کوڑا باقی رہ گیا۔ اسے ایک ہی کوڑا مارا گیا تو اس کی قبر آگ سے بھر گئی۔ جب اس سے عذاب دور ہوا تو اس نے فرشتوں سے پوچھا : تم نے مجھے کس جرم پر کوڑا مارا ہے ؟ فرشتون نے کہا : تم نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے اور اس کی مدد نہیں کی تھی۔“ (مشكل الآثار للطحاوی : 231/4، وسنده حسن)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن کو قبر میں کہا جائے گا بیٹھ جا، وہ بیٹھ جائے گا۔ اسے سورج غرو ب ہوتا دکھایا جائے گا۔ اسے کہا جائے گا : تم اس آدمی کے بارے میں خبر دو جو تم میں ( مبعوث ہوئے ) تھے۔ اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ تم اس کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہو ؟ وہ کہے گا : دعوني حّي أصلّي، فيقولون : إنّك ستفعل، فأخبرني عمّا نسألك عنه. ”مجھے چھوڑو کہ میں ( عصر کی ) نماز پڑھ لوں۔ فرشتے کہیں گے : تم پہلے ہمیں سوال کا جواب دے دو، پھر عنقریب ایسا کر لو گے۔“ ( صحیح ابن حبان : 3113، المستدرک للحاکم : 380، 379/1، وسنده حسن)

امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔ ( مجمع الزوائد للھیثمی : 52،51/3)

ثابت البنانی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
اللّٰھم ! إن كنت أعطيت أحدا أن يصلّي لك في قبره، فأعطني ذلك
”اے اللہ ! اگر تو کسی کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنی قبر میں تیرے لیے نماز پڑھے تو مجھے یہ توفیق دینا۔“ ( مسند علی بن الجعد : 1379، المعرفۃ و التاریخ للفسوی : 59/2، شعب الایمان للبیھقی : 155/3، ح : 1391، وسندہٗ صحیحٌ)

قارئین کرام !
اب مسئلہ واضح ہو گیا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس دلائل نہیں۔ اسی لیے وہ ادھر ادھر ہاتھ مار رہے ہیں۔ جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں، وہ خواہ قرآنی ہوں یا حدیثی، اگر ان سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا تو سلف صالحین ضرور ایسا سمجھتے اور کرتے یا کم از کم اس کے جواز و مشروعیت کے قائل ہوتے۔

علامہ ابن الحاج ( م 737ھ) صلاۃ الرغائب کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ما حدث بعد السلف رضي الله عنهم لا يخلو إما أن يكونوا علموه وعلموا أنه موافق للشريعة ولم يعملوا به؟ ! ومعاذ الله أن يكون ذلك، إذ إنه يلزم منه تنقيصهم وتفيل من بعدهم عليهم، ومعلوم أنهم أكمل الناس في كل شيء وأشدهم اتباعا، وإما أن يكونوا علموه وتركوا العمل به؟ ولم يتركوه إلا لموجب أوجب تركه، فكيف يمكن فعله؟ ! هذا مما لا يتعلل، وإما أن يكونوا لم يعلموه، فيكون من ادعى علمه بعدهم أعلم منهم، واعرف بوجوه البر وأحرص عليها ! ولو كان ذلك خيراً لعلموه ولظهر لهم ومعلوم أنهم أعقل الناس وأعلمهم …
”جو چیزیں سلف صالحیں رضی اللہ عنہم کے بعد ظہور میں آئی ہیں۔ وہ تین حال سے خالی نہیں : یا تو سلف کو ان کا علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ چیزیں شریعت کے موافق ہیں، پھر انہوں نے ان پر عمل نہیں کیا۔ معاذ اللہ ! ایسا تو ممکن نہیں، کیونکہ اس سے سلف صالحین کی تنقیص ہوتی ہے اور بعد والوں کی ان پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ سب لوگوں سے ہر چیز میں کامل تھے اور سب سے بڑھ کر شریعت کا اتباع کرنے والے تھے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سلف صالحین کو ان چیزوں کا علم تو تھا، لیکن انہوں نے ان پر عمل چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کسی ایسی دلیل کی وجہ سے یہ عمل چھوڑا تھا جو اس کے چھوڑنے کو واجب کرتی تھی۔ جب ایسا تھا تو ان کا کرنا اب جائز کیسے ہوا ؟ پھر تو یہ ایسے کاموں میں سے ہیں جو حلال نہیں۔ تیسری صورت یہ فرض کی جا سکتی ہے کہ پھر سلف صالحین کو ان چیزوں کا علم ہی نہیں تھا۔ اسی طرح تو جو شخص ان کے بعد ان چیزوں کے علم کا دعویٰ کرے گا، وہ سلف سے زیادہ علم والا ہو گا اور نیکی کے کاموں کا زیادہ جاننے والا ہو گا اور نیکی پر زیادہ حریص ہو گا۔ حالانکہ اگر یہ نیکی کے کام ہوتے تو سلف صالحین ان کو جانتے ہوتے۔ یہ بات معلوم ہے کہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عقل مند اور عالم تھے۔۔۔“ ( المدخل لابن الحاج : 278/4)

 

مروجہ عید میلاد النبی بدعت ہے :

یہی حال ہے مروّجہ عید میلاد النبی کا۔ اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن و حدیث میں اگر اس کی کوئی دلیل ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین کو اس کا علم ہوتا اور وہ ضرور اس پر عمل کرتے۔ معلوم ہوا کہ یہ بلاشک و شبہ بدعت ہے، جیسا کہ :

(۱) تاج الدین عمر بن علی فاکہانی رحمہ اللہ (م 734 ھ) فرماتے ہیں :
إن عمل المولد بدعة مذمومة  ”مؤلد کا عمل مذموم بدعت ہے۔“ (الحاوی للفتاوی للسیوطی : 190/1،24 )

نیز فرماتے ہیں :
لا أعلم لھذا المولد أصلا في كتاب ولا سنّة، ولا ينقل عمله عن أحد من علماء الأمة الذين ھم القدوة في الدين المتمسّكون بآثار المتقدّمين، بل ھو بدعة أحدثھا البطّالون و شھوة نفس اعتني بھا الأكّالون.
”میں اس میلاد کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں پاتا۔ نہ ہی اس کا عمل ان علمائے امت سے منقول ہے جو دین میں ہمارے پیشوا ہیں اور مقتدمین کے آثار کو لازم پکڑنے والے ہیں، بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جسے باطل پرست لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور ایسی نفسانی خواہش ہے جس کا اہتمام شکم پرور ( پیٹ پرست) لوگوں نے کیا ہے۔“ ( الحاوی للسیوطی : 190، 191/1)

(۲) علامہ شاطبی رحمہ اللہ ( م 790 ھ) نے بھی عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیا ہے۔ ( الاعتصام للشاطبی : 39/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661-728ھ) فرماتے ہیں :
فإن هذا لم يفعله السلف، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان ھذا خيراً محضًا، أو راجحاً لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله وتعظيماً له منا، وهم على الخير أحرص.
”یہ کام سلف صالحین نے نہیں کیا، باوجود اس بات کے کہ اس کا تقاضہ ( تعظیم رسول ) موجود تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی۔ اگر یہ کام بالکل خیر والا یا زیادہ خیر والا ہوتا تو اسلاف اس پر عمل کے حوالے سے ہم سے زیادہ حقدار تھے، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں سے بڑھ کر تھے اور وہ نیکی کے زیادہ طلب گار تھے۔“ (اقتضاء الصراط المستقيم لا بن تيمية : ص 295)

(۴) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ( 773-852ھ) فرماتے ہیں :
أصل عمل المولد بدعة، لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة.
”میلاد کے عمل کی اصل بدعت ہے۔ یہ عمل تین ( مشہود لہا بالخیر) زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں۔“ ( الحاوی للفتاوی للسیوطی : 196/1)

(۵) محمد بن محمد بن محمد ابن الحاج ( م 737ھ) فرماتے ہیں :
فأن خلا منه و عمل طعاما فقط، ونوي به المولد و دعا إليه الإخوان، وسلم من كلّ ما تقدّم ذكره، فھو بدعة بنفس نيّته فقط، لأنّ ذلك زيادة في الدين وليس من عمل السلف الماضين، واتّباع السلف أولي، ولم ينقل عن أحد منھم أنه نوي المولد، ونحن تبع، فيسعنا ما وسعھم.
”اگر میلاد اس ( گانے ) سے خالی ہو اور صرف کھانا بنایا جائے اور نیت میلاد کی ہو اور کھانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جائے۔ یہ کام اگر مذکورہ قباحتوں سے خالی بھی ہو تو یہ صرف اس کی نیت کی وجہ سے بدعت بن جائے گا، کیونکہ یہ دین میں زیادت ہے۔ سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں۔ سلف کی اتباع ہی لائق عمل ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی کام کیا ہو۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں۔ ہمیں وہی عمل کافی ہو جائے گا جو سلف کو کافی ہوا تھا۔“ ( الحاوی للفتاوی للسیوطی : 195/1)

(۶) حافظ سخاوی رحمہ اللہ ( 831-902ھ) لکھتے ہیں :
لم يفعله أحد من القرون الثلاثة، إنّما حدث بعدُ.
”یہ کام تینوں زمانوں ( صحابہ، تابعین اور تبع تابعین ) میں سے کسی نے نہیں کیا۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔“ (جاء الحق از نعیمی : 236/1)

(۷) حافظ سیوطی رحمہ اللہ ( 849-911ھ) فرماتے ہیں :
وأوّل من أحدث فعل ذلك صاحب أربل الملك المظفّر أبو سعيد كوكبري…
”سب سے پہلے جس نے اسے ایجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری تھا۔“ (الحاوی للفتاوی للسیوطی : 189/1،24 )

 علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بعد کی ایجاد ہے۔ ابن الحاج رحمہ اللہ (م 737 ھ) نے کیا خوب کہا ہے :
فالسعيد السعيد من شدّيده على امتثال الكتاب والسنّة و الطريق الموصلة إلى ذلك، وھى اتّباع السلف الماضين رضوان الله عليھم أجمعين، لأنّھم أعلم بالسنّة منّا، إذھم أعرف بالمقال، وأفقه بالحال…
”کتنا خوش بخت ہے وہ شخص جو کتاب و سنت پر عمل اور کتاب و سنت کی طرف پہنچانے والے راستے کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ کتاب و سنت کی طرف پہنچانے والا راستہ سلف صالحین رضی اللہ عنہم کا راستہ ہے، کیونکہ وہ سنت کو ہم سے بڑھ کر جاننے والے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ عالم، دین کے متعلق باتوں کو بخوبی جاننے والے اور اس وقت کے حالت کو زیادہ سمجھنے والے تھے۔“ ( المدخل لابن الحاج : 10/2)

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ ( 737-795ھ) نے بھی کیا خوب لکھا ہے :
فأمّا ما اتّفق السلف علي تركه، فلا يجوز العمل به، لأنّھم ماتركوه إلّا علي علم أنّه لا يعمل به
”جس کام کو چھوڑنے پر سلف صالحین نے اتفاق کیا ہو، اس پر عمل جائز نہیں، کیونکہ بلاشبہ انہوں نے یہ جان کر ہی اسے چھوڑا ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔“ ( فضل علم السلف علی علم الخلف لابن رجب : ص 31 )

معلوم ہوا کہ جس کام کے چھوڑنے پر سلف صالحین متفق ہوں، اس کام کو کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا جشن عید میلاد النبی اور ذکر ولادت پر کھڑا ہونا اور اس طرح کی دوسری بدعات و خرافات سلف صالحین، ائمہ اہل سنت اور مقدمین سے قطعاً ثابت نہیں ہیں، لہٰذا یہ امور بدعات سیئہ اور افعال شنیعہ ہیں۔

 

یہ تحریر اب تک 60 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply