قصہ اس ٹیڑھی کھجور کا جس کی شاخیں مسکینوں کے گھر میں لٹکتی تھیں

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

قصہ اس ٹیڑھی کھجور کا جس کی شاخیں مسکینوں کے گھر میں لٹکتی تھیں
عوامی اور قصہ گو خطباء کے ہاں یہ واقعہ بڑا مشہور ہے حافظ ابن کثیر ب رحمہ اللہ کہتے ہیں ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا، باغ والا جب اس درخت کی کھجوریں اتارنے آتا تو اس مسکین کے گھر میں جا کر وہاں کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انھیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آکر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا، اس مسکین نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اچھا تم جاؤ اور آپ اس باغ والے سے ملے اور فرمایا کہ تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکیین کے گھر میں ہیں، مجھے دے دے الله تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا، کہنے لگا اچھا حضرت میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت ؟ اگر یہ درخت میرا ہو جائے اور میں آپ کا کر دوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی ایک باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ حضرت مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت کہہ رہے تھے میں نے یہ جواب دیا کہ یہ سن کر خاموش ہو رہے، پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا نہیں ؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دے دے لیکن کون دے سکتا ہے؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو؟ کہا : چالیس درخت کھجوروں کے۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس پھر اور باتوں میں لگ گئے، پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے میں ہی خریدتا ہوں اس نے کہا : اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کر لو، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہو گیا گواہ مقرر ہو گئے، پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگے کہ دیکھے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا اس نے بھی ایسا کہا بہت اچھا میں ایسا احمق ہوں کہ تیرے درخت کے بدلے جو خم کھایا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا، اچھا اچھا مجھے منظور ہے لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے عمده لوں گا اس نے کہا : اچھا منظور چنانچہ گواہوں کے رو برو یہ سودا طے ہوا اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! اب وہ درخت میرا ہو گیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے یہ درخت تمھارا ہے اور تمھارے بچوں کا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [تفسير ابن كثير، تفسير سورة اليل پاره ۳۰ الدر المنثور 62/6 الواحدى فى اسباب النزول 852]
اس میں حفص بن عمر العدنی راوی ضعیف ہے۔ نیز یہ سورت مکی ہے اور ان کا سیاق و سبق مدنی ہے۔
——————

اگر ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوتے تو میں انھیں خلیفہ مقرر کر دیتا فرمان عمر رضی اللہ عنہ
ثابت بن الحجاج کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (جبکہ وہ شدید زخمی تھے) کہا اگر آج ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ مقرر کر دیتا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مستدرك حاكم 268/3 حديث رقم 5165، كنز العمال 216/13]
اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
——————

جنگ بدر میں ابوعبیدہ نے اپنے والد کو قتل کر دیا اللہ نے قرآن نازل کر دیا
مشہور واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں ابوعبیدہ بن الجراح کے والد کفر کی حمایت میں مسلمانوں کے مقابلے پر آئے تو ابو عبیدہ بن الجراح نے ان کو قتل کر دیا، الله تعالی نے ابوعبیدہ کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی۔
« ولا تجد قوما يومنون بالله واليوم الآخر …… الخ » [سورة مجادلة، آيت: 22]
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مستدرك حاكم 265/3 رقم الحديث 5152 تلخيص الجير 102/4 حديث 1859]
اس کی سند مرسل (ضعیف) ہے۔
——————

اہل کتاب کے ایک عالم کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تصویر
بیہقی کہتے ہیں ہمیں خبر دی شیخ ابو الفتح رحمہ اللہ نے اپنی اصل کتاب سے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو حدیث بیان کی عبدالرحمن بن ابوشریح ہروی نے، ان کو یحییٰ بن محمد بن صاعد نے، ان کو عبداللہ بن شبیب نے، ان کو ابوسعید ربعی نے، ان کو محمد بن عمر بن سعيد بن محمد بن جبیر بن مطعم نے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی ام عثمان بنت سعيد بن محمد بن جبیر بن مطعم نے اپنے والد سعيد بن محمد بن جبیر سے، اس نے اپنے والد سے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا اپنے والد جبیر بن مطعم سے، وہ کہتے تھے الله تعالی نے جب اپنے نبی کو بھیجا اور اس کا معاملہ مکے میں ظاہر ہو گیا میں شام کی طرف گیا۔ جب میں مقام بصری میں پہنچا تو میرے پاس انصار کی ایک جماعت آئی، انھوں نے مجھ سے کہا کیا آپ ارض حرم سے آئے ہو؟ میں نے بتایا کہ جی ہاں۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ پہچانتے ہو اس شخص کو جس نے تم لوگوں میں نبوت کا دعوی کیا ہے؟ میں نے بتایا جی ہاں۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے عبادت خانے میں لے گئے۔ اس میں مورتیاں اور بت رکھے ہوئے تھے یا تصویریں اور شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا تم دیکھو کیا تم دیکھتے ہو اس نبی کی شبیہ اور شکل جو تمھارے اندر بھیجا گیا ہے؟ میں نے ان سب میں نظر ماری مگر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل اور شبیہ نظر نہ آئی۔ میں نے بتایا کہ میں اس نبی کی شکل اور اس کی صورت نہیں دیکھ رہا ہوں۔
اس کے بعد وہ مجھے اس سے بہت بڑے معبد خانے میں لے گئے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ اس میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ شبہیں اور تصویریں موجود ہیں۔ اب انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اب آپ دیکھیے، کیا آپ اس نبی کی صورت یہاں دیکھتے ہیں؟ میں نے نظر ماری تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کے مطابق شبیہ موجود ہے۔ پھر میں نے دیکھا وہاں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شبیہ اور صورت بھی موجود ہے اور (اس تصویر میں) ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑی کو پکڑے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے اس نبی کی صورت اس کی صفت پر دیکھی ؟ میں نے ان کو بتایا جی ہاں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا وہ یہ ہیں؟ اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ صورت کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ میں نے ان کو بتایا اے اللہ ! ہاں یہی ہیں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ وہی ہیں۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کیا آپ اس شخص کو پہچانتے ہیں جو ان کی ایڑی کو پکٹرے ہوئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ جی ہاں پہچانتا ہوں۔ ان لوگوں نے کہا ہم سب گواہی دیتے ہیں کہ یہی تم لوگوں کا نبی ہے اور یہ دوسرا ایڑی پکڑنے والا اس کے بعد اس کا جانشین ہے۔
بخاری نے اس کو روایت کیا ہے تاریخ میں محمد سے جو غیر منسوب ہے، اس نے محمد بن عمر سے یہ اسی اسناد کے ساتھ ہے۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ منکر۔
اس کی سند منکر ہے۔ [اخرجه الطبراني فى الكبير 1537 و الاوسط 8227 مجمع الزوائد 233/8، 234]
ہیثمی کہتے ہیں اس میں مجہول راوی ہے۔ [التاريخ الكبير للبخاري 179/1 دلائل النبوة للبيهقي]

اس تحریر کو اب تک 33 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply