جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈریں

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میں ایک پریشان حال نوجوان لڑکی ہوں اشتراکی نظریات سے متاثرہ ایک فیملی میں رہتی ہوں۔ مجھے پردہ کرنے کی پاداش میں ان کی طرف سے شدید حملوں اور طنز و استہزاء کا سامنا کرنا پڑا جو کہ بڑھتے بڑھتے مار پیٹ تک پہنچ گیا۔ ان لوگوں نے مجھے گھر سے باہر جانے سے بھی روک دیا۔ آخر کار میں پردہ چھوڑنے اور چہرہ کھلا رکھنے پر مجبور ہو گئی۔ ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئیے گھر چھوڑوں تو انسان نما درندے بہت زیادہ ہیں، آخر کیا کروں ؟
جواب : یہ سوال دو نکا ت پر مشتمل ہے۔ لڑکی کے خاندان والوں کا لڑکی سے سلوک ! یہ بدترین سلوک ایسے لوگوں کی طرف سے روا رکھا جا رہا ہے جو یا تو حق سے جاہل ہیں یا یکسر متکبر۔ یہ ایک وحشیانہ طرز عمل ہے جس کا انہیں کوئی حق نہیں اس لئے کہ پردہ نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ہی سوء ادب۔ ہر انسان شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آزاد ہے۔ اگر وہ لوگ اس بات سے آگاہ نہیں کہ عورت پر پردہ کرنا واجب ہے تو انہیں یہ معلوم ہوتا چلا ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے عورت پر پردہ کرنا واجب ہے اور اگر وہ لوگ اس امر سے آگاہ ہونے کے باوجود قبول حق سے متکبر ہیں تو یہ مصیبت پہلی سے بھی بڑی ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔
فإن كنت لا تدرى فتلك مصيبة . . . وإن كنت تدري فالمصيبة أعظم
”اگر تجھے علم نہیں تو یہ ایک مصیبت ہے، اور اگر تجھے علم ہے تو یہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہے۔ “
باقی رہا دوسرا مسئلہ تو وہ اس نوجوان لڑکی سے متعلق ہے۔ ہم اسے کہنا چاہیں گے کہ مقدور بھر اللہ سے ڈرتی رہے۔ اگر وہ پردہ کرے گی تو شائد اس کے گھر والے اس کو ماریں اور زبردستی پردہ اتروا دیں تو اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
مَنْ كَفَرَ بِاللَّـهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [ 16-النحل:106 ]
”جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے اس صورت میں کہ اس پر زبردستی کی جائے اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن (برقرار) ہو (تو وہ مستثنیٰ ہے) لیکن جو کوئی کھلے دل سے کفر کرے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہو گا۔“
نیز فرمایا :
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَـكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ [33-الأحزاب:5 ]
”تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس (کے بارے) میں تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن جس کا تم دل سے ارادہ کرو (اس پر گرفت ضرور ہے )۔“
لہٰذا آپ بقدر استطاعت اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہیں۔ اگر سائلہ کے گھر والے پردے کی حکمت سے آگاہ نہیں ہیں تو ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی اتباع کرنا مومن کی ذمہ داری ہے، وہ ان کی حکمت سے آگاہ ہو یا نہ ہو۔ اطاعت بذات خود ایک حکمت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا [33-الأحزاب:33 ]
” اور کسی مسلمان مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔ “
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب دریافت کیا گیا کہ حائضہ عورت روزوں کی قضا تو دیتی ہے جبکہ نمازوں کی قضا نہیں دیتی اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو اس پر آپ نے جواب دیا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا، جبکہ نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا، تو گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے محض اطاعت کو حکمت قرار دیا۔
پردے کی حکمت تو بالکل واضح ہے، اس لئے کہ غیر مردوں کے سامنے عورت کا اپنے محاسن کو ظاہر کرنا باعث فتنہ ہے۔ فتنہ وقوع پذیر ہو گا تو گناہ اور بے حیائی کا دور دورہ ہو گا۔ اور جب اسی چیزیں عام ہوں گی تو اس کا نام ہلاکت و بربادی ہے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply