ایڈوانس قیمت وصول کرنا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ، فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ
”جو شخص کسی بھی چیز میں بیع سلف کرنا چاہے وہ مقررہ ماپ، مقررہ وزن اور مقررہ مدت ٹھہرا کر کرے۔“ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمُسَاقَاةِ: 4118]
فوائد :
کسی چیز کی آئندہ ادائیگی کے وعدے پر اس کی نقد قیمت وصول کرنا جائز ہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے بیع سلم یا بیع سلف کہا جاتا ہے۔ عہد رسالت میں اس طرح کی خرید و فروخت ہو ا کرتی تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے لیکن مذکورہ بالا حدیث میں اس کی چند شرائط بیان ہوئی ہیں۔
◈ بطور قیمت ادا کی جانے والی چیز کی مقدار معلوم ہو اور اسے مجلس عقد میں ادا کر دیا جائے۔
◈ جو چیز آئندہ لینی ہے اس کا ایسا وصف بیان کیا جائے جس سے اس کی مقدار اور نوع ممتاز ہو جائے تاکہ دھوکے اور تنازع کا امکان نہ رہے۔
◈ ادائیگی کی مدت بھی طے کر لی جائے یعنی تاریخ کا تعین کر لیا جائے۔
دراصل بنیادی طور پر اس قسم کی خرید و فروخت اشیاء کے معدوم ہونے کی وجہ سے ناجائز تھی لیکن اقتصادی مصالح کے پیش نظر لوگوں کے ساتھ نرمی کرتے ہوئے شریعت نے اسے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ معاملہ طے کرتے وقت اس چیز کا موجود ہونا لازمی نہیں ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ اس قسم کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ اس وقت پیداوار موجود ہوتی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا ہم ان سے پیداوار کے متعلق نہیں پوچھا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب السَّلَمِ: 2255]
بہرحال اس قسم کی خرید و فروخت کے لئے ضروری ہے کہ جنس متعین ہو، ماپ یا وزن بھی معلوم ہو، بھاؤ بھی طے ہو اور ادائیگی کی تاریخ بھی طے شدہ ہو تو ایسا کرناجائز ہے۔ والله واعلم

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔