جمعہ کے دن یہ کام لازمی کریں

تحریر : ابوعبدالرحمن شبیر بن نور حفظ اللہ

(1) جمعہ کے دن یا رات کو سورۃ الکھف کی تلاوت کا اہتمام کیجئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قرء سورة الكهف فى يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين» [المستدرك للحاكم 368/2]
امام حاکم رحمہ اللہ نے حدیث کو صحیح کہا ہے ، علامہ الالبانی نے بہی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، ملاحظہ ہو ارواء الغلیل [626 ح 93/3]
”جس شخص نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف کی تلاوت کی ، دو جمعوں کے درمیانی وقفے میں اس کے لئے نور ہی نور ہوگا ۔“
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العقيق» [السنن الكبرى للبيهقى 249/3 كتاب الجمعة ، علامه الالباني نے اس حديث كو صحيح قرار ديا هے ، ملاحظه هو صحيح الجامع ح 6471]
”جس نے جمعہ کے روز سورۃ الکھف کی تلاوت کی اس کے مقام سے لے کر خانہ کعبہ تک اُس کے لئے سارا راستہ منور ہو جائے گا ۔“

(2) اس روز کثرت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر درود شریف پڑھنا چاہیے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة ، فيه خلق آدم ، وفيه قبض ، وفيه النفحة ، وفيه الصعقة ، فأكثروا على من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة على قال: قالوا: يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت؟ يقولون بليت . فقال: إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء» [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة فضل يوم الجمعة و ليلة الجمعة 1047] علامہ ناصر الدین الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ مسند احمد 8/4 المستدرک 278/1 صحیح ابن حبان ح 550 سفن البیہقی 3/ 248 – 249 و دیگر کتب حدیث
”تمہارے لئے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ۔ اس میں حضرت آدم کی پیدائش ہوئی ، اس میں ان کی وفات ہوئی ، اسی دن صور پھونکا جائے گا اسی دن لوگ بیہوش ہو کر گریں گے ۔ چنانچہ اس دن مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھا کرو تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جائے گا ۔“ راوی بیان کرتا ہے: صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کی ہڈیاں تو چور چور ہو چکی ہوں گی ، پھر آپ پر ہمارا درود کس طرح پیش کیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے پاکیزہ جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے ۔ (یعنی مرنے کے بعد انبیاء کرام کے مبارک جسم ہر طرح کی کمی بیشی سے محوظ و مامون رہتے ہیں)۔
دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اكثروا الصلاة على فى يوم الجمعة فإنه ليس يصلي على احد يوم الجمعة إلا عرضت على صلاته» [39 المستدرك للحاكم 421/2]
امام حاکم رحمہ اللہ اور علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو صحیح الجامع ح [1208]
”جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو ۔ جو کوئی مجھ پر جمعہ کے روز درود پڑھتا ہے میرے سامنے اس کا درود پیش کیا جاتا ہے ۔“
درود چاہے دن کو پڑھا جائے یا رات کو ثواب برابر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أكثروا الصلاة على يوم الجمعة و ليلة الجمعة فمن صلى على صلاة صلى الله عليه عشرا» [سنن البيهقى 3 / 249 كتاب الجمعة]
علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، صحیح الجامع ح [1209]
”جمعہ کے دن اور رات کو مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے ۔“
علامہ ابن قیم الجوزیہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی بڑی خوبصورت توجیہ بیان کی ہے ، فرمایا کہ:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے سردار ہیں اور جمعہ دنوں کا سردار ۔ چنانچہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر درود پڑھنے کی ایک امتیازی شان ہے ۔ اس میں ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو دنیا و آخرت میں جو بھی بھلائی ملی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعے ملی ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی امت کو دی ہے اور انہیں جو سب سے بڑی عزت و احترام کی جگہ ملنے والی ہے وہ بھی جمعہ کے روز ہی ملے گی ۔ اس جمعہ کے روز ہی وہ جنت میں اپنے اپنے ٹھکانوں اور محلات میں پہنچیں گے ۔ جب وہ جنت میں داخل ہو چکیں گے تو یہی دن ان کے لئے ”یوم المزید“ کہلائے گا اور دنیا میں اہل ایمان کی عید بھی اسی دن ہوتی ہے ۔ اسی دن میں اللہ تعالیٰ اہل جنت کی ہر خواہش کو پورا کریں گے اور ان کا کوئی سوال نا مراد نہیں ہوگا ۔ یہ سب اعزاز و اکرام اہلِ ایمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ملے ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا صرف اسی شکل میں ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ حقوق میں سے کسی قدر ادائیگی کی بھی صرف یہی شکل ہے کہ اس دن اور رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھا جائے ۔“ [زاد المعاد ج 1 ص 376 ط الرساله 1991ء]
جمعتہ المبارک کا دن ہو یا دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود پڑھنا عظیم فائدے و مرتبے اور اجر و ثواب کا کام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من صلى على واحدة صلى الله عليه عشر صلوات و حط عنه عشر خطيئات ورفع له عشر درجات» [مسند احمد 3/ 102 و 261 والادب المفرد للبخاري ص224 643 المستدرك 550/1 سنن النسائى كتاب السهو باب الفضل فى الصلاة على النبى ، صحيح ابن حبان الاحسان 185/3 كتاب الرقائق باب الادعية ج 904]
– الاستاذ شعیب الاثار ووط نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، نیز علامہ الالبانی نے بہی ۔ صحیح الجامع [ح 6359]
”جس نے ایک دفعہ مجھ پر درود شریف پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں ، اس کے دس گناہ معاف کر دیتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کر دیتے ہیں ۔“
کسی مسلمان کی اس سے بڑی سعادت و خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو ۔ اور یہ مقام درود شریف کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى على حين يصبح عشرا وحين يمسي عشرا أدركته شفاعتي يوم القيامة» [مجمع الزوائد ا / 163 ح 17022]
کتاب الاذکار باب 28 میں علامہ الہیثمی نے المعجم لکبیر کے حوالے سے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اس کی سند کو قابل اعتماد قرار دیا ہے ۔ نیز علامہ الالبانی نے جامع الصحیح ح 6357 میں اسے حسن قرار دیا ہے
”جس نے صبح کے وقت مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھا اور اسی طرح شام کو بھی دس مرتبہ درود پڑھا قیامت کے دن اُسے میری شفاعت نصیب ہو گی ۔“

(3) جمعہ کے روز فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں سورت السجدہ اور دوسری رکعت میں سورت الدھر کی تلاوت مسنون ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يقرأ فى الجمعة فى صلاة الفجر الم تنزيل السجدة وهل أتى على الإنسان حين من الدهر» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب ما يقرء فى صلاة الفجر يوم الجُمُعَة ج 851 و صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب ما يقرء فى يوم الجمعة ح 880]
سورت السجدہ اکیسویں پارے میں ہے ۔ اِس کا نمبر 31 ہے ۔ اس میں تین رکوع اور تیس آیتیں ہیں ، اور سورت الدھر جس کا دوسرا نام ”الانسان“ ہے ، یہ انیسویں سپارے میں ہے ۔ اس کا نمبر 74 ہے اور دو رکوع اور 31 آیتوں پر مشتمل ہے ۔
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورت السجدہ اور دوسری رکعت میں سورت الدھر / الانسان تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ “

(4) جمعہ کے روز جس قدر جلدی ممکن ہو نماز جمعہ کے لئے تیاری کرنی چاہئے کیونکہ جتنی جلدی جائے گا اتنا ہی زیادہ ثواب پائے گا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول ، ومثل المهجر كمثل الذى يهدي بدنة ، ثم كالذي يهدي بقرة ، ثم كبشا ثم دجاجة ، ثم بيضة ، فإذا خرج الإمام طووا صحفهم ويستمعون الذكر» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب الاستماع الى الخطبة ح 887 و صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب فضل التهجير يوم الجمعة ح 850]
اختصار کے پیش نظر ہم نے صرف ایک تفصیلی حدیث بیان کی ہے ورنہ کتب احادیث میں اس معنی کی متعدد روایات موجود ہیں ، مزید تفصیل درکار ہو تو ملاحظہ فرمائیں: مؤطا امام مالک کتاب الجُمُعَۃ باب العمل فى غسل یوم الجُمُعَۃ ، سنن ابی داود کتاب الطہارۃ باب الغسل یوم الجُمُعَۃ ح 351 و سنن الترمذى ابواب الصلاۃ باب ما جاء فى التبکیر إلى الجمعۃ 499 و سنن النسائى کتاب الجمعۃ باب التبکیر إلى الجُمُعَۃ و باب وقت الجمعۃ و دیگر کتب احادیث
”جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں جو سب سے پہلے اور اس کے بعد آنے والوں کو لکھتے رہتے ہیں ۔ پہلی گھڑی میں آنے والے کا ثواب اس قدر ہے جیسے اُس نے اللہ کی راہ میں اونٹ قربان کیا ۔ دوسری گھڑی میں آنے والے کا ثواب اتنا ہے جیسے اُس نے گائے کی قربانی دی ۔ تیسری گھڑی میں آنے والے کا ثواب جیسے اس نے مینڈھے کی قربانی دی ۔ پھر جیسے مرغی صدقہ کی ، پھر جیسے انڈا صدقہ کیا ۔ پھر جب امام منبر پر آجاتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر سمیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ “

(5) جمعہ کے روز غسل کا اہتمام بہت ضروری ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الغسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم» [صحيح البخارى كتاب الجُمْعَة باب 11 ح 855 صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب وجوب غسل الجُمُعَة ۔ ۔ ۔ 846]
”جمعہ کے روز غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے ۔“
اور یہ غسل اچھی طرح ہونا چاہئے ۔ جن حضرات کے بال زیادہ لمبے یا زیادہ میلے کچیلے ہوں انہیں مزید اہتمام کے ساتھ غسل کرنا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اغتسلوا يوم الجمعة واغسلوا رءوسكم وإن لم تكونوا جنبا….» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب الدهن للجمعة ح 844]
”جمعہ کے روز غسل کرو اور سر کو بھی دھوؤ خواہ تمہیں جنابت والا فرض غسل نہ بھی کرنا ہو۔“
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہد میں اس روز شاید ہی کوئی غسل کے بارے میں کوتاہی کرتا ہو ۔ مندرجہ ذیل خوبصورت واقعہ اس کی صحیح ترجمانی کرتا ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن عمر بن الخطاب بينما هو قائم فى الخطبة يوم الجمعة إذ دخل رجل من المهاجرين الأولين من أصحاب النبى صلی اللہ علیہ وسلم ، فناداه عمر: أية ساعة هذه؟ قال: إني شغلت فلم أنقلب إلى أهلي حتى سمعت التأذين فلم أزد أن توضات . فقال: والوضوء أيضا وقد علمت أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كان يأمر بالغسل» [صحيح البخاري باب فضل الغسل يوم الجمعة ح 838]
”حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ابتدائی زمانہ میں ہجرت کرنے والے ایک صحابی رسول (دوسری روایت سے معلوم ہوا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے) داخل ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز کے ساتھ پوچھا: یہ آنے کا کون سا وقت ہے؟ آنے والے نے جواب دیا: میں مصروف ہو گیا تھا میں گھر بھی نہیں جا سکا ، ادھر آذان ہو گئی ، وضو کیا اور چلا آیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اور آئے بھی صرف وضو کر کے ہی ہو ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔“ [صحيح بخاري ، باب فضل الغسل يوم الجمعه ح 838]
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کے نزدیک جمعہ کے روز غسل کرنے کی کیا اہمیت تھی ۔ لہٰذا ہر مسلمان کو کم از کم جمعہ کے روز ضرور غسل کرنا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں روز غسل کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
حق على كل مسلم أن يغسل فى كل سبعة أيام يوما ، يغسل فيه رأسه وجسده» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب نمبر 11 ح 856 صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب الطيب والسواك يوم الجُمُعَة ح 849]
”ہر مسلمان کا فرض ہے کہ سات دنوں میں ایک دن تو ضرور نہائے ، اس میں اپنے سر کو بھی دھوئے اور جسم کو بھی دھوئے ۔ “
اور اگر کسی کے جسم سے بدبو اٹھ رہی ہو تو اس پر غسل کرنا اشد ضروری ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگ مدینہ منورہ کے ارد گرد چار بستیوں سے جمعہ پڑھنے آیا کرتے تھے اور وہ لوگ ”عبا“ (کھلی چادر نما چغہ جو اون یا بالوں سے بنتا ہے) پہن کر آتے تھے اور گرد آلود بھی ہو جاتے تھے ، چنانچہ ان سے بدبو اٹھتی تھی ۔ ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے مکان پر تھے اور ان میں سے ایک آدمی آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو انكم تطهرتم ليومكم هذا» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة ، باب وجو ب غسل يوم الجُمُعَة ح847]
”تم لوگ اس دن کے لئے غسل کیوں نہیں کر لیتے؟“

(6) خوشبو اور مسواک کا اہتمام کیجئے کیونکہ یہ پسندیدہ اور مرغو ب ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کا اہتمام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی توجہ دلاتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
غسل يوم الجمعة على كل محتلم وسواك ويمس من الطيب ما قدر عليه» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب الطيب والسواك يوم الجُمُعَة ح 846]
”ہر بالغ پر ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے روز غسل کرے ، مسواک کرے اور جو دستیاب ہو وہ خوشبو لگائے ۔ “
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن هذا يوم عيد جعله الله للمسلمين ، فمن جاء إلى الجمعة فليغتسل ، وإن كان طيب فليمس منه ، وعليكم بالسواك» [سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلوة باب ما جاء فى الزينة يوم الجمعة ح 1098]
علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن کہا ہے ۔
”اللہ تعالیٰ نے اس دن کو مسلمانوں کے لئے عید قرار دیا ہے ، چنانچہ تم میں سے جو کوئی جمعہ کے لئے آئے وہ نہا کر آئے ۔ اگر خوشبو میسر ہو تو اس کا استعمال کر لے ۔ اور تم مسواک کا ضرور اہتمام کرو ۔“
مسواک سے مراد برش اور ٹوتھ پیسٹ قطعا نہیں بلکہ کسی درخت کی جڑ یا شاخ ہے مثلاً کیکر یانیم کی نرم شاخ جنگل (اندرائن یا تمہ بزبان پنجابی) کی جڑ یا کسی بھی نرم اور ریشہ دار ٹہنی کی مسواک ، بالخصوص پیلو کی جڑ یا شاخ کی مسواک ۔ طبی لحاظ سے بھی پیلو کی مسواک زیادہ مفید ہے اور اس کی خوشبو بھی دلپذیر ہوتی ہے ۔
واضح رہے کہ برش اور ٹوتھ پیسٹ کو علاج یا صفائی کی خاطر استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، البتہ یہ مسواک کا بدل نہیں بن سکتا اور اگر اس کو ہر مسنون موقع پر استعمال کرنا شروع کر دیا جائے تو فائدے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوگا ۔
خوشبو اور مسواک کا مضمون دوسری مناسبتوں سے اگلی احادیث میں بھی آرہا ہے ۔

(7) اُجلے اور صاف ستھرے بلکہ اچھے سے اچھے میسر لباس کا انتخاب کیجئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من اغتسل يوم الجمعة ، ولبس من أحسن ثيابه ، ومس من طيب إن كان عنده ، ثم أتى الجمعة ، فلم يتخط أعناق الناس ، ثم صلى ما كتب الله له ، ثم أنصت إذا خرج إمامه ، حتى يفرغ من صلاته ، كانت كفارة لما بينها وبين جمعته التى قبلها» سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب فى الغسل یوم الجُمُعَۃ علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، نیز صحیح ابن حبان الاحسان 3/ 16 ح 2778 والمستدرک / 283 و مسند احمد 81/3 و سنن الکبرى للبیہقى 243/3
”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اپنے سب سے عمدہ کپڑے پہنے (بعض روایات میں صالح ثيابه» کے لفظ ہیں یعنی اچھے اور صاف) اور اگر خوشبو دستیاب ہو تو اس کا بھی استعمال کیا ، پھر جمعہ ادا کرنے آیا ، لوگوں کی گردنوں کو بھی نہ پھلانگا ، پھر جو ممکن ہوا نماز ادا کی ، خطیب کی آمد سے لے کر نماز مکمل ہونے تک خاموشی اختیار کی ، اُس کا یہ عمل سابقہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک کے لئے کفارہ بن جاتا ہے ۔
اور اگر جمعہ کے لئے خصوصی لباس کا انتخاب کر لیا جائے تو یہ مطلو ب و محمود ہے بشرطیکہ اس کے پاس گنجائش ہو ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم خطب الناس يوم الجمعة ، فرأى عليهم ثياب النمار ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: ما على أحدكم إن وجد سعة أن يتخذ ثوبين لجمعته سوى ثوبی مهنته» [صحيح ابن حبان ٣ / ١٥ كتاب الصلاة باب اللبس للجمعة ج 2777 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب اللبس للجمعة ح 1078 و سنن ابن ماجه كتاب أقامة الصلاة باب ما جاء فى الزينة يوم الجُمُعَة ح 1095 و 1096] علامہ البانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے روز لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دھاری دار کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تمہارے پاس گنجائش ہو تو عام کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے خصوصی طور پر جمعہ کے لئے بنوا لو ۔“

(8) گھر سے مسجد کی طرف نکلتے وقت مسنون دُعا ضرور پڑھیں تاکہ ہر طرح کی مشکل اور پریشانی سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محفوظ رہیں ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو یہ دعا ضرور پڑھتے:
بسم الله توكلت على الله ، اللهم إنا نعوذ بك من أن نزل أو نضل أو نظلم أو نظلم أو نجهل أو يجهل علينا» [سنن التر مذى كتاب الدعوات باب ما يقول اذا خرج من بيته ح 3427]

امام ترمذی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ، تھوڑے تھوڑے لفظی اختلاف یا کمی بیشی کے ساتھ یہ دعا سنن ابی داؤد ج 5094 اور سنن ابن ماجہ ح 3887 میں بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ ]
”اللہ کے نام پر اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں ۔ اے اللہ ہم آپ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ہم پھسل جائیں یا گمراہ ہو جائیں ، ہم خود کسی پر ظلم کریں یا کوئی ہم پر ظلم ڈھائے ، ہم کسی کے ساتھ جہالت کا مظاہرہ کریں یا کوئی ہم پر جہالت آزمائے ۔ “

(9) نماز جمعہ کے لئے پرسکون اور پروقار طریقے سے جانا چاہئے اور اگر پیدل چل کر جائے تو مزید بہتر ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها تسعون وأتوها تمشون . وعليكم السكينة ، فما أدركتم فصلوا ، وما فاتكم فأتموا» [صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب استحباب اتيان الصلاة بوقار وسكينة والنهي عن اتيانها سعياح 602]
”جب نماز کھڑی ہو جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ پرسکون طریقے سے چلتے ہوئے پہنچو (بعض روایات میں وقار کا لفظ بھی ہے) جس قدر نماز مل جائے وہ پڑھ لو اور جو چھوٹ جائے اسے مکمل کر لو ۔“
جمعۃ المبارک کے روز پیدل چل کر جانا تو اور بھی زیادہ کارِ ثواب ہے ۔ حضرت اوس بن اوس الثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
من غسل يوم الجمعة واغتسل ثم بكر وابتكر ، ومشى ولم يركب ، ودنا من الإمام فاستمع ولم يلغ كان له بكل خطوة أجر سنة صيامها وقيامها» [مسند احمد 4/ 104 و سنن ابي داؤد كتاب الطهارة باب فى الغسل يوم الجُمُعَة ح 345 ، ] علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ [سنن النسائي 97/3 كتاب الجُمُعَة باب فضل المشى الى الجمعة ح 1383]
”جو آدمی جمعہ کے روز نہایا اور سر بھی دھویا اور بہت سویرے گھر سے نکلا پیدل چل کر گیا اور سوار نہیں ہوا ، امام کے قریب ہو کر بیٹھا توجہ سے خطبہ سنا اور کوئی فضول حرکت نہیں کی ، اس کے لئے ایک ایک قدم پر سال بھر کے روزے اور قیام کا ثواب ہے ۔“
جب ایک ایک قدم پر اجر و ثواب ہے تو جس قدر دُور سے انسان جائے گا زیادہ اجر پائے گا ۔ حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أعظم الناس أجرا فى الصلاة أبعدهم فأبعدهم ممشى والذي ينتظر الصلاة حتى يصليها مع الإمام أعظم أجرا من الذى يصلي ثم ينام» [صحيح البخاري كتاب الجماعة والامامة باب فضل صلاة الفجر فى جماعة ح 623 و صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب ضل كثرة الخطا الى المساجد ح 662]
”جو آدمی جس قدر دور سے چل کر نماز میں پہنچے گا اسی قدر زیادہ ثواب پائے گا ۔ جو آدمی نماز کا انتظار کرتا ہے تاکہ اُسے امام کے ساتھ ادا کرے یعنی باجماعت پڑھے اُس کا اجر کہیں زیادہ ہے بہ نسبت اس آدمی کے جو اکیلے نماز پڑھ کر سو رہتا ہے ۔“

(10) مسجد میں داخل ہوتے وقت مسنون دعا کا اہتمام کیجئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد فليقل: اللهم افتح لي ابواب رحمتك» [صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين و قصرها باب ما يقول اذا دخل المسجد ح 713]
جب تم سے کوئی مسجد میں آئے تو یہ دعا پڑھے :
اللهم افتح لي أبواب رحمتك»
یعنی ”اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔“

(11) ہر حال میں دو رکعت نماز پڑھ کر بیٹھنا چاہئے خواہ امام خطبہ دے رہا ہو ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس» [صحيح البخارى كتاب المساجد باب اذا دخل المسجد فليركع ركعتين ح 433 و صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين و قصرها باب استحباب تحية المسجد بركعتين ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ح 714]
”جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ضرور پڑھ لے۔“
دوسری روایت میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
جاء سليك الغطفاني يوم الجمعة و رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب ، فجلس ، فقال له: ياسليك قم فاركع ركعتين وتجوز فيهما ثم قال: إذا جاء أحدكم يوم الجمعة والإمام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما» [صحيح مسلم كتاب الجمعة باب التحية والامام يخطب ح 875]
”حضرت سلیک الغطفانی رضی اللہ عنہ اُس وقت تشریف لائے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے ۔ حضرت سلیک بیٹھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سلیک اٹھو اور دو رکعت نماز ادا کرو بس ذرا مختصر پڑھنا ۔ پھر فرمایا: جب کوئی جمعہ کے روز آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعت ضرور پڑھے ، بس ذرا مختصر کر لے ۔“
جمعہ کے روز کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس دن نصف النہار مکروہ وقت میں شامل نہیں ہوتا ۔ اس مسئلے کو مزید تفصیل اور دلیل سے دیکھنا ہو تو ملاحظہ فرمائیں زاد المعاد تألیف علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ ص 378 تا 380 تحقیق علامہ شعیب الارنا ووط طبع مؤسسۃ الرسالۃ 1991ء –
نماز جمعہ سے پہلے جتنی رکعتیں چاہے پڑھے ، کوئی پابندی نہیں ۔ یہ بات مسند احمد 81/3 و 5 / 75 اور صحیح بخاری ح 843 و 868 و سنن ابی داؤد ح 343 ، صحیح ابن حبان 16/3 ح 2778 ، المستدرک 2831 اور السنن الکبری للبیہقی 243/3 میں مختلف احادیث کے ضمن میں بیان ہوئی ہے جس کا ہم نے متعدد جگہ پر ذکر کیا ہے ۔ اور کوشش کرے کہ زیادہ رکعتوں کی بجائے لمبی رکعتیں پڑھے ۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جمعہ سے پہلے لمبی نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں دو رکعتیں گھر جا کر پڑھتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح گھر جا کر دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔“ [سنن ابي داؤد كتاب الصلاة باب الصلاة بعد الجُمُعَة ح 1128]
حدیث صحیح ہے ۔
لیکن یہ بات یاد رہے کہ جمعہ سے پہلے کوئی مقررہ سنتیں نہیں ہیں جس طرح کہ نماز ظہر سے پہلے چار مقررہ سنتیں ہیں بلکہ دو چار چھ یا اس سے بھی زیادہ پڑھ سکتا ہے اور ان کے لئے وقت کی بھی کوئی قید نہیں ، چاہے زوال سے پہلے پڑھے یا عین زوال کے وقت میں یا زوال کے بعد ، البتہ جب امام خطبہ کے لئے تشریف لے آئے تو بس کرے ۔ تفصیل مزید درکار ہو تو ملاحظہ فرمائیں زاد المعاد ج ا ص 432 طبع مؤسسۃ الرسالۃ 1991ء –

(12) امام سے قریب تر ہو کر بیٹھنا چاہئے ۔
اس طرح دورانِ خطبہ انسان متوجہ ہو کر بیٹھتا ہے اور بہتر طریقے سے خطبہ سمجھتا ہے ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أحضروا الجمعة وادنوا من الإمام ، فإن الرجل لا يزال يتباعد حتى يوخر فى الجنة وإن دخلها» [مسند احمد 5 / 10 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الدنو من الامام عند الموعظة ح 1108]
علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن کہا ہے ۔
”جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھو ۔ آدمی جتنا امام سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اسی اعتبار سے وہ جنت میں پیچھے رہ جاتا ہے ، خواہ وہ بالآخر جنت میں داخل ہو ہی جائے ۔“
امام سے قریب تر ہو کر بیٹھنے کی فضیلت میں ایک حدیث نمبر 9 کے تحت مسند احمد 104/14 اور سنن ابی داؤد ح 345 کے حوالے سے گزر چکی ہے اُسے دوبارہ دیکھ لیں ۔ نماز جمعہ کے لئے جلد سے جلد پہنچ کر امام کے قریب تر ہو کر بیٹھنے کی ترغیب ایک دوسری حدیث میں بہت تفصیل سے بیان ہوئی ہے ۔ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جمعہ کی نماز کے لئے نکلا تو تین آدمی پہلے پہنچے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا: چار میں سے چوتھا ہوں اور چوتھا آدمی بھی دور نہیں ہوتا ۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
إن الناس يجلسون من الله يوم القيامة على قدر رواحهم إلى الجمعات: الأول والثاني والثالث ، ثم قال رابع أربعة ، وما رابع أربعة ببعيد» [سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلاة باب التهجير الى الصلاة ح 1094 علامه البوصيري نے مصباح الزجاجة 1/ 364 پر حديث كو حسن كها هے ۔ والمعجم الكبير 78/10 ح 10013 و كتاب السنة لابن ابي عاصم ص 275 ح 620 طبع المكتب]
”لوگ جس طرح جمعہ کے لئے جاتے ہیں اسی اعتبار سے قیامت کے دن اللہ کے قریب بیٹھیں گے ۔ سب سے پہلے آنے والا اس کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والا پھر تیسرا آنے والا ۔ پھر فرمایا: چار میں سے چوتھا آنے والا اور چوتھے نمبر پر آنے والا بھی کچھ دور تو نہیں ہوتا ۔“

(13) دورانِ خطبہ پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ امام کی طرف رخ کر کے بیٹھنا چاہئے اور کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے منبر پر تشریف لے آتے تھے ۔ تو ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے تھے ۔ [سنن الترمذي ابواب الصلاة باب ما جاء فى استقبال الامام اذا خطب ح 509 و سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلاة باب ماجاء فى استقبال الامام و هو يخطب ح 1132]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
دوران خطبہ اپنے جسم کپڑے یا کسی دوسری چیز سے مشغلہ کرنا جمعہ کے ثواب کو ضائع کر دیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من توضأ فأحسن الوضوء ، ثم أتى الجمعة ، فاستمع وأنصت ، غفر له ما بين الجمعة إلى الجمعة ، وزيادة ثلاثة أيام ، ومن مس الحصى فقد لغا» [صحيح مسلم كتاب الجُمُعَة باب فضل من سمع وانصت فى الخطبة ح 857]
”جس نے اچھی طرح وضو کیا ، پھر نماز جمعہ کے لئے آیا توجہ سے سنا اور خاموش رہا تو اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اور تین دن زیادہ کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اور جس نے کنکریوں سے کھیلا اُس نے ثواب جمعہ ضائع کر دیا ۔ “
اور جس کسی نے دورانِ خطبہ لغو حرکت کی اُسے نماز ظہر کا ثواب ملے گا البتہ اُس کا جمعہ ضائع ہو گیا ۔ یہ بات ممنوعات یوم الجمعہ نمبر 4 پر تفصیل و دلیل کے ساتھ آرہی ہے ، وہاں دیکھ لیا جائے ۔

(14) نماز جمعہ کے بعد جگہ بدل کر چار رکعت ادا کریں ، چاہے چاروں مسجد میں ادا کریں یا دو مسجد میں اور دو گھر جا کر ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إذا صلى أحدكم الجمعة فليصل بعدها أربعا» [صحيح مسلم كتاب الجمعتة باب الصلاته بعد الجمعتة ح 881]
”جب تم نماز جمعہ پڑھ چکو تو اس کے بعد چار رکعت نماز ادا کرو ۔“
دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا . فإن عجل بك شيء فصل ركعتين فى المسجد وركعتين إذا رجعت» [حواله سابقه]
”تم میں سے جو آدمی نماز جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے تو وہ چار رکعت پڑھے اور اگر کسی وجہ سے تمہیں جلدی ہو تو دو رکعت مسجد میں پڑھ لو
اور دو واپس گھر جا کر ۔“
تلاوت ، ذکر ، تعلیم دین یا دعا کے لئے مسجد میں بیٹھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ، البتہ گپ شپ یا محفل آرائی کے لئے مسجد میں بیٹھنا نا پسندیدہ کام ہے ۔

(15) مسجد سے باہر نکلتے وقت مسنون دعا کا اہتمام کریں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
وإذا خرج فليقل: اللهم إني أسألك من فضلك» [صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين و قصرها باب ما يقول إذا دخل المسجد ح 713]
اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعا پڑھے: اللهم اني اسألك من فضلك» یعنی ”اے اللہ ! میں آپ سے آپ کا فضل مانگتا ہوں ۔“

(16) اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کے لئے کسی وقت کی کوئی شرط یا قید نہیں ، البتہ بعض وقت افضل اور قبولیت دعا کے لئے مناسب ہوتے ہیں ۔
جمعہ کے روز عصر کے بعد سے مغرب تک کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہے جس کی تفصیل و دلیل پچھلے باب میں گزر چکی ہے ، کوشش کریں کہ نماز عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت مسجد میں گزاریں ، تلاوت کریں ، ذکر کریں ، علم حاصل کریں ، دوسروں کو علم دیں دعا کریں یا خاموش ہی بیٹھے رہیں ۔ بہر حال یہ وقت اور یہ مقام افضل واشرف ہیں ۔

اس تحریر کو اب تک 23 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply