خرید و فروخت میں سود کی بعض شکلیں

128- سود کی ایک صورت
سوال: ایک آدمی کے بیٹے نے گاڑی خریدنے پر اصرار کیا تو وہ ایک کمپنی کے پاس گیا، انہوں نے اس سے نقد قیمت طلب کی جو اس کے پاس نہیں تھی، وہ واپس چلا گیا اور ایک دوسرے آدمی کو ساتھ لے کر آیا جو اس کے لیے گاڑی خریدنے کی ہامی بھرتا ہے، اس نے وہ گاڑی خریدی، اسے دکان سے نکالا، پھر اس آدمی کو کچھ اضافے کے ساتھ بیچ دی، اس کا کیا حکم ہے؟
یہ صورت اب آپ کے سامنے واضح ہے کہ ایک انسان کو گاڑی کی ضرورت پیش آئی، اس کے پاس نقدی نہیں، وہ ایک دوسرے آدمی کو لے کر آیا اور اس نے کہا: میں یہ گاڑی کمپنی سے نقد خریدتا ہوں اور تجھے اس قیمت سے زیادہ قیمت پر قسطوں پر بیچتا ہوں جس قیمت پر میں نے گاڑی خریدی ہے۔
جواب: یہ حرام ہے کیونکہ یہ سود کے لیے حیلہ ہے، کیونکہ یہ شخص جس نے یہ گاڑی خریدی ہے، پھر تجھے بیچی ہے، حقیقت میں اس نے تجھے فائدے کے ساتھ قرض دیا ہے، اس نے یہ کہنے کے بجائے کہ یہ اس کی قیمت لے، یہ کہا ہے کہ گویا یہ پچاس ہزار ہیں، جو ایک سال تک کے لیے ساٹھ ہزار کے بدلے مجھے دیتا ہوں، اس نے کہا: میں اسے خریدتا ہوں اور تجھے بیچتا ہوں، اگر تو نہ ہوتا تو وہ اسے خریدتا بھی نہیں، اور اگر وہ تجھ سے سود نہ کماتا تو پھر بھی اسے نہ خریدتا، لیکن یہ حقیقت میں سود ہے، شائد یہ حرکت اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے پر مشتمل ہو، جب اللہ تعالیٰ نے صریح سود حرام کر دیا تو اس شخص نے حیلہ کرتے ہوئے صرف اس کی شکل تبدیل کر دی، صورت تبدیل کر دینا حرام چیز کو حلال نہیں
کر دیتا۔
یہ اصحاب سبت جن پر اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن سمندر سے شکار کرنے پر پابندی لگائی، خدا تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا اور ہفتے کے دن مچھلیاں اس قدر کثیر تعداد میں ہوئیں کہ وہ سطح آب پر آجاتیں، جبکہ ہفتے کے علاوہ دیگر دنوں میں نہ آتیں، یہ مدت ان کے لیے بڑی لمبی ہوگئی، انہوں نے سوچا کہ ہفتے کے دن ہمارے لیے شکار حرام ہے اور مچھلیاں ہیں کہ کسی دوسرے دن سطح پر آتی ہی نہیں، کوئی حیلہ جوئی کرو، انہوں نے جمعے کے دن جال پھینکنا شروع کر دیا، ہفتے کے روز مچھلیاں آتیں، ان جالوں میں پھنس جاتیں اور نکلنے نہ پاتیں، جب اتوار کا دن آتا وہ سارے آتے اور انہیں جالوں سے نکال کر لے جاتے۔
امر واقعی یہ ہے کہ وہ اتوار کے دن ہی شکار کرتے، ہفتے کے دن انہوں نے شکار نہیں کیا، یہ خود ہی آتیں اور جالوں میں پھنس جاتیں، نہ وہ انہیں خود لے کر آتے اور نہ انہیں شکار ہی کرتے، تو کیا ان کے اسے حیلے نے کچھ فائدہ دیا؟ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
و لقد علمتہ البنین اعتدوانگہ فی البی فقلنا لہم ونوا قردۃ خ ین [البقرة: 65]اور بلاشبہ یقیناً تم ان لوگون کو جان چکے ہو جو تم میں سے ہفتے (کے دن) میں حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا: ”ذلیل بندر بن جاؤ۔“
انہیں اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن زیادتی کرنے والا قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ سب ذلیل اور رسوا شدہ بندر ہو جائیں کل جو بشر تھے آج وہ بندر بن گئے اور بندروں کی طرح آوازیں نکالنے لگے، کیونکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کے متعلق حیلہ سازی کی۔ اسی وجہ سے ہمارے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ یہودیوں کو برباد کرے، جب اللہ نے ان پر مردار کی چربی حرام کی تو انہوں نے چربی پگھلائی، پھر اسے بیچا اور پھر اس کی قیمت کھائی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2236 صحيح مسلم 1581/71]
”مسند احمد میں ہے، جس کی سند کی بعض ائمہ نے تصحیح کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ارتکا ب نہ کرو جس کا ارتکا ب یہود نے کیا، پھر تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو چھوٹے چھوٹے حیلوں کے ساتھ حلال کرنے لگ جاؤ گے۔“ [ضعيف۔ غاية المرام، رقم الحديث 11]
یہ معاملہ جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، بلاشبہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں واضح طور پر سود کے لیے حیلہ جوئی ہے، لہٰذا یہ سود دینے والے اور لینے والے دونوں کے لیے حرام ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس پر دو گواہی دینے والوں پر لعنت کی ہے۔
حل:
حل یہ ہے کہ وہ دونوں ہی توبہ کریں، جس نے گاڑی خریدی پھر اس کو اضافے کے ساتھ بیچی، اس کی توبہ کی تکمیل اس طرح ہوگی کہ وہ یہ اضافہ نہ لے، اور وہ دوسرا آدمی جس نے گاڑی خریدی ہے، اگر اس کو علم نہیں تھا تو اس کے ذمے صرف اس آدمی کو اصل رقم ادا کرنا ہے، اگر ان دونوں کو علم تھا کہ یہ حرام ہے تو یہ بیچنے والا جس نے اضافہ لیا ہے، اس کے لیے یہ اضافہ اپنے پاس رکھناجائز نہیں، اسے بیت المال میں جمع کرا دے، لیکن اس خریدار سے معاف نہ کرے کیونکہ یہ خریدار حرمت پائمال کرنے والا ہے جبکہ جاہل اور حر مت پائمال کرنے والے کے درمیان فرق ہے، اگر وہ دونوں ہی جاہل تھے تو پھر اب یہ راستہ ہے کہ منافع کے ساتھ یا حقیقت میں سود کے ساتھ بیچنے والا کہے: مجھے صرف میرا اصل سرمایہ ہی کافی ہے، اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 37/12]
——————

129- اس ترکے سے وراثت لینے کا حکم جو سود سے ہو
سوال: جب ہمیں علم ہو کہ مرنے والا سودی لین دین کرتا تھا تو کیا اس کے ورثا کے لیے ترکے سے اپنا حصہ لینا جائز ہے؟
جواب: ہم کہتے ہیں: ہاں، جائز ہے اور اس کا گناہ میت کے سر ہوگا، لیکن اگر سود ابھی تک نہ لیا گیا ہو تو ہم ورثاء سے کہیں گے، جس پر سود واجب ہے اس سے لے لو لیکن اسے کھاؤ نہ بلکہ صدقہ کر دو، مسجدوں میں، راستوں میں یا دیگر اچھائی کے کاموں میں صرف کر دو، لیکن جو سود وصول کیا جا چکا ہے اور میت نے خود وصول کیا ہے، اس کا گناہ میت کو ہوگا لیکن جو ابھی تک وصول نہیں ہوا، ورثا کا اس کو اپنے لیے وصول کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے صرف رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے وصول کریں، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ سود ہے تو پھر وہ اسے وصول ہی کیوں کریں؟ ہم کہیں گے یہ سود خور جس نے سود ادا کیا ہے، راضی خوشی سودی لین دین کرتا رہا ہے، لہٰذا ہم اسے یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس مدت میں ان پیسوں سے فائدہ بھی اٹھاتا رہے اور سود سے بھی، لہٰذا اسے کہیں گے، لاؤ، اس سے لے کر ہم یہ مال رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف کر دیں گے اور اگر وہ یہ سمجھیں کہ مصلحت سود نہ لینے میں ہے، مثال کے طور پر اگر وہ فقیر ہو تو پھر اس سے بالکل ہی نہ لیں۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 13/135]
——————

130- وہ اشیا جن میں سود حرام ہے
وہ اشیا جن میں سود حرام ہے، حسب ذیل ہیں:
سونا، چاندی، گندم، جو، کہجور، نمک اور وہ چیزیں جو ان چھ چیزوں میں علت حر مت میں مشترک ہوں، یہ علت سونے اور چاندی میں، جو زر ہیں، قیمت ہونا ہے جبکہ باقی اصناف میں علما کے صحیح قول کے مطابق ان کا کھائی جانے والی اشیاء کا ہونا اور ماپ کر بکنا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 168775]
——————

131- جانور کے بدلے جانور کی اضافے اور ادھار کے ساتھ خرید و فروخت
جانور کے بدلے جانور کی خرید و فروخت اضافے اور ادھار کے ساتھ جائز ہے۔ مسند احمد اور سنن ابو داود میں حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اونٹوں پر ایک لشکر بھیجنے کا حکم دیا جو میرے پاس تھے، میں نے لوگوں کو ان پر سوار کر دیا، حتی کہ اونٹ ختم ہوگئے، جبکہ کچھ لوگ باقی رہ گئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اونٹ ختم ہوگئے ہیں، جبکہ کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کے لیے سواری نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: صدقہ (زکاۃ) کے اونٹ آنے تک ان کے عوض، ہمارے لیے اونٹ خرید لو حتی کہ یہ لشکر پورا ہو جائے، میں صدقہ کے اونٹوں سے دو اونٹنیوں تین اونٹنیوں کے بدلے، ان کے آنے تک کا ادھار کر کے ایک ایک اونٹ خریدتا گیا حتی کہ یہ لشکر پورا ختم گیا، جب صدقہ کے اونٹ آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ادائی کر دی۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2823]
اسی مفہوم میں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی ایک حدیث ذکر کی ہے اور امام بیہقی نے (سنن) میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے اس کا ذکر کیا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 6904]
——————

132- دو میٹروں کے بدلے ایک میٹر کپڑے کی بیع یا ایک قسم کے بدلے دو قسموں کے کپڑے کی بیع
ایک کپڑے کو دوسرے کپڑے کے بدلے برابر یا زیادہ، چاہے وہ ایک جنس سے ہو یا مختلف جنسوں سے، ادھار ہو کہ نقد، بیچناجائز ہے، کیونکہ کپڑے سودی اجناس میں شامل نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 3791]
——————

133- ایک متعین گاڑی کو دوسری متعین گاڑی کے ساتھ تبدیل کرنا
ایک متعین گاڑی کو دوسری متعین گاڑی کے ساتھ تبدیل کرناجائز ہے، چاہے ان کی جنس ایک ہو یا مختلف، اور خواہ ان کی قیمت برابر ہو یا متفاوت، کیونکہ گاڑیاں سودی اشیا میں داخل نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 9890]
——————

134- اگر تمام کرنسیاں سونے کے قائم مقام قرار دی جائیں تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟
سونا اور چاندی تمام کے تمام ان (کرنسیوں) میں اصل ہیں اور یہ ان کے قائم مقام ہیں، لہٰذا ایک ہی کرنسی کی بیع کرتے وقت اضافہ لیناجائز نہیں، سود جاری ہونے کے اعتبار سے ایک کرنسی بھی سونے اور چاندی کے قائم مقام ہے اور دو (مختلف ممالک، اجناس کی)کرنسیاں بھی انھیں کے قائم مقام ہیں، اس لیے ایک ہی کرنسی کی اس کی جنس کے ساتھ بیع کرتے وقت اضافہ لینا جائز نہیں لیکن دو مختلف کرنسیوں کا تبادلہ کرتے وقت اضافہ کرنا تو جائز ہے لیکن ادھار روا نہیں۔ اس طرح اس معاملے میں دو کرنسیاں بھی سونے اور چاندی کے قائم مقام ہیں اور ایک کرنسی بھی انھی کے قائم مقام ہے۔ (سود جاری ہونے کے اعتبار سے کاغذی کرنسی سونے اور چاندی کے قائم مقام ہے)
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 169/19]
——————

135- تورق اور سود کی دونوں اقسام: ربا الفضل اور ربا النسیئہ کے درمیان فرق
سود یہ ہے کہ جس جنس کا تبادلہ اس کی جنس ہی سے کیا جا رہا ہو، اس میں اضافہ لینا سود ہے اور اسے ربا الفضل کہا جاتا ہے، جیسے: ایک ہی جنس کا ایک صاع دو صاع کے بدلے میں لینا یا دو درہموں کے بدلے ایک درہم لینا چاہے، یہ نقد ہو کہ ادھار، اگر یہ ادھار کے بدلے ادھار ہو تو پھر اس میں ربا الفضل اور ربا النسیئہ دونوں ہی ہوں گے۔ اگر درہموں کے بدلے درہم اضافے کے ساتھ لے تو یہ ربا الفضل ہے، چاہے نقد ہو کہ ادھار، جبکہ مسئلہ تورق کا اس باب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اس کا مطلب ہوتا ہے کوئی سامان ادھار خریدنا، پھر اسے ایک دن یا دوسرے دن یا چوتھے دن کسی دوسرے کو، نہ کہ اس کو جس سے خریدا تھا، نقد بیچ دینا۔
درست یہی ہے کہ یہ عموی دلائل کی بنا پر حلال ہے، نیز اس میں کشادگی آسانی اور وقت ضرورت پورا کرنے کا سامان موجود ہے، لیکن جو شخص اسی کو بیچ دیتا ہے جس سے خریدتا ہے تو یہ جائز نہیں بلکہ یہ سودی کام ہے، اس کا نام بعی عینہ ہے، جو حرام ہے کیونکہ یہ سود کے لیے حیلہ جوئی ہے، یہ ایک جنس کی اسی کی جس کے بدلے اضافے کے ساتھ ادھار ہو کہ نقد، بیع ہے، لیکن تورق میں کوئی حرج نہیں، جس طرح گزر چکا ہے، اس کا معنی ہوتا ہے کوئی سامان، جیسے: غلہ (خوراک)، گاڑی، زمین یا کوئی اور چیز، معینہ درہموں کے بدلے معینہ مدت تک کے لیے خریدنا، پھر اسے کسی دوسرے شخص کو، نہ کہ اس کو جس سے خریدا تھا، نقد بیچ دینا تاکہ آدمی اپنی ضرورت، شادی وغیرہ جو بھی ہو، پوری کر سکے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 245/19]
——————

136- سودی بینکوں کے ذریعے تنخواہیں لینا
اس میں کوئی حرج نہیں، بنکوں کے ذریعے تنخواہیں لینے میں کوئی مضرت نہیں، کیونکہ ملازم اسے سود کے لیے نہیں رکھتا بلکہ حکومت اسے حفاظت کی غرض سے رکھتی ہے تاکہ ملازم اپنی تنخواہ لے سکے، اسی طرح بنکوں کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک رقم منتقل کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ ضرورت کا تقاضا ہے۔
ممانعت اس میں ہے کہ انہیں سود میں استعمال کیا جائے یا سود میں ان سے معاونت لی جائے، لیکن کسی مناسب جگہ کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بنکوں میں حفاظت کی غرض سے رکھنا یا کسی دوسرے مگر غیر سودی سبب کی وجہ سے یا بنک کے ذریعے انہیں منتقل کرنے میں، ان شاء اللہ، کوئی حرج نہیں، لیکن اگر حکومت تنخواہیں بنکوں کے علاوہ کہیں دوسری جگہ رکھیں تو یہ زیادہ بہتر اور قابل سلامتی ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 251/19]
——————

137- غلے کی اسی کی جنس کے بدلے اضافے کے ساتھ خرید و فروخت کا حکم
سوال: ہمارے علاقوں میں غلہ پیدا ہوتا ہے اور نقدی کے کم ہونے کے باعث ہمارے ہاں کرنسی بھی غلہ ہی ہوتا ہے، جب بونے کا وقت آتا ہے، ہم تاجروں سے ایک ریال کے بدلے ایک صاع خریدتے ہیں، جب کٹائی کا وقت آتا ہے اور دانے صاف کیے جاتے ہیں، ہم تاجروں کو مثال کے طور پر ہر ریال کے بدلے دو صاع دیتے ہیں کیونکہ کٹائی کے وقت ریٹ بویائی کے وقت کے ریٹ سے کم ہوتا ہے۔ کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
جواب: اس معاملے میں علما کے ہاں اختلاف ہے اور اکثریت اس کے عدم جواز کی قائل ہے کیونکہ یہ گندم وغیرہ کی اسی کی جنس کے بدلے زائد اور ادھار بیع کا وسیلہ ہے، اور یہ دو اطراف سے بالکل سود ہے، اضافے کی طرف سے، اور مہارت کی طرف سے، جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس وقت اس کے جواز کی قائل ہے، جب بائع اور مشتری نے کرنسی کے بدلے گندم دینے پر اتفاق کیا ہو، نہ عقد کے وقت اس کی شرط ہی لگائی ہو۔
یہ تو تھی اس مسئلے میں اہل علم کی گفتگو، جبکہ آپ کے اس معاملے میں تھوڑے دانوں کے بدلے زیادہ دانے دینے پر اتفاق ظاہر ہوتا ہے کیونکہ کرنسی تھوڑی ہے اور یہ جائز نہیں۔
اس جیسی حالت میں کسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ دانے کسی دوسرے تاجر کو بیچیں، اس کو نہ بیچیں جس سے بویائی کے وقت دانے خریدے تھے، پھر ان کا حق نقدی سے ادا کریں، یہی ایک ایسی راہ ہے جو سلامتی، احتیاط اور سود سے دوری کی راہ ہے، اگر کسان اور تاجر کے درمیان بیع نقدی ہی پر طے ہو، لیکن پھر کسان سابقہ کسی اتفاق اور شرط کے بغیر دانوں سے ادا کر دے تو اس کا صحیح ہونا ہی قرین قیاس ہے، جس طرح علما کی ایک جماعت کا یہ قول ہے، خصوصاً جب کسان فقیر ہو اور تاجر کو خدشہ ہو کہ اگر اس نے قیمت کے بدلے دانے نہ لیے تو اس کا حق مر جائے گا اور اسے کچھ بھی نہیں مل سکے گا، کیونکہ کسان کسی دوسرے کو دے دے گا اور اس کو چھوڑ دے گا یا وہ دانے کسی دوسری ضرورت میں صرف کر دے گا، اکثر غریب کسانوں سے ایسے ہو جاتا ہے اور تاجر کا حق ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تاجر اور کسان دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہو کہ کٹائی کے بعد نقدی کے بدلے دانے ہی دینے ہیں، تو پہلی بیع اس مذکور اتفاق کی بنا پر صحیح نہیں، اور تاجر صرف اتنے ہی دانے لے سکتا ہے، جتنے اس نے کسان کو دیے تھے کیونکہ زیادہ دانے دینے پر اتفاق کر لینے کی وجہ سے یہ بیع صحیح نہیں، لہٰذا اسے قرض کے قائم مقام بنا لیا جائے اور زیادہ دانے نہ لیے جائیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 252/19]
——————

یہ تحریر اب تک 29 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔