دوران جماعت مقتدیوں کا خیال رکھا جائے

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 703]
” جو شخص دوسروں کی امامت کرائے اسے چاہئے کہ تخفیف سے کا م لے۔ “
فوائد :
دوران جماعت امام کو چاہئے کہ وہ مقتدی حضرات کا خیال رکھے، کیونکہ ان میں ناتواں، بوڑھے، بیمار اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔ تخفیف کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خشوع و خضوع کے بغیر اطمینان اور اعتدال کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے جلد از جلد نماز کو سمیٹ لے بلکہ وہ صرف قرأت میں تخفیف کرے گا۔ رکوع اور سجود کو پورا کرنا ہو گا، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔
امام کو صرف قیام میں تخفیف کرنی چاہئے البتہ رکوع اور سجدہ کو پورا کرنا ہو گا۔ [صحيح بخاري، الاذان، باب نمبر 6 ]
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نماز لمبا کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے پیچھے کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیتے کیونکہ اس کے رونے سے ماں کی پریشانی کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم جانتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 709]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں صبح کی نماز سے دانستہ پیچھے رہتا ہوں کیونکہ ہمارے امام بہت لمبی قرأت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے غضبناک ہو کر فرمایا :
”تم میں سے کچھ نفرت پیدا کرتے ہیں، جو شخص دوسرون کو امامت کرائے اسے چاہئے کہ تخفیف سے کام لے کیونکہ لوگوں میں ناتواں، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 702]
ان احادیث کے پیش نظر مقتدی حضرات کا خیال کرتے ہوئے مختصر قرأت اور مختصر اذکار سے نماز کی طوالت کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی ادائیگی میں مکمل خشوع اور اطمینان ہونا چاہئے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر مگر مکمل پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 706]

اس تحریر کو اب تک 9 بار پڑھا جا چکا ہے۔