امامت کا مستحق کون ہے ؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : امامت کا کیا معیار ہے اور امامت کا سب سے زیادہ کون حق دار ہے ؟
جواب : اس کے متعلق سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[مسلم، كتاب المساجد : باب من أحق بالإمامة 673 ]
”لوگوں کا امام وہ ہونا چاہیے جو ان میں اچھی طرح قرآن کی قرأت جانتا ہو۔ اگر وہ قرأت میں برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو، اگر سنت میں برابر ہوں تو جو ان میں سے ہجرت میں مقدم ہو، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو سب سے پہلے اسلام لانے والا ہو۔ کوئی آدمی دوسرے آدمی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کے اپنے بیٹھنے والی جگہ بیٹھے مگر اس کی اجازت لے کر۔“
حدیث کے بعض طرق میں اسلام کی جگہ عمر کا بھی ذکر آتا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ قاری قرآن پھر سنت کے عالم کا علی الترتیب امامت کے لیے انتخاب ہونا چاہیے اور جو امام منتخب ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امامت کرائے کیونکہ اس کے پیچھے بچے، ضعیف، بیمار، مسافر اور مختلف قسم کے افراد ہو تے ہیں، لہٰذا نہ زیادہ لمبی نماز پڑھائے اور نہ اس قدر مختصر ہی ہو کہ قیام، رکوع و سجود وغیرہ کا بھی خیال نہ رکھے۔
نوٹ : یاد رہے کہ حنفی حضرات نے امامت کے متعلق کچھ لا یعنی، فضول اور مضحکہ خیز شرائط ذکر کی ہیں جیسا کہ درمختار میں امامت کے بیان میں امام کی مختلف شرائط ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا گیا کہ امام کی بیوی سب سے حسین ہو، امام کا سر بڑا ہو، امام کا آلۂ تناسل چھوٹا ہو وغیرہ۔ یہ شرائط انتہائی مضحکہ خیز اور باعث عار ہیں جن کا کتاب و سنت میں کہیں بھی وجود نہیں پایا جاتا، نہ کسی صحیح سند سے اور نہ کسی ضعیف سند ہی سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت جیسی عظیم شاہراہ پر قائم رکھے۔ (آمین ! )

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔