ہجرت مدینہ اور حضرت علی کا بستر پر سونا

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

ہجرت مدینہ ہجرت دن کو ہوئی یا رات کو حضرت علی کا بستر پر سونا
حکیم عبدالروف دانا پوری اپنی کتاب اصح السیر میں ص 106 پر ہجرت مدینہ کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں۔ جب کفار نے دیکھا کہ اصحاب رسول اللہ چلے گئے۔ اپنا مال و متاع اور اپنے ذراری و اطفال کو بھی ساتھ لے گئے اور اوس وخزرج کے قبیلے جوز بردست اور ذی اثر قبیلے ہیں وہ ان کے ساتھ ہیں۔ تو ان کو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سخت خطرہ ہوا۔
سب کے سب دارالندوہ میں جمع ہوئے۔ اور یہ ان کا ایسازبردست اجتماع تھا۔ کہ کوئی اہل الرائے ایسا نہ تھا جو اس مشورہ میں شریک نہ ہوا ہو ان کا اصلی سردار ابلیس ایک شخص کبیر کی شکل میں موجود تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی مختلف تدبیریں کی گئیں۔ سب کو اس شیخ کبیر نے ناپسند کیا۔ آخر ابوجہل نے یہ تدبیر پیش کی۔ کہ تمام قبائلی سے ایک ایک جوان لیا اور ان سب کو تلوار دی جائے۔ یہ سب مل کر ایک ضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ کر دیں۔ اس طرح ان کا دم بہت سے قبائل میں تقسیم ہو جائے گا۔ اور تمام قبائل کا بنی عبد مناف مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بالفرض اگر انہوں نے دیت چاہی تو ہم سب مل کر دیت ادا کر دیں گے۔ بڈھے شیخ نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور یہی رائے طے پائی۔
——————

ہجرت کا حکم اور ہجرت نبوی :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ کفار کے مشورے کی خبر دی۔ ہجرت کا حکم ہوا۔ اور فرمایا کہ آج رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک دوپہر کے وقت جا کر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو ہجرت کی خبر دیدی تھی۔ شب کے وقت کفار دروازے پر جمع ہو گئے۔ اور مکان گھیر گیا۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ اور یہ آیت تلاوت فرمائی «وجعلنا من بين ايديهم سدا الآية.» اور ایک مٹھی بطحا کی خاک لے کر پھینکی۔ جو تمام کفار کے سروں پر پڑی۔ اور آپ نکل کر چلے گئے۔ کسی کافر نے آپ کو نہ دیکھا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے سے ان کے مکان میں گئے۔ اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر دوسری طرف کھڑکی کے راستے روانہ ہو گئے۔ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع تھے۔ ایک شخص نے آ کر کہا کہ اب کیا کر رہے ہو وہ تو تمہارے سروں پر خاک ڈال کر چلے بھی گئے۔ کفار نے دیکھا تو سب کے سروں پر خاک تھی۔ وہ صاف کرنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو کر غار ثور پر پہنچے۔ اور تین دن تک اس میں رہے۔ مکڑی نے جالا تن دیا۔ پرندوں نے اس پر انڈے دیئے۔ کفار تلاش میں غار کے منہ تک پہنچے مگر خدا نے آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ [اصح السير ص 106]
یہ ہجرت کے واقعہ کا ابتدائی حصہ ہے۔ جو مکہ سے غارثور تک کے واقعات پر مبنی ہے۔
اس حصہ میں خاص طور پر چند امور سامنے آتے ہیں۔
➊ صحابہ کرام رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل سب مدینہ چلے گئے تھے۔ اور اپنا مال ومتاع بھی ساتھ لے گئے تھے۔
➋ ہجرت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر دوبارہ تشریف لے گئے۔ ایک بار میں دوپہر کے وقت اور ایک بار رات کے وقت دن میں صرف اطلاع دینے تشریف لے گئے تھے۔
➌ آپ نے ہجرت رات کے وقت اپنے گھر سے فرمائی۔
➍ اپنے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سلایا۔
➎ کفار نے آپ کے خلاف قتل کا منصوبہ تیار کیا۔ جس میں بنو عبد مناف کے علاوہ تمام قریش کے با اثر اشخاص شامل تھے۔
➏ سب نے آپ کے مکان کو گھیر لیا لیکن آپ ان کے سروں پرمٹی ڈال کر چلے آئے۔
➐ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تنا۔ اور پرندوں نے انڈے دیئے۔
➑ ابوبکر کے گھر سے غار ثور تک کے تمام واقعات کا کوئی ذکر حکیم صاحب نے نہیں کیا۔
تحقیق الحدیث :
یہ تمام واقعات طبری اور ابن سعد میں واقدی اور ابن ہشام میں محمد بن اسحاق سے مروی ہیں۔ جن کا تفصیلی حلیہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ لیکن عقلی طور پر بھی یہاں چند اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔
➊ ان تمام واقعات کا مشاہدہ کرنے والا کون تھا؟ ابن اسحاق اور واقدی اس کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔
➋ ابوبکر کے گھر سے لے کر غار ثور تک کے تمام واقعات جن کا تعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے گھرانے سے ہے۔ انہیں حکیم صاحب نے کیا اس لئے نظر انداز کیا ہے کہ سبائی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں اس کی تکمیل کی جا سکے۔
➌ حضور کے گھر میں اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔ آپ کی دائی حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سودا رضی اللہ عنہا اور آپ کے متنبیٰ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ گھر میں تنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ تھے۔ اور اہل عرب زنانہ مکان میں داخل نہ ہوتے تھے۔ ورنہ گھر گھیرنے اور پوری رات باہر کھڑے
رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر لٹانے سے بجز افسانہ تراشی کے اور کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ آپ کی روانگی کی اطلاع تو صبح کے وقت کسی نہ کیس سے ہو سکتی تھی۔
➍ اس کہانی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت رات کے وقت ہوئی۔ حالانکہ اہل مکہ ہمیشہ رات ہی میں سفر کرتے۔ اور رات ہی میں ان کا کاروبار ہوتا۔ جیسا کہ آج تک مکہ معظمہ مدینہ منورہ اور جدہ میں نظر آتا ہے۔ کہ اہل عرب زیادہ تر رات جاگ کر گزارتے۔ اور دن میں سوتے ہیں۔ اس لحاظ سے رات کا وقت آمد ورفت کا وقت تھا۔ اور تجارت کے لئے انتہائی خطرناک وقت۔ مناسب تو یہ تھا کہ ہجرت دوپہر کے وقت کی جاتی۔ جب گرمی کی شدت کے باعث لوگ گھروں میں بند ہوتے۔ اور واقعہ بھی ایسا ہی پیش آیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں آ رہا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو سبائی داستانیں کیسے تیار ہوتیں۔
➎ اگر مٹی ڈالنے سے مقصود یہ تھا کہ وہ دیکھ سکیں تو پھر تو مٹی آنکھوں میں ڈالنی چاہئے تھی۔ سروں پر مٹی ڈالنے سے اس کے علاوہ اور کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ دشمن ہوشیار ہو جائے اور چاروں طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگے۔
➏ حکیم دانا پوری صاحب نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ حضور سے قبل تمام صحابہ اپنا مال و متاع لے کر ہجرت کر گئے تھے۔ تو ان کی خدمت میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ سب ہی نے ہجرت نہ کی تھی۔ اور متعدد افراد اور عورتیں کافر کے گھروں میں محصور تھیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اب اپنا مال ومتاع لے کر چلے گئے تھے۔ تو کاش حکیم صاحب قرآن ہی کھول کر دیکھ لیتے۔ وہ مہاجرین کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے۔
«الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ»
”وہ لوگ جو اپنے شہروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے۔“
اور تاریخ کے ناطے اس پر غور کر لیتے کہ پھر انصار سے ان کے بھائی چارے کی کیا ضرورت تھی۔ اور انصار نے جو اپنے کھجور کے درخت انہیں پیش کئے اس کی کیا ضرورت واقع ہوئی تھی اور ان تمام واقعات کی تفصیل خود حکیم صاحب نے بیان کی ہے۔یہ تمام امور اس کی تردید کے لئے کافی ہیں۔ تاریخ کا ہرگز مقصود یہ نہیں ہوتا کہ آگے پیچھے سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔ اور عقل کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ یہ کام تو وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پیش نظر کوئی خاص مخفی منصوبہ ہو۔
اس سے قبل کہ ہم اس واقعہ کی حقیقت پیش کریں۔ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاک و ہند کے سب سے بڑے مورخ علامہ شبلی مرحوم کا نقطۂ نگاہ بھی پیش کر دیا جائے۔
علامہ شبلی لکھتے ہیں۔
نبوت کا تیرہواں سال شروع ہوا۔ اور اکثر صحابہ مدینہ پہنچ چکے تو وحی الہی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینے کا عزم فرمایا۔ یہ داستاں نہایت پر اثر ہے۔ اور اسی وجہ سے امام بخاری نے باوجود اختصار پسندی کے اس کو خوب پھیلا کر لکھا ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی لکھا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو اس وقت آٹھ برس کی تھیں۔ لیکن ان کا بیان در حقیقت خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ان ہی سے سن کر کہا ہوگا۔ اور ابتدائے واقعہ میں وہ خود بھی موجود تھیں۔
قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان المدینہ میں جا کر طاقت پکڑتے جا رہے ہیں۔ اور وہاں اسلام پھیلتا جاتا ہے۔ اس بناء پر انہوں نے دارالندوہ میں جو دار الشوری تھا۔ اجلاس عام کیا۔ ہر قبیلہ کے رؤساء بین عتبہ، ابوسفیان، جبیر بن مطعم، نضر بن حارث بن کلدہ ابو البختری بن ہشام، زمعة بن اسود بین مطلب، حکیم بن حزام، ابوجہل، نبسیہ، متبہ اور امیی بن خلف وغیرہ سب شریک تھے۔ لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں۔ ایک نے کہا محمد کے پاؤں میں زنجیر ڈال کر مکان میں بند کر دیا جائے۔ دوسرے نے کہا جلا وطن کرنا کافی ہے۔ ابوجہل نے کہاکہ قبیلہ سے ایک شخص منتخب ہو اور پورا مجمع ایک ساتھ مل کر تلواروں سے ان کا خاتمہ کر دے۔ اس صورت میں ان کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا۔ اور آل باشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ اس اخیر رائے پر اتفاق ہو گیا۔
اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے۔ اس لئے باہر ٹھہرے رہے کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکلیں تو یہ فرض ادا کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کو اس درجہ عداوت تھی۔ تاہم آپ کی دیانت پر یہ اعتماد تھا کہ جس شخص کو کچھ مال و اسباب امانت رکھنا ہوتا تھا۔ آپ کے پاس لاکر رکھتا تھا۔ اس وقت بھی آپ کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں۔ آپ کو قریش کے ارادے کی پہلے سے خبر ہو چکی تھی۔ اس بناء پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے۔ میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔ تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہو۔ صبح کو سب کی امانتیں جا کر واپس دے آنا۔ یہ سخت خطرہ کا موقعہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو چکا تھا۔ کہ قریش آپ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں۔ اور آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر خواب قتل گاہ کی زمین ہے لیکن فاتح خیبر کے لئے قتل گاہ فرش گل تھا۔
شبلی مرحوم نے اوپر یہ دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ ہجرت کا واقعہ صحیح بخاری میں بالتفصيل موجود ہے۔ اس واقعہ کو ہم بخاری سے نقل کرتے ہیں۔ تو ہم اللہ کو حاضر ناظر مان کر اور اس کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سے ایک لفظ بھی صحیح بخاری میں موجود نہیں۔ ہاں ان کی اس داستاں سرائی سے جس کے اصل بانی ابن اسحاق او رواقدی ہیں چند سوالات ضرور ذہن میں آتے ہیں۔
➊ جب ابل عرب زنانہ خانے میں داخل ہونے کو معیوب تصور کرتے تھے۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹانے اور انہیں چادر اوڑھانے میں کیا حکمت پوشید تھی۔ اور گھر میں ان کے لئے کیا خطرہ ہو سکتا تھا جو اسے بلاوجہ ہوا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ سبائیوں کے پیش نظر تو انہیں مشکل کشا بنانا تھا۔ لیکن اہل سنت کے پیش نظر آخر کیا ہے۔ جو نہیں یہ قلابازیاں کھانے کی ضرورت پیش آئی۔
➋ حکیم عبدالروف نے مجلس شوری کے اجلاس سے بن عبد مناف کو علیحدہ کیا تھا۔ آپ نے بنو ہاشم کو۔ ان دونوں جملوں سے بہت بڑا فرق واقع ہوتا ہے۔ حکیم عبدالروف کے بقول اس اجلاس میں عتبہ، ابوسفیان اور زمعة بن الاسود بن المطلب شریک ہی نہ تھے۔ کیونکہ ان تینوں کا تعلق بنو عبد مناف سے تھا۔ اور علامہ شبلی نے ان تینوں کا نام فہرست میں شامل کیا ہے اور اتفاق سے دونوں حضرات نے اس فہرست کے لئے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا گویا یہ فہرست تو خود ساختہ ہے اس دور کے جتنے افراد کے نام ذہن میں آتے گئے لکھتے گئے۔ اور اس کا سب سے اہم ثبوت یہ ہے کہ اس فہرست میں حکیم بن حزام کا نام بھی موجود ہے۔ حالانکہ شبلی نے خود مختلف مقامات پر لکھا ہے کہ یہ زید بن عمرو بن نفیل سے متاثر تھے۔ اسی لئے بت پرستی سے نفرت کرتے تھے۔ حضور کے بچپن کے دوست تھے، جنگ بدرانہوں نے رکوانے کی کوشش کی تھی اور جب حضور شعب بنی ہاشم میں محصور تھے تو یہ چھپ کر غلہ بھیجا کرتے تھے۔ ایک جانب تو حالت کفر میں بھی ان کی یہ خوبیاں گنوائی جائیں۔ اور انہیں حضور کا دوست ثابت کیا جائے۔ دوسری جانب منصوبہ قتل میں ان کا نام شامل ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی خاص مقصد کے تحت ہمارے مؤرخین نے ان کا نام شامل کیا ہے۔
شبلی مرحوم آگے لکھتے ہیں۔
ہجرت سے دو تین دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پر گئے۔ دستور کے موافق دروازے پر دستک دی۔ اجازت کے بعد گھر میں تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کچھ مشورہ کرنا ہے سب کو ہٹا دو۔ بولے کہ یہاں آپ کی حرم کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہو چکی تھی۔ آپ نے فرمایا مجھ کو ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت بیتابی سے کہا۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ کیا مجھ کو بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوگا۔ ارشاد ہوا۔ ہاں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے لئے چار مہینے سے دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کچھ کھلا کھلا کر تیار کی تھیں۔ عرض کی کہ ان میں سے ایک آپ پسند فرمائیں۔ محسن عالم کو کسی کا احسان گوارا نہ ہو سکتا تھا۔ ارشاد ہوا اچھی مگر بہ قیمت۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجبورا قبول کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت کم سن تھیں۔ ان کی بڑی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جو حضرت عبد الله بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ سفر کا سامان کیا۔ دو تین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا۔ نطاق جس کو عورتیں کمر سے لپیٹتی ہیں۔ پھاڑ کر اس سے ناشتہ دان کا منہ باندھا۔ یہ وہ شرف تھا۔ جس کی بناء پر آج تک ان کو ذات النطاقین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
علامہ شبلی نے یہ پیراگراف صحیح بخاری سے نقل کیا ہے۔ لیکن صحیح بخاری کے ابتدائی الفاظ میں برملا تحریف کی۔ کیونکہ بخاری میں تو اسی دن کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اسی وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہجرت شروع ہو گئی۔ شبلی نے ابوبکر کے گھر جانے اور اس تمام گفتگو کو دو تین دن قبل کا واقعہ بیان کیا ہے۔ تاکہ صحیح بخاری کا نام بھی باقی رہے۔ اور واقدی و ابن اسحاق کی داستاں بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ دراصل اس مقام پر علامہ شبلی نے دوکشتیوں میں پاؤں ٹکا رکھے ہیں یعنی حدیث اور تاریخ۔ اور چاہتے یہ ہیں کہ کوئی کشتی قابو سے باہر نہ ہو لیکن اس کام کے لئے تاریخی داستاں کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تو وہ ہرگز تیار نہیں۔ بلکہ اس کی بقا کے لئے جابجا حدیث میں ضرور تحریف سے کام لیا ہے۔
ایک جانب تو یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور راہ کے تمام واقعات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان ہی سے نقل کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے ہجرت کی تھیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کس وقت اور کہاں آپ سے آ کر لے۔ حکیم عبدالرؤف نے اس کا حل نکالا کہ رات کو دوبار حضور کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر بھیجا۔ تاکہ آپ وہاں سے زادراہ لے سکیں اور سواری پر سوار ہو سکیں۔ لیکن شبلی نے زاد راہ تین دن میں بندھوا لیا۔ حالانکہ کھانا تین روز قبل کوئی نہیں بندھوتا۔ اور وہ اشکالات على حالہ قائم رہے۔ یہ اشکالات اسی صورت میں رفع ہو سکتے تھے۔ جب کہ صحیح بخاری کی روایت کو من وعن قبول کیا جاتا لیکن پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کانٹوں کا بستر کیسے تیار ہوتا۔ اور ان کی فضیلت کیسے ثابت ہوئی۔ حالانکہ نہ ہر فضیلت ہر صحابی کو حاصل ہوتی ہے اور نہ ہر صحابی کو ہر واقعہ میں زبردستی گھسیٹا جا سکتا ہے۔ شبلی آگے لکھتے ہیں۔
کفار نے جب آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ اور رات زیادہ گزر گئی تو قدرت نے ان کو بےخبر کر دیا۔ اور آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سوتا ہوا چھوڑ کر باہر آئے۔
ہم علامہ شبلی کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے کم از کم سروں پر خاک ڈالنے اور پھر ہر ایک کے سر سے خاک جھڑوانے کے عمل کا تذکرہ نہیں کیا۔ کیونکہ انہیں بھی اس کے مہمل ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔ لیکن ہم قسم کھا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ بخاری میں گھر کے محاصرہ کرنے اور راستے سے نکلنے کا کوئی ذکر نہیں شبلی آ گے لکھتے ہیں۔
کعبہ کو دیکھا اور فرمایا : مجھ کو تمام دنیا سے عزیز ہے لیکن تیرے فرزندہ مجھ کو ر ہنے نہیں دیتے۔
حیرت ہے کہ شب کی تاریکی میں کعبہ کیسے نظر آیا۔ کیا وہاں بجلی کے قمقمے جگمگا رہے تھے۔ شبلی آگے لکھتے ہیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پہلے قرارداد ہو چکی تھی (یہ شبلی کے ذہن کی پیداوار ہے)۔
دونوں صاحب پہلے جبل ثور کے غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے۔ یہ غار آج بھی موجود ہے اور بوسہ گاہ خلائق ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جو نوخیز جوان تھے۔ شب کو غار میں سوتے۔ صبح منہ اندھیرے شہر چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا مشورے کر رہے ہیں۔ جو کچھ خبر ملتی۔ شام کو آ کر آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا غلام کچھ رات گئے بکریاں چرا کر لاتا۔ اور آپ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کا دودھ پی لیتے۔ تین دن تک صرف یہی غذا تھی۔ لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ روزانہ شام کو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا گھر سے کھانا پکا کر غار میں پہنچا آتی تھیں۔ اس طرح تین راتیں غار میں گزریں۔
صبح کو قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ پر آنخضرت کے بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ ظالموں نے آپ کو پکڑ کر اور تھوڑی دیر حرم میں لے جا کر رکھا۔ اور پھر چھوڑ دیا۔
یہ جملہ شبلی نے طبری کے حوالہ سے نقل کیا ہے لیکن جب بقول شبلی عرب زنخانے میں داخل نہ ہوتے تھے تو پھر مکان میں داخل ہوئے بغیر حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر پر کیسے نظر آ گئے اگر یہ کہا جاتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ضرورت سے باہر نکلے تو ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ تو اسے عقل سلیم قبول کر لیتی۔ لیکن پھر بستر پر سلانے کا عمل بےکار ہو جاتا۔ ہاں طبری کے بیان سے ضرور ثابت ہو گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کوئی خطرہ نہ تھا بلاوجہ بستر کو کانٹوں کا بستر بنایا جا رہا تھا۔ اس لئے کہ جس جملے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی وہاں وہ ردعمل کچھ بھی ظاہر نہیں ہوا۔ اور چند منٹ حرم میں بٹھانے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا گیا۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ شبلی آگے لکھتے ہیں۔
پھر کفار آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈ تے غار کے دہانے تک آگئے۔ آہٹ پاکر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ غمزدہ ہو گئے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اب دشمن اس قدر قریب آگئے کہ اگر اپنے قدموں پر ان کی نظر پڑ جائے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ آپ نے فرمایا۔
«لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا»
”غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
مشہور ہے کہ جب کفار غار کے قریب آ گئے تو اللہ نے حکم دیا۔ دفعة ببول کا درخت اگا۔ اور اس کی ٹہنیوں نے پھیل کر آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا۔ ساتھ ہی دو کبوتر آئے۔ اور گھونسلا بنا کر انڈے دئیے۔ حرم کے کبوتر ان ہی کبوتروں کی نسل سے ہیں۔ اس روایت کو مواہب لدینہ میں تفصیل سے نقل کیا ہے۔ اور زرقانی نے بزاز وغیرہ سے اس کے ماخذ بتائے ہیں لیکن یہ تمام روایتیں غلط ہیں۔ اس روایت کا اصل راوی عون بن عمرو ہے۔ اس کی نسبت امام فن رجال یحییٰ بن معین کا قول ہے لا شيء یعنی ہی ہیچ ہے۔ امام بخاری نے کہا کہ وہ منکر الحدیث اور مجہول ہے۔ اس روایت کا ایک اور راوی ابو مصعب مکی ہے۔ وہ مجہول الحال ہے۔ چنانچہ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں عون بن عمرو کے حال میں یہ تمام اقوال نقل کئے ہیں۔ اور خود اس روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔
اس روایت کے موضوع ہونے پر ہم بھی شبلی نعمانی سے متفق ہیں۔ لیکن کاش وہ ہر روایت کی اسی طرح چھان بین کر لیتے تو کیا اچھا ہوتا۔ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ تاریخ کے معاملے میں سب سے چشم پوشی اختیار کی۔ اور کسی نے بھی اسے تنقیدی نگاہ سے نہیں دیکھا شیعوں نے اسے اپنے مذہبی اور سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں ہم سبائی داستانوں کے پھندے میں ایسے پھنسے کہ گلے تک اس میں دھستے چلے گئے اور کسی کو احساس بھی نہ ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ حتی کہ وہی داستانیں اب ہمارے لئے دین و ایمان بن گئیں۔

اس تحریر کو اب تک 233 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply