حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول کیسے کہاں شروع ہوا ؟

تحریر : فضیلۃ الشیخ مولانا محمد ظفر اقبال الحماد حفظ اللہ

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اول اول سچی خوابوں سے وحی کا نزول شروع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب دیکھتے وہ بالکل صبح روشن کی طرح ٹھیک پڑتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلوت پسند ہو گئے تھے اور غار حرا میں جا کر گوشہ گیری اختیار کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز تک وہیں پر عبادت میں مشغول رہتے تھے، اس اثناء میں گھر پر بالکل نہ آتے تھے لیکن جس وقت کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا تھا تو پھر اتنے ہی دنوں کا کھانا لے کر چلے جاتے تھے آخر کار اسی غار حرا میں نزول وحی ہوا۔ ایک فرشتہ نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ( رسول الله فرماتے ہیں) یہ سن کر اس فرشتہ نے مجھ کو پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا، پھر اس فرشتہ نے مجھ کو چھوڑ کر کہا پڑھئے ! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس نے دوبارہ مجھ کو پکڑ کر اس قدر دبوچا کہ مجھ میں طاقت نہیں رہی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے کہا پڑھئے ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تیسری بار اس نے پھر مجھ کو اس قدر زور سے دبایا کہ میں بے بس ہو گیا اور آخر کار مجھ کو چھوڑ کر کہا !کہ ”پڑھ اپنے رب کے نام کی برکت سے جس نے (ہر شےکو) پیدا کیا (اور) انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا پڑھ اور تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ “ (ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیات پڑھتے ہوئے گھر تشریف لائے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہا تھا چنانچہ حضرت خدیہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر آپ نے فرمایا مجھے کمبل اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو کپڑا اوڑھایا، جب آپ کی بے قراری دور ہوئی اور دل ٹھکانے ہوا تو ساری کیفیت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان فرمائی اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا خدا کی قسم ! یہ ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ کو بالکل فکر نہ کرنی چاہئے، اللہ تعالی آپ کو ضائع نہ کرے گا کیونکہ آپ برادر پرور ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، کمزوروں کا کام کرتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور جائز ضرورتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت خدیجه رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ نے دور جاہلیت میں عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا اور انجیل کا (سریانی زبان سے ) عبرانی میں ترجمہ کر کے لکھا کرتے تھے، بہت ضعیف العمر اور نابینا بھی تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس کے پاس پہنچ کر کہا ابن عم ذرا اپنے بھتیجے کی حالت سنئے ! ورقہ بولا کیوں بھتیجے کیا کیفیت ہے ؟ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا ورقہ سے بیان کر دیا جب ورقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال سن چکے تو بولے یہ فرشتہ وہی ناموس ہے، جس کو خدائے تعالی نے موسیٰ پر نازل فرمایا تھا۔ کاش ! میں عہد نبوت میں جوان ہوتا، کاش ! میں اس زمانے میں زندہ ہوتا جبکہ آپ کو قوم والے (وطن سے) نکالیں گے، حضور صلی اللہ علیہ نے فرمایا : کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ بولے جی ہاں ! جو شخص بھی آپ کی طرح دین الہی لایا ہے اس سے عداوت کی گئی ہے، اگر میں آپ کے عہد نبوت نبوت میں موجود ہوا تو کافی امداد کروں گا، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور سلسلہ وحی بند ہو گیا۔
فائدہ :
اس حدیث میں پہلی وحی، اس کا مقام اور کیفیت متعین کی گئی ہے۔ اس میں قارئین کرام کیلئے یہ بات انتہائی سبق آموز ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلان نبوت سے قبل ایسی پانچ صفات پائی جاتی تھی جو انتہائی اہمیت کی حامل تھیں لیکن آج ہم اسلام کے مدعی ہو کر بھی ان سے تہی دامن ہیں۔
➊ صلہ رحمی
➋ محتاجوں کی امداد کرنا
➌ کمزوروں کے ساتھ تعاون اور ان کا ہاتھ بٹانا
➍ مہمان نوازی کرنا
➎ لوگوں کی جائز ضروریات کی تکمیل اور حق بات میں ان کی مدد۔
اللہ تعالی ہمیں بھی یہ پانچ خصلتین عطاء فرما دے۔ آمین !

اس تحریر کو اب تک 94 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply