اسلامی سزاوں، وکیل، گواہی اور شہادت سے متعلق فتوے

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

442- اسلامی نظام عدالت میں وکیل کی جگہ
اسلامی نظام عدالت میں وکیل کی یہی جگہ ہے کہ وہ دو جھگڑنے والوں یعنی مدعی اور مدعٰی علیہ میں سے جس کے دفاع کی ذمے داری لیتا ہے اس کا وکیل ہے، لہٰذا اس پر اور اس کے موکل پر لازم ہے کہ وہ طلب حق میں اعتدال سے کام لے اور مخالف کے ساتھ انصاف کرے۔ اگر وہ دونوں اس کا التزام کریں تو یہ ان دونوں کے لیے بہتر ہے اور اس میں جھگڑوں کے مقدمات نپٹانے میں فیصلہ کرنے والے اور فیصلے کی بھی اعانت ہے۔
اگر مخالف یا اس کا وکیل خود غرضی اور غلبہ پانے کی خواہش رکھتے ہوئے، خواہ یہ باطل کے ساتھ ہی ہو اور دولت کمانے کے لیے چاہے حرام ہی کی ہو، مقدمے میں تلبیس، فریب کاری اور جھگڑے سے کام لیتا ہے، تو یہ دونوں گناہ گار بھی ہوئے۔ انہوں نے باطل طریقے سے لوگوں کا مال بھی کھایا اور جج کو حیرانی اور الجھاؤ کا شکار بھی بنا دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور مہربانی سے اس کو نہ نوازے اور اس کو سیدھی راہ کی توفیق نہ دے تو شائد وہ اس مقدمے میں حق کے ساتھ فیصلہ نہ کر پائے۔
[اللجنة الدائمة: 3339]
——————

443- غیر شرعی قانون کی تدریس کا حکم
وضعی (غیر شرعی) قوانین کے کھرے کھوٹے کا بیان کرنے کے لیے اور شریعت اسلامیہ کی رفعت، کمال، جامعیت اور ان تمام امور پر محیط ہونے کی وضاحت کرنے کی خاطر، جو بندوں کے عبادات اور معاملات کے تمام حالات درست کر سکتے ہیں، ان قوانین کی تدریس اور تحقیق کا کام کرنا جائز ہے اور بعض اوقات یہ واجب ہوتا ہے، جب حق ثابت کرنے اور باطل مٹانے کی ضرورت پیش آتے اور امت میں آگاہی اور بیداری پیدا کرنا مقصود ہو، تاکہ امت اپنے دین پر مضبوطی سے جم جائے اور منحرفین اور قوانین کی حاکمیت کا سکہ رائج کرنے والوں کی دعوت سے دھوکا نہ کھائے۔ اس جیسے کام پر اجرت لینا جائز ہے، لیکن وضعی قوانین میں رغبت رکھتے ہوئے، انہیں رائج کرنے اور اسلامی قانون سازی کے مشابہ قرار دینے یا اس کی مخالفت کرنے کی خاطر پڑھانا اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت، صریح کفر اور سیدھی راہ سے انحراف ہے، اس کی تدریس پر اجرت لینا حرام اور برائی در برائی ہے۔
[اللجنة الدائمة: 1329]
——————

444- لوگوں کے لیے عریضے (وثیقے، عرضیاں وغیرہ) لکھنا جن میں جھوٹ داخل ہوتا ہے
اگر تم لوگوں کے دعوے اور شکوے اسی طرح لکھتے ہو جس طرح وہ تجھے لکھواتے ہیں اور تجھے علم نہیں کہ یہ حقیقت اور امر واقعہ کے خلاف ہیں تو کوئی حرج نہیں اور جو تم ان کے لیے لکھتے ہو اس میں تجھے کوئی گناہ نہیں، کیونکہ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ ان میں جو جھوٹ یا غلط بیانی ہوتی ہے تم اسے نہیں جانتے تو اس کا گناہ اس کے کہنے والے کے سر ہے، لیکن اگر مجھے علم ہے کہ جو وہ تجھ سے لکھوانا چاہ رہے ہیں وہ جھوٹ اور غلط بیانی ہے تو پھر تمہارے لیے ان کو لکھ کر دینا جائز نہیں، کیونکہ اس میں ان کی باطل اور گناہ میں معاونت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ» [المائدة: 12]
”اور نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“
نیز فرمایا:
«وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا» [النساء: 107]
”اور ان لوگوں کی طرف سے جھگڑا نہ کر جو اپنی جانوں سے خیانت کرتے ہیں، یقیناًً اللہ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو ہمیشہ بہت خائن، سخت گناہ گار ہو۔“
جس کے دعوے میں جھوٹ کا تجھے علم ہو جائے اسے نصیحت کر، اللہ کی یاد دلا اور جھوٹ کے مرتکب اور باطل کے دعویدار پر جو وعید مرتب ہوتی ہے، اس کا ذکر کر، شائد وہ نصیحت قبول کر لے اور اپنے ارادے سے باز آجائے۔
[اللجنة الدائمة: 20353]
——————

445- کیا ثالث کا فیصلہ قبول کرنا واجب ہے؟
سوال: کیا مسلمان کو مسلمانوں کے درمیان طلاق، خلع یا امور تجارت جیسے اختلافی امور میں ثالث بنایا جاسکتا ہے اور فیصلہ کروانے والوں پر اس کا فیصلہ لازم اور واجب تنفیذ ہو جائے گا؟
جواب: اگر تو یہ ثالثی اصلاح اور مصالحت کی غرض سے ہو تو پھر اس پر راضی رہنا اور اس کا پابند ہونا مستحب ہے، کیونکہ یہ دلوں کو کینے، بغض، حسد اور انتقام سے پاک کرنے کا سبب ہے۔ اور اگر یہ تحکیم اور ثالثی عدالتی فیصلے کی قبیل سے ہو اور ثالث اپنے علم اور بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر فیصلہ دونوں اطراف پر لازم ہو جائے گا جسے نافذ کرنا واجب ہوگا۔
[اللجنة الدائمة: 19504]
——————

شہادات (گواہیاں)
446- اس حدیث کا کیا معنی ہے کہ ”میں تمہیں بہترین گواہ کی خبر دیتا ہوں اور وہ ایسا آدمی ہے جو پوچھنے سے پہلے گواہی پیش کر دے۔“ [صحيح مسلم 1719/19]
اس سے مراد یہ ہے کہ بہترین گواہ وہ ہے کہ جب اس کی ضرورت پیش آئے تو وہ گواہی کے لیے آجائے، خواہ اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے یا نہ پوچھا جائے۔
انسان کبھی کسی معاملے کی گواہی دے سکتا ہے، لیکن جس شخص کی وہ گواہی دینا چاہتا ہے، وہ اس کی گواہی سے لا علم ہوتا ہے، لہٰذا جب وہ دیکھے کہ مقدمہ جج کے سامنے پیش ہوا ہے تو وہ گواہی کے لیے اس کے پاس جائے جس کی گواہی دینا چاہتا ہے اور اس کو بتائے کہ وہ اس کا گواہ ہے تاکہ وہ شخص اس گواہی کے ساتھ اپنا حق لے سکے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 3]

——————
447- گواہوں کی تصدیق کرنا
اسلامی نظام عدالت میں امر واقعہ کی گواہی کے لیے گواہوں کی تصدیق کرنے کے لیے دو مستقل تصدیق کنندگان کا تعین نہیں کیا جاتا کیونکہ کوئی ایسی متعین جماعت نہیں جو کسی بھی علاقے، یا کچہری، جس میں جج بیٹھا ہو، وہاں گواہی کے لیے آنے والے تمام گواہوں کے حالات سے واقف ہو، بلکہ جج گواہوں کی تصدیق کی ضرورت کے وقت کسی بھی قابل اعتماد سچائی اور معاملات کی تحقیق کرنے میں معروف اور گواہوں کے حالات سے واقف شخص سے تصدیق کروا سکتا ہے، کیونکہ گواہوں کی جہات اور مکانات دور دور ہو سکتے ہیں۔
ان کے حالات، کیفیات اور محرکات مختلف ہوتے ہیں اور ان کے بہت سارے معاملات بہت سارے لوگوں پر مخفی رہتے ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 3339]
——————

448- گواہی چھپانا
گواہی چھپانا جائز نہیں۔ جو اسے چھپاتا ہے وہ خطا کار اور نافرمان ہے اس کے لیے توبہ کرنا فرض ہے۔
«وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا» [البقرة: 282]
”اور گواہ جب بھی بلائے جائیں انکار نہ کریں۔“
نیز فرمایا:
«وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ» [البقرة: 283]
”اور شہادت مت چھپاؤ اور جو اسے چھپائے تو بے شک وہ، اس کا دل گناہ گار ہے اور اللہ، جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب جانے والا ہے۔“
[اللجنة الدائمة: 13646]
——————

449- جھوٹی گواہی کا حکم
جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ جو توبہ کرتا ہے اور دوبارہ جھوٹی گواہی نہ دینے کا پختہ عزم کرتا ہے، اگر وہ اس میں سچا ہے اور اس کی گواہی کی وجہ سے جن کے جو حقوق ضائع ہو گئے تھے یا حلال سمجھ لیے گئے تھے، وہ انہیں لوٹا دیتا ہے تو پھر اس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔ فرمان الٰہی ہے:
«وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ» [الشورى: 25]
”اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔“
[اللجنة الدائمة: 4271]
——————

450- ایسی جگہ جھوٹی گواہی دینے کا حکم جہاں واضح طور پر کسی کو بھی نقصان نہ پہنچتا ہو
جھوٹی گواہی دینا مطلقا حرام ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے:
«فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ» [الحج: 30]
”پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔“
حضرت ابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟“
ہم نے کہا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:
”اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“
آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا:
”یاد رہے، جھوٹی بات بھی، یاد رہے، جھوٹی گواہی بھی۔“
آپ اس کا مسلسل تکرار کرتے رہے کہ ہم نے تمنا کی: کاش ! آپ خاموش ہو جائیں ! [صحيح البخاري، رقم الحديث 5976 صحيح مسلم 87/143]
[اللجنة الدائمة: 6355]
——————

451- سیگریٹ نوشی کی گواہی
بلاشبہ سیگریٹ نوشی حرام ہے۔ اس کی حرمت پر دلالت کرنے والے کتاب و سنت سے بہت زیادہ دلائل ہیں، نیز اس کے صحت، مال اور معاشرے پر جو بد اثرات بیان کرتے ہیں، وہ بھی ایک دلیل ہے۔ اسے پینے کا عادی، بیچنے والا یا بنانے والا، اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے، لیکن جہاں تک اس کی گواہی قبول کرنے کا مسئلہ ہے تو اس کا حکم اس کے اپنے حالات (وغیرہ)، جس کے خلاف گواہی دے رہا ہے اور جس کے حق میں گواہی دے رہا ہے، ان کے حالات کے مختلف ہونے سے مختلف ہو جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے جو اس مقدمے کو دیکھ رہا ہے، جس میں یہ سیگریٹ نوش اس کے ہاں گواہی پیش کرے گا۔
[اللجنة الدائمة: 1788]
——————

452- کام سے غیر حاضر ہونے کا بہانہ ثابت کرنے کے لیے بیماری کی جھوٹی گواہی گھٹرنے کا حکم
ان گواہوں کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہیں، کیونکہ یہ جھوٹ اور جعل سازی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ» [الحج: 30]
’’ پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں کی خبر نہ دوں؟ وہ تین ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا:
”یاد رہے جھوٹی بات، یا د رہے جھوٹی گواہی۔“
آپ مسلسل تکرار کرتے رہے حتی کہ ہم نے کہا کاش ! آپ خاموش ہو جائیں ! [صحيح البخاري، رقم الحديث 5976 صحيح مسلم 87/143]
[اللجنة الدائمة: 3577]
453- امیدوار کا ووٹر خریدنا
امیدوار کا ووٹر کو اپنے حق میں ووٹ دینے کے لیے مال دینا، رشوت کی ایک قسم ہے جو حرام ہے۔
[اللجنة الدائمة: 7245]
——————

حدود اور جرائم
454- مسلمان حاکم کی غیر موجودگی میں حدود نافذ کرنا
حدود صرف مسلمان سلطان نافذ کر سکتا ہے یا اس کا نائب، تاکہ امن عامہ کنٹرول میں رہے، حدود سے تجاوز نہ ہو اور ظلم کا اندیشہ نہ رہے، اور نافرمان کو چاہیے کہ وہ توبہ اور استغفار کرے، بکثرت نیک اعمال کرے۔ جب وہ اپنی توبہ خالص اللہ کے لیے کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر مہربانی فرما دیں گے اور اپنے فضل و احسان سے اس کو معاف کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ‎ ﴿٦٨﴾ ‏ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ‎ ﴿٦٩﴾ ‏ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا» [الفرقان: 68 تا 70]
”اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کوقتل کرتے ہیں، جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“
نیز فرمایا:
«وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ» [طه: 82]
”اور بے شک میں یقیناًً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توbہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔“
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”اسلام اپنے سے پہلے ہر چیز ختم کر دیتا ہے اور توبہ اپنے سے پہلے ہر چیز (گناہ) مٹا دیتی ہے۔“ [صحيح مسلم 121/192]
نیز فرمان نبوی ہے:
”گناہ سے توبہ کرنے والا اس کے مانند ہے جس کا کوئی گناہ ہی نہیں۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4250]
[اللجنة الدائمة: 16815]
——————

455- قصاص نافذ کرنا
اس وقت تک قصاص نافذ کرنا جائز نہیں جب تک وہ شرعی عدالت میں شرعاً ثابت نہ ہو جائے۔ اسے حاکم نافذ کرے گا۔ عام افراد کے لیے قصاص نافذ کرنا قطعاً جائز نہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں نقصان اور انار کی پیدا ہوگی۔
[اللجنة الدائمة: 18804]
——————

456- حدود کفارہ ہیں
صحیحین میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میری اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کر و گے۔ زنا، چوری اور ناحق قتل نہیں کرو گے۔ جو تم سے یہ ایفاء عہد کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اور جس نے ان کاموں میں سے کسی کا ارتکا ب کر لیا، پھر اس کو دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کا کفارہ ہوگا اور جس نے ان میں سے کوئی کام کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے اس کو معاف کر دے اور چاہے تو اس کو سزا دے دے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 4894 صحيح مسلم 1709/41]
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حدود جس پر جاری ہو جائیں اس کے لیے کفارہ ہوتی ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 6341]
——————

457- توبہ حد نافذ کرنے سے نہیں روکتی
حدود جب شرعی حاکم تک پہنچ جائیں اور مناسب دلائل سے ثابت ہو جائیں تو پھر انہیں نافذ کرنا واجب ہوتا ہے اور بالا جماع توبہ کے ساتھ یہ ساقط نہیں ہوتیں۔ غامد یہ عورت توبہ کرنے کے بعد اپنے اوپر حد نافذ کرنے کی درخواست لے کر حضور اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا:
”اس نے ایسی توبہ کی ہے، اگر اہل مدینہ وہ توبہ کرتے تو اس کی توبہ ہی ان کے لیے کافی ہوتی۔“ [صحيح مسلم 1695/23]
اس کے باوجود آپ نے اس پر شرعی حد قائم کی اور یہ سلطان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا لیکن جب تک وہ سزا سلطان تک نہ پہنچے تو مسلمان آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی تلے چھپا رہے اور سچی توبہ کر لے، شائد اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لے۔
[اللجنة الدائمة: 9000]
——————

458- حدود کی سزا کی رقم میں قیمت نکالنا
حدود کی سزاؤں کی مالی رقوم میں قیمت نکالنا جائز نہیں کیونکہ حدود توقیفی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ) ہیں اور جو حد شارع نے مقرر کر دی ہے اسے کسی دوسری چیز سے بدلنا جائز نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 14445]
——————

459- حرمت زنا کی علت کے متعلق شبہہ
سوال: قرآن کریم میں ایک آیت ہے جو ذکر کرتی ہے کہ زنا حرام ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے اور زنا نسب میں اختلاط پیدا کرنے کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے۔ اب دین اسلام پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اس سبب کا مانع حمل ادویہ کے استعمال کے ذریعے سے حل کر لیا گیا ہے، جب سبب زائل ہو گیا ہے تو زنا میں کوئی حرج نہیں۔ آپ اس کاکیا جواب پیش کرتے ہیں؟
جواب: زنا کتاب و سنت اور مسلمانوں کے اجماع کے ساتھ حرام ہے،
خواہ اس میں علت تحریم کا، جو نسب کے تحفظ اور عورتوں کی عزت اور ان کے سر پرستوں کی بد نامی سے حفاظت ہے، ادراک ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ شرعی امور میں اصل انہیں قبول کرتا ہے خواہ ان کی تعلیل کی جا سکے یا نہ، نیز ان میں بہت زیادہ حکمتیں ہیں جو بعض افراد پر مخفی رہ سکتی ہیں۔ صرف حفظ نسب اکیلی علت نہیں۔
اگر ہم یہ فرض کریں کہ صرف یہی ایک علت ہے تو بھی حمل کا خطرہ نہ ہونے کے باوجود زنا کرنا جائز نہیں کیونکہ جو کام اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کیا ہے، کسی مسلمان کے لیے اسے کرنا جائز نہیں، خواہ اس کے خیال کے مطابق جو علت ہے وہ پائی جائے یا نہ پائی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ اپنے بندوں کے لیے قانون بناتا ہے اور جس کا فیصلہ کرتا ہے اس کے متعلق وہ مکمل علم اور حکمت رکھنے والا ہے۔ اگر بعض حالات میں زنا جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے بیان کر دیتے اور تیرا رب بھولنے والانہیں «وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا»
[اللجنة الدائمة: 2758]
——————

460- جدید ذرائع سے زنا کی حد ثابت کرنا
زنا کاجرم DNA ٹیسٹ، فنگر پرنٹس رپورٹ اور موقع پر پائے جانے کی گواہی (Circumstantial evidence) کے ذریعے ثابت کرنا صحیح نہیں۔ اس سے صرف ان کا اکٹھ اور اختلاط بیان ہو سکتا ہے اور یہ کام تہمت اور شک پیدا کرتا ہے اور حد واجب کرنے والے جرم کو ثابت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس کا ارتکا ب کرنے والے دونوں افراد پر حد قائم کی جائے، اسی طرح یہ پاک دامن مرد اور عورت پر زنا کی تہمت لگانے والے پر حد قذف لگانے سے روکنے کے بھی قابل نہیں اللہ تعالیٰ یقیناًً اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتے ہیں اور ان سے زیادہ ان کے لیے رحم کرنے والے ہیں۔
اس کے باوجود جو پاک دامن خاتون پر الزام لگاتا ہے اور چار گواہ پیش نہیں کرتا اس کو قذف کی حد لگانے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قانون سازی میں علیم اور حکیم ہیں۔ اگر اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز ہوتی جو قذف اور الزام کی حد دور کر سکتی تو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یا اپنے نبی پر وحی بھیج کر اسے بیان کر دیتے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی شریعت سازی اور حکمت میں بصیرت رکھتا ہے اس پر قذف کی حد کی حکمتیں مخفی نہیں۔ اس کی وجہ سے فحاشی کی اشاعت کی روک تھام ہوتی ہے، عزتیں محفوظ ہو جاتی ہیں اور عداوت کے دوازے بند۔ اس کی سنگینی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے چار آنکھوں دیکھے گواہوں سے کم پر اکتفا نہیں کیا اور وہ علیم و حکیم ہے۔
[اللجنة الدائمة: 3339]
——————

461- رجم کی سزا کو ایسی سزا میں بدلنا جو اس سے زیادہ جلدی اطلاق پذیر اور اذیت میں کم ہو
شادی شدہ اور کنوارے کی زنا کی سزا کی تعیین، ان دونوں کی نوع اور صفت کا بیان اور انہیں نافذ کرنے کی کیفیت یہ تمام تعبدی (ایسے کام جنھیں عبادت کا درجہ حاصل ہو) امور ہیں جن میں عقل کے لیے کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ اپنے بندوں اور ان کے دینی اور دنیاوی امور میں مفادات اور ان کو شر اور نقصان سے دور رکھنے والے امور سے خوب آگاہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کنوارے زنا کرنے والے کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے اور جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے اس کے لیے رجم کی سزا۔ تاکہ عزتوں، حرمتوں کی صیانت کی جائے، نسبوں اور ان کے متعلق خاندانی اور مالی حقوق کی حفاظت کی جائے، معاشروں کو بگاڑ کے عناصر سے پاک کیا جائے اور غارت گری، مار دھاڑ اور خون بہانے سے روکا جائے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت، عدل، رحمت اور مہربانی سے یہ سزائیں مقرر کی ہیں۔
اگرچہ ان میں ایک طرح کا عذاب اور اذیت ہے اور جو اس جرم کا ارتکا ب کرتا ہے اس کی رسوائی کا اعلان، لیکن معاشرے کے لیے اس کی خطرناکی اور مصیبت اس اذیت سے کہیں بڑھ کر ہے جو یہ سزا کی صورت میں اٹھاتا ہے، اور یہ انجام تو اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے، اللہ تعالیٰ نے نصیحت آموزی اور عبرت ناکی کے لیے نیز اس مجرم کی سزا میں مزید اضافے اور اس کو نفسیاتی طور پر اذیت دینے کے لیے مومنوں کی ایک جماعت کو، ان کو سزا دینے کے اس عمل کا مشاہدہ کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں ان لوگوں کے متعلق اظہار شفقت سے منع کیا ہے جن پر زنا کی حد لگائی جاتی ہے۔
لہٰذا مسلمانوں کے لیے زنا کرنے والوں کی سزا کے متعلق ان پر شفقت کرتے ہوئے، یا ان سے تخفیف کرنے کی خاطر، اللہ تعالیٰ کے حکم کو بدلنا حرام ہے۔ اللہ ان کا رب ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا بھی زیادہ حقدار، اسی نے کنواے کو کوڑے مارنے اور شادی شدہ کو رجم کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ بہترین حاکم، سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اور ہمیں وہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
[اللجنة الدائمة: 3339]
——————

462- زنا کا ارتکاب کرنے والے مسلمان کی سزا
وہ مسلمان جو جرم زنا کا ارتکاب کرتا ہے اس کی سزا اگر وہ کنوارہ ہے تو سو کوڑے مارنا اور ایک سال تک جلا وطن کر دینا ہے، اور جو شادی شدہ ہے اس کو سنگسار کرنا ہے حتی کہ وہ مر جائے۔ یہ اس وقت ہے جب اس پر اس جرم کا ارتکاب ثابت ہو جائے، جو اس کے اعتراف کے ساتھ ہوگا یا چار عادل گواہوں کی گواہی کے ساتھ۔ اور حد صرف ملک کا نگران سلطنت قائم کرے گا یا اس کانائب (شرعی قانونی حاکم)۔
[اللجنة الدائمة: 4889]
——————

463- طلاق دے دینے والے یا رنڈوے زانی پر زنا کی حد کا نفاذ
جو کسی عورت سے شادی کرتا ہے، پھر زنا کرتا ہے۔ اس پر رحم کی حد لگائی جائے گی، خواہ اس کی بیوی اس کی زوجیت میں موجود ہو یا مرگئی ہو، کیونکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے کی وجہ سے شادی شدہ ہو چکا ہے، عورت کا بھی یہی حکم ہے۔
[اللجنة الدائمة: 8820]
——————

464- خادمہ کو لونڈی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اس کے ساتھ زنا کرنا
وہ خادمہ جس کو کام کے لیے اجرت پر رکھا جاتا ہے اس کے ساتھ ہمبستری کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ زنا ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔ وہ مملوکہ جس کے ساتھ مباشرت کرنا شریعت نے جائز رکھا ہے، وہ عورت ہے جو شرعی طور پر لونڈی ہو (جس کو شریعت کے مطابق لونڈی بنایا جائے)۔
[اللجنة الدائمة: 10529]
——————

465- رجم کی آیت
علم اصول میں یہ بات معروف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا:
لوگو ! اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ اس میں آپ پر رجم کی آیت نازل ہوئی، ہم نے اسے پڑھا اور یاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ جب وقت طویل ہو جائے اور کوئی کہنے والا کہہ دے:
کتاب اللہ میں ہم آیت رجم نہیں پاتے، تو وہ اس فریضے کو ترک کرنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔
لہٰذا جو شادی شدہ، عورت ہو کہ مرد، زنا کرتا ہے اور اس پر دلیل قائم ہو جاتی یا حمل ظاہر ہو جاتا ہے یا وہ اعتراف کر لیتا ہے تو اس کی سزا رجم ہے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 4418]
جو کتاب اللہ میں حق اور سچ ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو قانون بھی بنائیں اسے ضرور قرآن ہی میں لکھیں، بلکہ اس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ اس میں جو چاہتا فیصلہ کرتا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 6194]
——————

یہ تحریر اب تک 7 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔