تاجروں اور صارفین کو نصیحت

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

92- قسطوں کے کارو بار سے وابستہ تاجروں اور صارفین کو نصیحت
میری اپنے تاجر بھائیوں اور صارفین کو یہ نصیحت ہے کہ وہ ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں، ہر معاملے میں اس کی نگرانی کا خیال رکھیں، اپنی بیع و شرا میں بھر پور کوشش کر کے سچائی اور دیانتداری کا پاس رکھیں اور جھوٹ، خیانت اور شریعت مطہرہ کے خلاف ہر قسم کے معاملات اور تجارتی معاہدوں سے اجتناب برتیں۔ میں تاجروں کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھ معاملات کرنے والے افراد کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اور جو ان سے ادھار بیع کے محتاج ہیں ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے نرمی اختیار کریں، سامان کی قیمت بہت زیادہ بڑھائیں نہ تقاضا کرتے وقت ہی درشتی اختیار کریں، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت اور قضا اور تقاضا کرتے وقت روا داری اپنانے پر اکسایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«خيار الناس أحسنهم قضاء» [سنن أبى داود، رقم الحديث 3346]
”لوگوں میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قضا کے اعتبار سے بہتر ہے۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«البيعان بالخيار مالم يتفرقا، فإن صدقا، و بينا بورك لهما فى بيعهما، وإن كتما و كذبا محقت بركة بيعهما» [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 1532/47]
دو بیع کرنے والے اس وقت تک با اختیار رہتے ہیں جب تک جدا جدا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ سچ بولیں اور حقیقت بیان کریں ان کی بیع میں برکت ہوگی اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹ جائے گی۔
اسی طرح میں صارفین کو بھی بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے بارے میں اور اپنے ماتحتوں اور زیر ولایت افراد کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور ہر وہ چیز خریدنے کے پیچھے بھاگ نہ پڑیں جس کی انہیں ضرورت نہیں، اس طرح ان پر قرض کا بوجھ پڑ جاتا ہے، جس چیز کو وہ اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں، اسے پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ اپنے اوپر اور اپنے زیر کفالت افراد پر تنگی
کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ انجام سے بے خبر ہو کر ان سہولیات سے وسیع پیانے پر استفادہ کرنا چاہتے ہیں، جبکہ ہر معاملے میں میانہ روی مطلو ب ہے۔
اللہ تعالیٰ اخراجات میں اعتدال پر اکساتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا» [الإسراء 29]
”اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کر لے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھے رہے گا۔“
ایسے بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا» [الفرقان: 67]
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔“
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 24/19]

اس تحریر کو اب تک 2 بار پڑھا جا چکا ہے۔