سودے پر سودا کرنا

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

45- بولی کے ذریعے خرید و فروخت
سودے پر سودا کرنے کے معاملے میں کچھ تفصیل ہے، اگر وہ بولی کھلی رہے، سامان پر آواز لگائی جائے اور مزید کی طلب کی جائے تو ایسی صورت میں اگر انسان کسی دوسرے سودے پر اضافہ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ زیادہ کی طلب کی جا رہی ہے اور زیادہ کا دروازہ کھلا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ایک سودوں میں، جن کی آپ نے نگرانی کی، کہا: ”کون زیادہ دے گا؟“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 1641 سنن الترمذي، رقم الحديث 1218]
اگر سودا ختم ہو جائے اور مالک یا اس کے وکیل نے کسی شخص کو بیچنے کا ارادہ کر لیا ہو اور سودا پکا کر لیا ہو اور بولی کا سلسلہ منقطع کر دیا ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آگے بڑھے اور اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«ولا يسم على سوم أخيه» [صحيح مسلم 1408/38]
”وہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے۔“
[الفوزان: المنتقى: 54]

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔