انعامی بانڈز کی شرعی حیثیت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا انعامی بانڈز خریدنا اور ان پر انعام حاصل کرنا جائز ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں؟
جواب : حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے انعامی بانڈز سود ہی کی ایک صورت ہے جس کے ساتھ جوئے کی آمیزش کی گئی ہے۔ حکومت انعامی بانڈز فروخت کر کے بہت سے لوگوں سے رقم جمع کرتی ہے اور ان کو گارنٹی دیتی ہے کہ آپ کی اصل رقم محفوظ ہے۔ اگر آپ کا نمبر نکل آیا تو انعام دیا جائے گا۔ یہ انعام اس ساری جمع شدہ رقم کا سود ہے جو حرام ہے اور جائز بھی ہو تو ان تمام لوگوں کا حق ہے جنہوں نے رقم جمع کروائی ہے۔ مگر وہ ان سب کا حق صرف اتفاق سے نکل آنے والے نمبروں کو دیتے ہیں جس کی بنیاد کسی استحقاق یا قاعدے پر نہیں، صرف بخت پر ہے اور اس کا نام جوا ہے۔ اس لیے انعامی بانڈز خریدنا حرام ہے۔ انعامی بانڈز کی دوسری صورت جس میں انعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدنے والے کے پیسے ضائع ہوجاتے ہیں صاف جوا اور حرام ہے، جس طرح قسمت کی پڑیا، لاٹری کی تمام صورتیں، اخبارات کے پزل (معمے) مختلف قسم کے ریفل ٹکٹ سب جوئے کی صورتیں ہیں اور حرام ہیں، ایسے انعامات سے تیار ہونے والے کھانے اور منعقد کی جانے والی تقریبات بھی حرام ہیں اور اس میں شرکت بالکل ناجائز ہے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔