اجنبیوں سے مصافحہ کرنے کا حکم

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال : ہم ایک ایسی بستی میں رہتے ہیں جہاں کے لوگوں کی عادتیں بہت بری ہیں ، مثلاً جب گھر میں کوئی مہمان آتا ہے تو گھر کے تمام افراد خواتین و حضرات اس سے مصافحہ کرتے ہیں ، پس جب میں کسی مرد مہمان سے مصافحہ نہیں کرتی ہوں تو وہ مجھے ”شاذہ“ ( نامناسب و نامانوس طرز عمل اختیار کرنے والی) ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ، اس کاکیا حکم ہے ؟
جواب : مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ عزوجل کا حکم مان کر اور اس کی نہی سے رک کر اس کی اطاعت بجا لائے ، ایسی اطاعت کرنے والے کو ”شاذ“ مانوس طرز عمل اختیار کرنے والا نہیں کہا کرتے ، بلکہ شاذ تو وہ ہے جو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ اور سوال میں جس عادت کے متعلق سوال کیا گیا ہے یہ بری عادت ہے ، لہٰذا عورت کا غیر محرم مرد سے مصافحہ کرنا ، خواہ وہ کسی حائل اور رکاوٹ کے ساتھ ہو یا ننگے ہاتھ کے ساتھ ، حرام ہے ، کیونکہ عورت کے ہاتھ کو غیر محرم مرد کے ہاتھ کو چھونے سے فتنہ بھڑکتا ہے اور اس کی وعید میں کئی احادیث موجود ہیں ، اگرچہ ان کی سندیں قوی اور مضبوط نہیں ہیں ، لیکن ان کا معنی و مفہوم ان کی صحت کی تائید کرتا ہے ۔ واللہ اعلم
میں مذکورہ سائلہ سے کہوں گا کہ وہ اس عادت بد کے ترک کرنے پر اپنے گھر والوں کے اعتراض و احتجاج پر کان نہ دھرے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو نصیحت کرے کہ وہ اس بری عادت کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی والے اعمال بجالائیں ۔ (محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ )

اجنبی بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے کا حکم ۔
سوال : اجنبی عورت سے مصافحہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر وہ اپنے ہاتھ پر کپڑے وغیرہ کی رکا وٹ و آڑ بنا لے تو پھر کیا حکم ہے ؟ اور کیا مصافحہ کرنے والے کے جوان یا بوڑھا ہونے اور جس عورت سے مصافحہ کیا جاتا ہے اس کے بوڑھی ہونے سے حکم مختلف ہوگا ؟
جواب : غیر محارم عورتوں سے چاہے وہ جوان ہوں یا بوڑھی اور چاہے مصافحہ کرنے والا جوان ہو یا بوڑھا کھوسٹ کسی صورت میں مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اس سے دونوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے ۔ صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے :
إني لا أصافح النساء [صحيح سنن النسائي ، رقم الحديث 4181 ]
”بلاشبہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔“
حضرت عائشہ بھی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے :
ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امرأة قط ما كان يبايعهن إلا بالكلام [صحيح البخاري ، رقم الحديث 4983 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1866]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے صرف زبانی بیعت لیا کرتے تھے ۔“
عمومی دلائل کی وجہ سے اور اسباب فتنہ کا سد باب کرنے کے لیے ہاتھ پر (کپڑے وغیرہ ) کی رکاوٹ اور بغیر رکاوٹ کے مصافحہ کرنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )
بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے کا حکم ۔
سوال :کیا عمر رسیدہ بیمار بوڑھی عورت کی زیارت کرنا اور اس سے مصافحہ اور خلوت کرنا جائز ہے ؟
جواب : اگر ہم مندرجہ ذیل مقولہ کو ذہن میں نہ لائیں تو اس سوال میں مذکورہ کاموں کے جواز کا فتویٰ دینا ممکن ہے ، مقولہ اور ضرب المثل یہ ہے : ”لكل ساقطة فى الحي لاقطة “ (ہر گری پڑی چیز کو کوئی اٹھانے والا ہے ) ، لہٰذا بوڑھی عورت کی زیارت ، مصافحہ اور خلوت سے دور رہنا ہی اولی
و بہتر ہے ۔ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

اجنبی عورت کو سلام کہنے کا حکم ۔
سوال : میں ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور بعض اوقات میں نوجوان لڑکیوں کو سلام کہتا ہوں ، پس کیا طالب علم کا کالج (یونیورسٹی وغیرہ ) میں اپنی ساتھی لڑکی کو سلام کرنا حرام ہے یا حلال ؟
جواب : اولا : ایک جگہ ، ایک سکول اور ایک کرسی پر جوان لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا ہی جائز نہیں ہے ، بلکہ یہ تو فتنہ کے بڑے اسباب میں ہے ، لہٰذا طالب علم لڑکے اور لڑکی کے لیے اس قسم کا پرفتن اختلاط و اشتراک جائز نہیں ہے ۔
رہا سلام کہنا تو اس طالب علم لڑکے کے لڑکی کو ایسا شرعی سلام کرنے میں ، جس میں اسباب فتنہ کی آمیزش نہ ہو ، کوئی حرج نہیں ہے ، اور نہ ہی طالب علم لڑکی کے لڑکے کو بغیر مصافحے کے سلام کہنے میں کوئی حرج ہے ، کیونکہ اجنبی مرد سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ وہ دور سے حجاب کے ساتھ اسباب فتنہ سے دور رہتے ہوئے خلوت اختیار کیے بغیر سلام کہے ، لہٰذا ایسے شرعی سلام میں ، جو فتنہ انگیز نہ ہو ، کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن اگر لڑکے کا لڑکی کو یا لڑکی کا لڑکے کو سلام کرنا باعث فتنہ ہو یعنی شہوت کے ساتھ اور اللہ کے حرام کردہ کاموں میں رغبت کی غرض سے ہو تو یہ سلام شرعاً ممنوع ہے ، و باللہ التوفیق
(عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

سوال : کیا بغیر مصافحہ کے عورت کا مردوں کو سلام کہنا جائز ہے ؟
فقہاء کے ہاں اس مسئلہ میں تفصیل ہے ، اور (واللہ اعلم) راجح بات یہ ہے کہ بلاشبہ نوجوان عورت کے لیے مردوں کو سلام کہنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن جب عورت ایسی عمر رسیدہ ہو اور ظن غالب ہو کہ اس کے سلام کہنے سے کوئی فتنہ برپا نہیں ہوگا تو اس کے مردوں کو سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جیسے مرد کے بوڑھی عورت کو سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ہم سلف صالحین کی کوئی ایسی سنت اور طریقہ نہیں جانتے کہ وہ جب عورتوں کے پاس سے گزرتے ہوں تو بغیر کسی عمر کا فرق کیے ان کو سلام کہتے ہوں ۔ اور نوجوان عورت کے مردوں کو سلام نہ کرنے سے سبب فتنہ کاسدباب ہو جاتا ہے ، بہت سی شرعی نصوص اس قاعدہ پر دلالت کرتی ہیں ، ان میں سے واضح ترین نص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
كتب على ابن آدم حظه من الزنا ، فهو مدركه لا محالة ، فالعين تزني وزناها النظر ، والأذن تزني وزناها السمع واليد تزني وزناها البطش والرجل تزني وزناها المشي ، والفرج يصدق ذلك أو يكذبه [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5889 صحيح مسلم ، رقم الحديث 2657 ]
”ابن آدم پر اس کا حصہ زنا (اس کی تقدیر میں اس ) پر لکھ دیا گیا ہے ، پس وہ لازمی طور پر اس کو حاصل کرنے والا ہے ، لہٰذا آنکھ زنا کرتی ہے اور اس کا زنا ( ناجائز ) دیکھنا ہے ، اور کان زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز ) سننا ہے ، اور ہاتھ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز) چھونا ہے ، اور پاؤں زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز ) چلنا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ “یہ روایت بخاری و مسلم میں ہے ۔
سنن ابی داود میں صحیح سند والی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول والرجل تزني کے بعد یہ الفاظ ہیں : والفم يزني ، وزناها القبل ” اور منہ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا کسی کو ( ناجائز ) بوسہ دینا ہے ۔ “
سواس حدیث میں دو قسم کی حرام چیزوں کا بیان ہے :
➊ پہلی وہ ہے جو کسی دوسری (حرام) چیز کی وجہ سے حرام ہے اور وہ ہے سبب کاسد باب کرنا ۔
➋ دوسری وہ ہے جو بذات خود حرام ہے اور وہ زنا ہے ۔
( عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

اجنبی عورت مصافحہ کرنے کا حکم ۔
سوال : اجنبی عورت سے مصافحہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ حرام ہے ۔ ”بخاری و مسلم“ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، فرماتی ہیں :
وما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم سيد امرأة قط [صحيح البخاري ، رقم الحديث 4983 صحيح مسلم ، رقم الحديث 1866 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا ۔ “
”جامع ترندی“ میں امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[إنى لا أصافح النساء] [صحيح سنن النسائي ، رقم الحديث 4181 ]
”بلاشبہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔“
اور ”بخاری و مسلم “میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كتب على ابن آدم حظه من الزنا ، فهو مدركه لا محالة ، فالعين تزني وزناها النظر ، والأذن تزني وزناها السمع ، واليد تزني وزناها البطش والرجل تزني وزناها المشي ، والفرج يصدق ذلك أو يكذبه [صحيح البخاري ، رقم الحديث : 5889 صحيح مسلم ، رقم الحديث 2657 ]
”ابن آدم پر اس کا حصہ زنا (اس کی تقدیر میں اس ) پر لکھ دیا گیا ہے ، پس وہ لازمی طور پر اس کو حاصل کرنے والا ہے ، لہٰذا آنکھ زنا کرتی ہے اور اس کا زنا ( ناجائز ) دیکھنا ہے ، اور کان زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز ) سننا ہے ، اور ہاتھ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز) چھونا ہے ، اور پاؤں زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (ناجائز ) چلنا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔ “
امام طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی ”معجم “میں معقل بن سیار رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لأن يطعن أحدكم بمخيط من حديد فى رأسه خير له من أن يمس امرأة لا تحل له [صحيح ۔ المعجم الكبير للطبراني 211/20 ]
تم میں سے کسی شخص کا اپنے سر میں لوہے کی سوئی سے سور اخ کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے ۔ ”( مقبل بن با دی الوادعی رحمہ اللہ )

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔