اہل جہالیت کے بعض عقائد

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اپنے دین کی اقراری باتوں کا انکار

————–

اہل جاہلیت کا ایک عمل یہ بھی تھا کہ جن باتوں کے متعلق ان کو اقرار تھا کہ یہ ان کے دین کی ہیں ان سے بھی انکار کر دیتے تھے جیسا کہ حج بیت اللہ کے بارے میں ان کا عمل تھا، انھوں نے اس کا انکار کیا اور اس سے اپنی برات ظاہر کی، جبکہ ان کو اقرار تھا کہ یہ ان کے دین کی باتیں ہیں جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے۔
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى [2-البقرة:125]
”اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کر لیا اور (حکم دیا) کہ جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔“
نیز فرمایا :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ٭ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ٭ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [2-البقرة:130]
”اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کر سکتا ہے بجز اس کے جو بہت نادان ہو۔ ہم نے اس کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرۃ ) صلحا میں ہوں گے، جب ان سے ان کے رب نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انھوں نے عرض کیا کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات اور یعقوب نے بھی اپنے فرزندوں سے یہی کہا کہ بیٹا خدا نے تمہارے لئے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔“
اس آیت کا سبب نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اپنے دو بھتیجوں سلمہ اور مہاجر کو اسلام لانے کی دعوت دی اور ان سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اسمعیل کی اولاد سے ایک نبی مبعوث کرنے والا ہوں جس کا نام ”احمد“ ہو گا جو ان پر ایمان لائے گا رشد و ہدایت پائے گا اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ ملعون ہوگا۔
چنانچہ سلمہ نے اسلام قبول کر لیا اور مہاجر نے انکار کر دیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

بے ستری کا کھلا مظاہرہ
————–

اللہ کا ارشاد ہے :
وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّـهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ٭ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ [7-الأعراف:28]
”اور جب کوئی بےحیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی حکم دیا ہے کہہ دو اللہ بےحیائی
کے کام کرنے کا حکم ہرگز نہیں دیتا، بھلا تم اللہ کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں، کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو، اور خاص اسی کی عبادت کرو اور اسی کو پکارو اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے۔“
بعض مفسرین کا بیان ہے کہ ”فاحشہ“ سے مراد یہاں انتہائی قبیح فعل مراد ہے۔ یعنی بتوں کی بندگی اور طواف میں بے پردہ ہونا۔ اور ”فراء“ کے نزدیک یہاں فاحشہ سے مراد صرف طواف میں بے پردگی ہے۔ آیت کا مفہوم دراصل یوں ہے کہ جب وہ کوئی فحش کام کرتے ہیں اور انہیں منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو ایسا ہی کم دیا ہے۔ اپنے برے کاموں کے جواز کے لیے انہوں نے جو دلیل پیش کیں، باپ دادا کی تقلید اور اللہ پر بہتان اور قریش کی عادت تھی کہ موسم حج میں عرفات نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے اور نہ گھی بناتے اور نہ پنیر اور بکریوں اور گایوں کو باندھتے بھی نہ تھے اور نہ اون اور بال کاٹتے اور نہ بال اور چمڑے کے گھر میں داخل ہوتے، بلکہ حرام مہینوں میں سرخ قبوں میں چھپ جاتے، پھر انہوں نے تمام عربوں پر یہ مطلق فرض کر دیا کہ جب حرم میں داخل ہوں تو حل کے تمام توشے پھینک دیں اور حل کے کپڑے کو حرم کے کپڑے سے بدل لیں چاہے خرید کر یا مانگ کر یا ہبہ کے طور پر۔ اگر یہ ممکن ہو تو ٹھیک ورنہ ننگے ہی بیت اللہ کا طواف کریں اور عرب کی عورتوں کے لئے بھی ایسے ہی ضروری کر دیا البتہ وہ کپڑے کا ایسا ٹکڑا لپیٹ کر طواف کر سکتی تھی کہ اگلا اور پچھلا حصہ کھلا ہو۔
ایک عورت جو بیت اللہ کا طواف کر رہی تھی، یہ اشعار کہے۔
اليوم يبدوا بعضه ادكله . . . وما بدامنه فلا احله
آج جسم کا کچھ یا پورا حصہ کھلے گا . . . اور جو کھل جائے گا اس کو میں حلال نہیں کروں گی
اخثم مثل القعب نادظله . . . كان حمي خبير تمله
میں پیالے کی طرح چوڑا کروں گی جس کا سایہ ظاہر ہے جیسے خیبر کا بخار اس کو آزردہ کئے ہوئے ہے
اور عربوں کو انہوں نے پابند کر دیا کہ مزدلفہ سے واپس جائیں جب کہ وہ عرفات سے واپس ہوتے تھے اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں تھیں جن کو انہوں نے گڑھ کر شریعت بنا دیا تھا، جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے باوجود محض اپنی جہالت سے وہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حضرت ابراہیم کی شریعت پر ہیں۔
آج بھی بہت سے نام نہاد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مساجد میں گانے بجانے کو عبادت سمجھ رکھا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو قبروں پر طواف اور قبروں کی طرف سفر کرنا اور قبروں پر نذر چڑھانا، اور ان کی طرف سفر کرنے کو خالص بندگی اور بہترین طاعت سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے درویشی اور شیطانی حیلے ایجاد کر رکھے ہیں اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ زاہدوں اور عابدوں کی راہ پر چل رہے ہیں، لیکن ان کا سب سے بڑا مقصد اپنی حیوانی خواہشات کو حاصل کرنا اور دنیا کی زندگی کو کامیاب بنانا ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ اس شعر کا کیا جواب دیں گے۔
الي ديان يومه الدين نمضي . . . وعند الله تجتمع الخصوم
روز جزا کے مالک کے پاس ہمیں جانا ہے . . . اور اسی کے پاس تمام فریق جمع ہوں گے۔

حلال کو حرام کرنا
————–

اہل جاہلیت اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر دیا کرتے تھے جس کی اللہ نے تردید فرمائی :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ٭ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ٭ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [7-الأعراف:31]
”اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔ “
ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ اے بنی آدم ہر طواف و نماز کے وقت ستر کو چھپانے کے لئے اپنے کپڑوں کو استمال کرو، اس آیت کا شان نزول یہ ہے، کچھ دیہاتی بیت اللہ کا ننگا طواف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ عورت بھی ننگی ہی طواف کرتی تھی البتہ اپنے نچلے حصے پر ایک تسمہ لٹکا لیا کرتی تھی جیسے تسمے گدوں کے منہ پر مکھی سے بچاؤ کے لیے لگا دئیے جاتے ہیں۔ اس حالت میں عورت یہ شعر پڑھا کرتی تھی۔
اليوم يبدوا بعضه ادكله . . . وما بدامنه فلا احله
آج جسم کا کچھ حصہ کھلے گا . . . اور جو کھلے گا اس کو حلال نہیں کروں گی
ان جہالتوں کی تردید کے لیے اللہ تعالی نے ان آیتوں کو نازل فرمایا۔
اسی طرح اہل جاہلیت ایام حج میں حج کی تعظیم کے خیال سے چربی استعمال نہیں کرتے تھے اور کھانا بھی بس برائے نام ہی کھاتے تھے تو اللہ نے فرمایا : كُلُوا وَاشْرَبُوا کھاؤ اور پیئو وَلَا تُسْرِفُو یعنی حلال چیز کو حرام کر کے زیادتی مت کرو۔ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ بلکہ ان کو برا سمجھتا ہے اور ان کے اعمال کو پسند نہیں کرتا، بلکہ اس کا تو فرمان ہے قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ یعنی کپڑے اور زینت کے سامان کو للہ نے لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے جیسے سوت، کتان، جانور، ریشم اور اون وغیرہ ان کو آخر کس نے حرام کر دیا ہے، اسی طرح پاکیزہ روزی یعنی لذت بخش حلال و طیب چیزیں کھانے پینے کی چیزیں، بکری کا گوشت، چربی، دودھ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا یعنی سب چیزیں اصلاً اہل ایمان کے لیے اس دنیا میں حلال و مباح ہیں جس سے اللہ کی طرف سے ان کی مزید بزرگی کا احساس ہو رہا ہے اور کافر بھی دنیا میں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہیں لیکن اہل ایمان کے طفیل خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ البتہ یہ چیزیں قیامت کے دن صرف اہل ایمان کے لیے مخصوص رہیں گی، کفار نہ پا سکیں گے۔ (ان احکامات کے علاوہ سب امور کی تفصیل بھی ہم اہل نظر کے لیے بیان کیا کرتے ہیں۔ )
نیز فرمایا إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ میرے رب نے خواہش کو حرام کیا یعنی وہ گناہ جن کی قباحت بہت ہے جیسے شرمگاہ کا گناہ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ خواہ وہ فواحش کھلے ہوں یا چھپے کیوں کے عرب اعلانیہ زنا کو برا سمجھتے تھے لیکن خفیہ زنا کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مَا ظَهَرَ سے مراد عریاں طواف ہے اور وَمَا بَطَنَ سے مراد زنا۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں، اول سے مراد دن میں مردوں کا طواف ہے اور ثانی سے مراد رات کو عورتوں کا عریاں طواف ہے اللہ نے گناہ کے ان سب اقسام کو حرام کر دیا اور الاثم یعنی تمام موجبات گناہ کو بھی حرام کر دیا چاہے شراب یا زنا یا اور کچھ۔ کچھ لوگ الاثم سے مراد شراب لیتے ہیں اور دلیل میں شاعر کا یہ قول پیش کرتے ہیں۔
نهانا رسول الله ان تقرب الزنا . . . وان نشرب الاثم الذى يوجب الوذرا
رسول اللہ نے ہم کو منع کیا ہے کہ ہم زنا کے قریب جائیں . . . اور شراب پئییں جس سے گناہ واجب ہوتا ہے۔
دوسرے شاعر کا قول ہے :
شربت الاثم حتي ضل عقلي . . . كذك الاثم يذهب بالعقول
میں نے شراب پی یہاں تک کہ میری عقل جاتی رہی . . . اور شراب اسی طرح عقلوں کو تباہ کرتی ہے۔
والبغي بغير الحق اور ناحق ظلم کو حرام کیا۔ اس گناہ کو خاص طور سے اس لیے بیان کیا کہ اس کی ممانعت و شدت کا احساس ہو۔ وان تشركوا بالله مالم ينزل به سلطانا، وان تقولوا على الله ما لا تعلمون اللہ نے حرام کیا کہ تم اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک کرو جن کی دلیل اس نے نہیں نازل کی اور اللہ پر وہ باتیں کہو جنہیں تم جانتے نہیں، مثلا اللہ کی صفتوں میں کجی اختیار کرنا اور اللہ پر بہتان باندھنا، یعنی جو باتیں اللہ نے نہیں کہیں اس کو اللہ کا نام لے کر کہنا جیسا کہ سورہ اعراف میں اس کا ذکر ہے والله امرنا بهذا یعنی اللہ نے ہمیں بےحیائی کا حکم دیا ہے۔ (معاذ اللہ)
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج کل کے بناوٹی صوفیاء بھی جاہلیت کی اسی عادت کو اختیار کئے ہیں، انہوں نے بھی اپنے اوپر اللہ کی زینت و پاکیزہ روزی کو حرام کر رکھا ہے۔ تاکہ عوام ان کو بڑا متقی سمجھیں، اس کے علاوہ انہوں نے ریاضتیں، چلے وغیرہ ایجاد کئے اور کھانے پینے اور دوسرے کاموں میں اپنے من مانی طریقے ایجاد کئے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ ایسا کر کے وہ اپنے کئے دھرے کو برباد کر رہے ہیں۔

اللہ کے ناموں اور صفتوں میں کج روی کرنا
————–

اللہ کا ارشاد ہے۔
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [7-الأعراف:180]
”اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ “
اللہ تعالی اس آیت میں اہل ایمان کو تنبیہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کا ذکر کس طرح کیا جائے اور جو لوگ ذکر الہیٰ کے بارے میں غفلت و ضلالت کے شکار ہیں ان سے کیا معاملہ کیا جائے۔ فادعوه بها اللہ کو اس کے اچھے ناموں سے پکارو کا دو مطلب ہے یعنی اللہ کو اس کے اچھے ناموں سے موسوم کرو۔ دوسرا مطلب یہ کہ اللہ کو اس کے اچھے نام سے پکارو اور یاد کرو وذر والذين يلحدون فى اسمائه اور ان کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں، الحاد یعنی حق سے ہٹ کر باطل کی راہ اختیار کرنا اور اللہ کو ایسے نام سے پکارنا جن کی اللہ نے خبر نہیں دی، جیسا کہ دیہاتی اللہ کو ابوالمكارم اور ابيض الوجه جیسے ناموں سے پکارتے ہیں جس سے اللہ کی شان کے خلاف فاسد معنی کا اظہار ہو رہا ہے۔
اور اللہ کا ارشاد ہے :
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَـنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَـهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ [13-الرعد:30]
”اسی طرح اے محمد ہم نے تم کو اس امت میں جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں بھیجا ہے تاکہ ان کو وہ کتاب جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے پڑھ کر سنا دو اور یہ لوگ رحمنٰ کو نہیں مانتے کہہ دو وہی تو میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“
قتادہ، ابن جریج اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہ آیت مشرکین عرب کے بارے میں نازل ہوئی، مشرکین نے جب حدیبیہ کے دن صلح نامہ دیکھا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بسم الله الرحمن الرحيم لکھا تھا تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ ہم تو صرف مسیلمہ ہی کو رحمٰن سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ابوجہل نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو يا الله يارحمنٰ کہتے سنا تو کہنے لگا : محمد ہم کو بہت سے معبودوں کی عبادت سے روک رہے ہیں اور صرف دو ہی معبودوں کو پکار رہے ہیں، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کفار قریش سے کہا گیا اسجدو واللرحمنٰ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہنے لگے ”رحمٰن کیا ؟“ اس آیت کے متعلق اور بھی تفصیلات ہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے :
وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ٭ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ ٭ وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ [ 32-السجدة:21]
”اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی، وہ کہیں گے کہ جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ اور تم اس بات سے تو پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور چمڑے تمہارے خلاف شہادت دیں گے بلکہ تم یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے عملوں کی خبر نہیں اور اسی خیال نے جو تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے تم کو ہلاک کر دیا اور تم خسارہ پانے والوں میں ہو گئے۔“
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل جاہلیت اللہ کے اسماء و صفات میں کج روی اختیار کرتے تھے، اس آیت کی شان نزول کے بارے میں احمد، بخاری، مسلم، ترمذی نسائی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن غلاف کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کے تین شخص آئے ایک قریشی اور دو ثقفی یا ایک ثقفی اور دو قریشی، خوب فربہ و تنومند اور ناسمجھ تھے۔ آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے جنہیں اچھی طرح نہیں سن سکا، ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری یہ بات سن رہا ہے ؟ دوسرے نے کہا: جب بلند آواز سے کہیں گے تو سنے گا ورنہ نہیں، تیسرے نے کہا: جب تھوڑی سنے گا تو سب ہی سن لے گا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا جس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، لوگ اسی قسم کی باتوں کے ذریعہ صفات الہٰی میں کجروی اختیار کرتے ہیں۔
اور آپ کو خوب معلوم ہے کہ آج اکثر مسلمان متکلمین اللہ اسماء و صفات میں عہد جاہلیت سے زیادہ کج روی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور اللہ کے ایسے ایسے نام رکھے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کوئی آیت نہیں نازل کی۔ ان میں کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات نہ اس کی ذات کے عین ہیں نہ غیر، کچھ کا یہ کہنا ہے کہ صفات الہیٰ اس کی ذات کی غیر ہیں۔ اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے جو کتابیں نازل کی ہیں ان کے ساتھ کلام نہیں کیا ہے۔ اور اللہ کے لیے کلام نفسی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں میں سے کسی سے کلام نہیں کیا اور اسی قسم کی بکواس سے اپنی پوری کتابیں بھر ڈالی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہی آیت اہل جاہلیت کے ساتھ مخصوص ہے اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ بھی اس آیت کے عموم میں شامل ہیں اللہ نے جن کو بصیرت عطا کی ہے اور جن کے قلب کو روشنی بخشی ہے وہ ان جیسے گمراہ لوگوں کی کتابوں سے عقائد نہیں اخذ کرتے ہیں بلکہ کتاب و سنت کے دلائل پر مشتمل کتب سلف سے معرفت الہیٰ حاصل کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی طرف نقائص کو منسوب کرنا
————–

اہل جاہلیت اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جو اس کے لیے نقص اور عیب کا باعث ہیں، جیسے اللہ کے لیے اولاد کا ہونا، اس کا محتاج ہونا،
کیونکہ نصاریٰ کہتے تھے کہ حضرت مسیح اللہ کا بیٹا ہیں، اور عربوں کا ایک گروہ کہتا تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اور کچھ فلاسفہ عقل کے پیدا ہونے کے قائل تھے۔ اور یہودی کہتے تھے کہ عزیر اللہ کے بیٹا تھے وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ان باتوں سے پاک قرار دیا اور سب کی نفی فرمائی، جیسا کہ ارشاد ہے :
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ٭ اللَّـهُ الصَّمَدُ ٭ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ٭ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ [112-الإخلاص:1]
”کہہ دو اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔“
اور فرمایا :
أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ ٭ وَلَدَ اللَّـهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ [37-الصافات:151]
” دیکھو یہ اپنی جھوٹ بنائی ہوئی بات کہتے ہیں کہ اللہ کے اولاد ہے اور بیشک یہ جھوٹے ہیں۔“
نیز فرمایا :
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ ٭ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [6-الأنعام:100]
”اور ان لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بے سمجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں بنا ڈالی ہیں وہ ان باتوں سے جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں پاک ہے اور اس کی شان ان سے بلند ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس کی اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کے بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔“
یہ آیت ان تمام باتوں کی طرف عام ہے جو اس بارے میں بعض جماعتوں کی طرف سے کہی جاتی ہیں، مثلاً اللہ نے جو اپنے لیے بیٹا بنانے کی نفی کی تو یہ نفی تمام اولاد سازی کی قسموں کو شامل ہے یعنی صرف اللہ ہی نہیں، خواہ اللہ کے لیے کوئی بھی اولاد کا دعویٰ کرے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا دعویٰ ابنیت کی بابت فرمایا :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [5-المائدة:18]
”یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہہ دیجئیے پھر وہ تمہیں تمہاری بداعمالیوں پر عذاب کیوں دیتا ہے، بلکہ تم اس کی مخلوقات میں صرف انسان ہو وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب پر اللہ ہی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“
سدی کی روایت ہے کہ بنی اسرائیل کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف وحی کیا کہ تمھارا لڑکا میرا پہلا لڑکا ہے میں لوگوں کو جہنم میں ڈالوں گا وہ اس میں چالیس دن رہیں گے، آگ ان کی خطاؤں کو کھا کر پاک و صاف کر دے گی پھر ایک منادی اعلان کرے گا کہ بنی اسرائیل کے تمام مختونوں کو جہنم سے نکالو۔
ان کی تردید میں اللہ نے فرمایا :
مَا اتَّخَذَ اللَّـهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـهٍ [23-المؤمنون:91]
”اللہ نے نہ کوئی لڑکا بنایا، نہ ہی اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے۔“
نیز فرمایا :
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا [17-الإسراء:111]
”اور کہو سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز و ناتواں ہے اس کا کوئی مددگار ہے۔“
نیز فرمایا :
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ٭ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا [25-الفرقان:1]
”بڑی بابرکت ذات ہے وہ جس نے یہ فیصلہ کی کتاب (قرآن) اپنے بندہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمائی تاکہ وہ تمام دنیا والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔ ایسی ذات جس کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور نہ کوئی اس کا شریک ہیں حکومت میں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر سب کا الگ الگ انداز رکھا۔“
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ ٭ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ٭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ٭ وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَـهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ [21-الأنبياء:26]
”اور یہ مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے وہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں، وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کر سکتے اور وہ اسی کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں، اللہ جانتا ہے ان کے اگلے پچھلے احوال کو اور ان کے سوا کسی کی شفاعت نہیں کر سکتے جن کے لیے اللہ راضی ہو، اور وہ سب اللہ کی ہیبت سے ڈرتے ہیں اور جو ان میں سے یوں کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے۔ اور ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔“
نیز فرمایا :
وَقَالَ اللَّـهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَـهَيْنِ اثْنَيْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ٭ وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَتَّقُونَ ٭ وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ ٭ ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ ٭لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ٭ وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللَّـهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ٭ وَيَجْعَلُونَ لِلَّـهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ [16-النحل:51]
”اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا مت بناؤ معبود دو یا زیادہ بس ایک معبود ہی ہے تو تم لوگ مجھی سے ڈرو اور آسمان و زمین کی سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور اسی کے لئے حق ہے۔ اطاعت بجا لانا تو کیا پھر بھی اللہ کے سوا سے ڈرتے ہو اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تم کو تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو لیکن جب وہ تم سے تکلیف ہٹا دیتا ہے تو تم میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے، یعنی ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتی ہے اچھا کچھ فائده اٹھا لو آخر کار عنقریب تم کو انجام معلوم ہو جائے گا۔ اور وہ لوگ اپنی جہالت سے ہماری دی ہوئی چیزوں میں اپنے معبود کا حصہ لگاتے ہیں، بخدا تم سے تمھاری اس افتراء پردازی کی باز پرس کی جائے گی۔ اور یہ لوگ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں وہ اس سے پاک ہے اور خود اپنے لیے اپنی من چاہی اولاد یعنی بیٹا۔“
مزید فرمایا :
ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا ٭ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا ٭ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَـذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا ٭ قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا [17-الإسراء:39]
”اور اللہ برحق کے ساتھ کوئی معبود تجویز مت کرنا ورنہ تو الزام خوردہ اور راندہ ہو کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، تو کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور خود فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنائی ہیں بے شک تم بڑی بات کہتے ہو اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کیا ہے تاکہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کو نفرت ہی بڑھتی جاتی ہے۔ آپ فرمائیے کہ اگر اس کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسا یہ لوگ کہتے ہیں تو اس حالت میں عرش والے تک یہ راستہ ڈھونڈ لیتے۔“
اور فرمایا :
فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ ٭ أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ ٭ أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ ٭ وَلَدَ اللَّـهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ٭ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ٭ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ٭ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ٭ أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ ٭ فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ٭ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ٭ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ٭ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ٭ فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ ٭ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ ٭ إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ [37-الصافات:149]
”ذرا آپ ان سے پوچھئے کہ کیا اللہ کے لیے بیٹیاں اور تمہارے لئے بیٹے، ہاں کیا ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ہے اور وہ اس وقت موجود تھے خوب سن لو کہ وہ لوگ اپنی سخن تراشی سے کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ صاحب اولاد ہے اور وہ بالکل جھوٹے ہیں، کیا اللہ نے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں پسند کیں تو تم کو کیا ہو گیا تم کیسا بیہودہ حکم لگاتے ہو۔ پھر کیا تم سوچ سے کام نہیں لیتے ہاں کیا تمہارے پاس اس کی واضح دلیل ہے اگر تم سچے ہو تو وہ کتاب پیش کرو، ان لوگوں نے اللہ میں اور جنات میں رشتہ داری قرار دی ہے اور جن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مجرم حاضر کیے جائیں گے اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو جو یہ بیان کرتے ہیں مگر جو اللہ کے خاص مخلص بندے ہیں سو تم اور تمہارے معبود خدا سے کسی کو نہیں پھیر سکتے مگر اسی کو جو جہنم رسید ہونے والا ہے۔“
اور فرمایا :
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ٭ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى ٭ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى ٭ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى ٭ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى ٭ أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّى ٭ فَلِلَّـهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى ٭ وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّـهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى ٭ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى [53-النجم:19]
”بھلا تم نے لات اور عزی اور تیسرے منات کے حال میں بھی غور کیا ہے، کیا تمہارے لئے بیٹے تجویز ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں اس حالت میں تو یہ بہت بے ڈھنگی تقسیم ہوئی، یہ فقط نام ہی نام ہیں جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ٹھہرا لیا ہے، اللہ نے تو ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں بھیجی یہ لوگ صرف بےاصل خیالات اور اپنے نفس کی خواہش پر چل رہے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے پاس سے ہدایت آ چکی ہے جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو بیٹی کے نام سے نامزد کرتے ہیں۔“
نیز فرمایا :
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا [43-الزخرف:15]
”اور ان لوگوں نے اللہ کے لیے اس کے بندوں میں جزء ٹھہرایا۔“
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں جُزْءًا سے مراد حصہ ہے اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے لیے اولاد کا حصہ مقرر کر دیا، اور قتادہ و مقاتل کا بیان ہے کہ جُزْءًا سے مراد عدلا یعنی اللہ کے برابر اور یہ دونوں ہی صحیح اقوال ہیں کیونکہ کہ اولاد تو باپ کے برابر و مشابہ ہی ہوتی ہے اور اسی لیے سورت زخرف آیت نمبر 17 میں فرمایا :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَـنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [43-الزخرف:17]
”اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو انہوں نے رحمن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سے سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ “
یعنی لڑکیوں کو انہوں نے اللہ کی مثل قرار دیا اور بندگان خدا میں سے اللہ کا جزء ٹھہرایا کیونکہ اولاد تو باپ کا ایک جزء ہوتی ہے جیسا کہ آنخضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے انما فاطمه بضعة مني فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اور کہ ارشاد الہیٰ ہے :
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ 6-الأنعام:101]
”اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور انہوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں محض بلاسند تراش رکھی ہیں۔“
کلبی کا بیان ہے کہ یہ آیت زنادقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کا یہ عقیده ہے کہ (معاذ اللہ) اللہ اور ابلیس دونوں ساجھی دار ہیں۔ اللہ تو روشنی، انسان اور جانوروں کا خالق ہے اور ابلیس تاریکی، درندوں، سانپوں کا خالق ہے۔
وجعلوا بينه وبين الجنة نسبا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ظالم فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور آیت میں فرشتوں کو جن اس لئے کہا گیا ہے کہ فرشتے نگاہوں سے چھپے رہتے ہیں۔ یہی قول مشہور مفسر مجاہد اور قتادہ کا بھی ہے۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آیت میں جن سے مراد فرشتوں کی ایک خاص قسم ہے جن کو جن کہا جاتا ہے ایسے ہی جنوں میں سے ابلیس بھی ہوتے ہیں۔ اور اسی قسم کے فرشتوں کو یہ اللہ کی بیٹیاں قرار تھے۔
اور کلبی کا بیان ہے کہ ان ملعونوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جن سے مراد یہاں وہ نسل ہے جس سے فرشتوں کی پیدائش ہوتی ہے، اور آیت خرقواله بنين وبنات بغير علم کی تفسیر میں کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے کفار عرب مراد ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اور بت سب خدا کی بیٹیاں ہیں اور یہودی کہتے تھے کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور جو عرب اس کے قائل تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اور ان کی طرف سے یہ بات منقول کی جاتی ہے کہ (معاذ اللہ ) اللہ نے جن سے رشتہ جوڑا، جس کے نتیجے میں فرشتے پیدا ہوئے ہیں تو اللہ نے اپنے لئے بیوی اور اولاد کا انکار کر کے ان کے اس عقیدہ کی ترید فرما دی کیوں کہ اللہ تو صمد یعنی بے نیاز ہے۔
اور آیت ولم تكن له صاحبة اور اس کے لئے کوئی رفیقہ حیات نہیں، اس لئے کہ ولادت دو اصل سے مل کر ہوتی ہے خود ہ یہ تولد اعیان یعنی جوہر کا ہو یا صفات و اعراض کا اور اعیان کا تولد تو اسی وقت ہوتا ہے جب والد کے جسم سے اس کا کوئی جزء (قطرہ منی) الگ ہو، لیکن جب اللہ کے لئے بیوی کا ہونا محال ہے تو اولاد کا ہونا بھی محال ہے۔ اور سبھی جانتے ہیں کہ اللہ کے بیوی نہیں، نہ ملائکہ میں سے، نہ جن و انس میں سے، نہ کفار عرب میں سے کوئی بھی اس کا قائل رہا ہے۔ اس طرح یہ آیت ان کے دعویٰ کے خلاف دلیل ہے۔
رہی یہ بات جو بعض عرب کفار سے منقول ہے کہ اللہ نے (معاذ اللہ) جنوں سے رشتہ جوڑا تھا تو محل نظر ہے، اگر واقعی یہ بات انہوں نے کہی ہے تو اس کی تردید بہت طریقوں سے کی جا چکی ہے۔ اور اس طرح نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، اور یہودیوں کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں تو ان دونوں باطل عقائد کی تردید بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرما دی ہے اور یہ پوری بحث شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی کتاب ”الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح“، اور ”تفسیر سورہ اخلاص“، وغیرہ میں مفصل موجود ہے۔

جن باتوں کو خالق کی طرف منسوب کیا انہیں سے مخلوق کو بچانا
————–

اہل جاہلیت کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ جن باتوں کو وہ خالق کی طرف منسوب کرتے تھے انہیں سے مخلوق کو بچاتے تھے۔ مثلاً وہ اپنے علماء و مشائخ کو اولاد اور بیوی کے تعلق سے روکتے تھے کیونکہ ایسا خیال تھا کہ علماء اور مشائخ جو فضل و کمال کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں انہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی اقتداء میں عورتوں کے ساتھ لطف اندوری جیسے کمتر کام میں ملوث ہونے سے بلند ہونا چاہئیے۔ ان جاہلوں کی عقل کی پستی اور ذلالت کو دیکھئے اور سوچئے کہ ان کی گمرائی نے انہیں کہاں پہونچایا یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شادی بیاہ پر بھی انہوں نے اعتراض کیا اس بارے میں شاعر عراق عبدالباقی العمری الفاروقی نے بعض علماء نصاریٰ کے رد میں کتنی اچھی بات کہی ہے :
انت الذى زعم الزواج نقيصة . . . ممن حماه الله عن نقصان
تم ہی شادی کو عیب سمجھتے ہو . . . اس کے لئے جس کو اللہ نے عیب ونقص سے محروم رکھا ہی
ونسيت تزويج الاله بمريم . . . فى زعم كل مثلث نصراني
اور تم بھول گئے کہ نام تثلیت پرست عیسائی (معاذ اللہ) مریم کے ساتھ اللہ کی شادی کے معتقد ہیں
اور وہی عرب جو ایک طرف ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہا کہتے تھے وہی دوسری طرف لڑکیوں سے نفرت بھی کرتے تھے، بلکہ ان کو مار ڈالنے اور زندہ درگور کرنے کی بری رسم کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اور اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جنہیں خود اپنے لئے برا سمجھتے تھے۔
حاصل کلام یہ کہ یہ سب خرافات ان میں محض اس لئے تھیں کہ وہ انبیاء کی تعلیمات سے ناواقف اور عقل و شعور سے کورے تھے، ورنہ اہل فکر و نظر کو ان باتوں سے کیا واسطہ؟

عقیدہ تعطیل کا اقرار (صفات باری تعالی کا انکار)
————–

اہل جاہلیت عقیدہ تعطیل کے قائل تھے یعنی اس عالم کا کوئی بنانے والا نہیں جیسا کہ فرعون نے اپنی قوم سے کہا ما عملت لكم من اله غيري [ القصص 38] مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا بھی تمہارا کوئی معبود ہے ؟
دنیا کسی دور میں بھی ان جہالتوں سے خالی نہیں رہی اور اس دور کے لوگ بھی الا ماشاء اللہ اسی کے قائل ہیں۔ حالانکہ لوگ اگر انصاف و تدبر کی نگاہ سے دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کی ہر موجودہ چیز اپنے خالق کے وجور پر دلالت کرتی ہے۔
و فى كل شيء له اية . . . تدل على انه وأحد
اور ہر چیز میں اللہ کی ایک نشانی ہے . . . جو اس بات کو بتاتی ہے کہ اللہ ایک ہے
اور نیچر ان دقیق چیزوں کو کیسے پیدا کر سکتا ہے جن کا مشاہدہ ہم آفاق و نفس میں کر رہے ہیں، اور جو انتہائی دقیق ہونے کے باوجود بےشعور، بےعلم و بےفہم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ہفوات سے بلند و برتر ہے۔

ملک کی شرکت
————–

ملک میں شرکت کا عقیدہ مجوسیوں کا تھا، مجوسی روشنی، آگ، پانی اور زمین کی تعظیم کرتے ہیں اور زر دشت کی نبوت کے قائل ہیں، ان کی مخصوص شریعت ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ ان میں بہت سے فرقے ہیں جیسے مزدک الموبذ کے ماننے والے ”مزدکیہ“۔ الموبذ، مجوسیوں کے عالم اور پیشوا کو کہا جاتا ہے۔ مجوسی، عورتوں، کمائی، ہوا اور راستوں میں شرکت کے قائل ہیں۔ ایک فرقہ ان میں ”خرمیہ“ کا بھی ہے۔ یہ بابک خرمی کا ماننے والا ہے، جو مجوسیوں کے تمام فرقوں میں سب
سے بدترین فرقہ ہے جو نہ اس دنیا کے بنانے والے کے قائل ہیں، نہ نبوت کے، نہ آخرت کے، نہ حلال و حرام کے۔ اور انہیں طریقے پر قرامطہ، اسماعیلیہ، نصیریہ، کیسانیہ، زراریہ، حکمیہ اور بقیہ تمام عبیدی فرقے ہیں جو خود کو فاطمیہ کہتے ہیں، فاطمی مذہب پرتو سب اکٹھا ہیں البتہ مذہبی تفصیلات سب کی الگ الگ ہیں۔ اس طرح مجوس ان سب کا سردار پیشوا اور رہنما ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مجوسی اپنے دین و شریعت کے پابند ہیں اور یہ دنیا کے کسی دین و شریعت کے ساته پابند نہیں ہیں۔

نبوتوں کا انکار
————–

اہل جاہلیت انبیاء کی نبوتوں کا بھی انکار کرتے تھے جیسا کہ اللہ نے ان کے اقوال کو نقل فرمایا ہے۔
أُولَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ ٭ وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّـهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ قُلِ اللَّـهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [6-الأنعام:90]
”یہ حضرات ایسے تھے جن کو اللہ نے ہدایت کی تھی آپ بھی انہیں کے طریقے پر چلئیے آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس (تبلیغ قرآن) پر کچھ معاوضہ نہیں چاہتا۔ یہ قرآن تو صرف تمام جہان والوں کے لئے ایک نصیت ہے، اور ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر کرنی تھی نہیں کی، جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز بھی نہیں نازل کی آپ کہئیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی یہ کیفیت ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے جس
کو تم نے متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو تم ظاہر کر دیتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں تعلیم کی گئیں ہیں جن کو نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے بڑے۔ کہہ دیجئیے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے اور ان کو ان کے مشغلہ میں لگا چھوڑ دیجئیے۔“
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی دلیل پیش کی، اس کے بعد نبوت کا ذکر فرمایا اور آخر میں فرمایا کہ ان ظالموں نے اللہ کی ایسی تعظیم نہیں کی جیسا اس کا حق تھا، کیوں کہ انہوں نے رسولوں کی بعثت اور کتب الہٰیہ کے نزول کا انکار کر کے اللہ کی عظیم نعمتوں کی ناشکری کی، جیسا کہ انہوں نے کہا: ما أنزل الله على بشر من شيء یعی اللہ نے کسی انسان پر کچھ بھی نازل نہیں کیا، نہ نبوت، نہ کتاب۔ اس بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ ایسا کہنے والے کون لوگ تھے۔ مجاہد کا بیان ہے کہ یہ مشرکین قریش تھے اور جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ ان سے مراد یہودی ہیں۔
اور ما أنزل الله على بشر من شيء کہہ کر یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر سخت طعنہ زنی کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے اللہ نے بھی ان کو الزامی جواب دیا قل من انزل الكتب الذى جاء به موسي ، بتاؤ جس کتاب کو موسیٰ لے کر آئے تھے اس کو کس نے نازل کیا تھا، یعنی جب اللہ نے تورات حضرت موسیٰ پر نازل کی اور تم کسی طرح اس کا انکار نہیں کر سکتے تو آخر اس کو کیوں نہیں مان لینے کہ قرآن اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی، اثبات نبوت پر مفصل بحث دوسرے مقام پر آ رہی ہے۔ الغرض نبوت کا انکار جاہلیت کی قدیم رسم رہی ہے اور آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو کھلم کھلا جاہلیت کی روش پر چلتے ہوئے نبوت کے منکر ہیں۔

تقدیر کا انکار
————–

اہل جاہلیت تقدیر کا انکار کرتے تھے اور اس مسئلہ کو لے کر اللہ پر کج بحثی کرتے تھے اور شریعت الہیٰ کو تقدیر الہیٰ سے ٹکراتے تھے۔ تقدیر کا مسئلہ دین کے انتہائی باریک اور نازک مسائل میں سے ہے اور اس کی حقیقت صرف وہی معلوم کر سکتا ہے جس کو اللہ توفیق دے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی اس موضوع پر ایک بہت ہی عظیم الشان کتاب ہے ”شفاء العلیل فی القضاء والقدر والحکمتہ والتعلیل۔ “
اللہ تعالیٰ نے اس جاہل عقیدہ کو باطل قرار دیا ہے، فرمایا :
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ٭ قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ (6-الأنعام:149)
”مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے، نہ ہمارے باپ دادا کرتے، نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے۔ اسی طرح ان سے پہلے والے بھی جھٹلا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا۔ کہو تمہارے پاس کوئی دلیل ہو تو ہمارے سامنے لاؤ۔ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں کرتے ہو۔ کہہ دیجئیے بس پوری حجت اللہ ہی کے لئے رہی، پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لگا دیتا۔ “
تفسیر سيقول الذين أشركوا اس میں مشرکین کے باطل حیلے کو بیان کیا جارہا ہے لو شاء الله ما اشركنا ولا أباؤنا ولا حرمنا من شيء یعنی اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے، نہ کسی حرام چیز کا ارتکا ب کرتے۔ یہ کہہ کر مشرکین اپنے فعل قبیح پر معذرت نہیں کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ اپنے ان اعمال و افعال کو برا ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا کہ آیات الہیٰ کی شہادت ہے کہ وہ ان قبیح افعال کو اچھا سمجھ کر کرتے تھے، مثلاً بتوں کی عبادت وہ یہ سمجھ کر کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے جب کہ اس کی حرمت اللہ عزوجل کی طرف سے ثابت ہے۔
یہ مشرکین ان قبیح و ممنوع افعال کا ارتکاب کر کے کج حجتی کرتے تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ حق و مشروع اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے کیوں کہ مشیت و ارادہ حکم الہیٰ کے برابر ہے اور رضاء الہیٰ کا موجب ہے جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ لہٰذا ان مشرکین کی بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم جس شرک و حرام کا ارتکا ب کرتے ہیں وہ سب اللہ کی مشیت اور ارادہ سے مربوط ہے اور جس کا تعلق اللہ کی مشیت او را را دہ سے ہو وہ کام مشروع اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ لہٰذا ہمارے اعمال پسندیدہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے ان باطل عقائد کو نقل کرنے کے بعد ان کی تردید فرمائی كذلك كذب الذين من قبلهم ایسے ہی ان سے پہلے والے بھی جھٹلا چکے ہیں، یعنی ان مشرکین کے باپ دادا یعنی مشرکین کے اس عقیدہ سے انبیاء کرام کی تکذیب ہوتی ہے جب کہ معجزات سے ان کا سچا ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ مشرکین کا کہنا یہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ضرور ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا جب بات ایسی ہے تو کوئی انسان کسی بات کے لئے مکلف ہی نہیں ہو سکتا کیوں کہ تکلیف تو استطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان جو شرک وغیرہ کرتا ہے اس کے چھوڑنے کا پابند نہیں ہے اور نہ اس کے لئے نبی بھیجے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے غلط عقائد کی تردید فرمائی کہ بات سچی ہے لیکن مطلب غلط لیا گیا ہے یعنی یہ بات کہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، سچ اور حقیقت ہے لیکن اس سے مشرکین نے جو مطلب نکالا وہ غلط ہے کیونکہ مشرکین کا تو یہ مطلب ہوا کہ انبیاء کرام اپنی نبوت اور تکلیفت کے دعویٰ میں (معاذ اللہ) جھوٹے تھے، کیونکہ اللہ تو ہمارے کفر و شرک کا خواہاں تھا اور انبیاء اس سے منع کرتے تھے۔ حالانکہ قطعی دلائل سے انبیاء کا سچا ہونا ثابت ہو چکا ہے، اور چوں کہ اس سچی بات سے انہوں نے جھوٹا مطلب نکالا اس لئے اللہ نے ان کو جھوٹا قرار دیا اور مشیت الہیٰ کے مطابق اشیاء کا وقوع پذیر ہونا نبوت و تکلیفت کے دعویٰ کے سچے ہونے کے منافی بھی نہیں کیوں کہ نبوت و تکلیفت کا دعویٰ تو محض حجت پوری کرنے اور حق کے اظہار کے لئے ہے۔
تکلیف کہتے ہیں، شریعت الہیٰ کی پابندی کرنا حتي ذاقوا بأسنا یعنی انہوں نے ہمارے اس عذاب کو پا لیا جو ہم نے ان پر ان کے جھٹلانے کی وجہ سے نازل کیا تھا، آیت میں ذاقوا ہے یعنی انہوں نے چکھا، چکھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی چیز کو پہلے سے حاصل کیا جائے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان مشرکین کے لئے اللہ کے پاس عذاب تیار ہو چکا ہے قل هل عندكم من علم فتخرجوه لنا کہو تمہارے پاس کوئی دلیل ہو تو ہمارے پاس لاؤ۔ یعنی ان مشرکین سے مطالبہ کرو کہ جو شرک اور برے کام تم کرتے ہو اگر تمہارے علم کے مطابق یہ سب اللہ مرضی کے مطابق ہیں تو اس کی دلیل پیش کرو۔ آیت سے صاف واضح ہے کہ مشرکین نے یہ کہہ کر زجر و توبیخ کا خود کو مستحق بنا لیا، کیوں کہ جب ان کے کانوں میں انبیاء کرام کی شریعتوں کی بات آتی تھی کہ اپنے سب امور کو اللہ کے سپرد کر دو تو یہ دین کا مذاق اڑاتے تھے اور انبیاء کی دعوت کو رد کرتے تھے۔ جب انبیاء کرام ان سے کہتے تھے کہ اسلام قبول کرو اور احکامات الہیٰ کے پابند ہو جاؤ تو یہ انبیاء کی انہیں باتوں کو لے کر ان کا مذاق اڑانے لگتے تھے، مقصود صرف مذاق اڑانا ہوتا تھا اپنے عقیدہ کا اظہار نہیں۔
صفات الہیٰ پر ایمان لانا ذات الہیٰ پر ایمان لانے کی فرع ہے، جب کہ وہ اس سے دور و بےتعلق ہیں ان تتبعون الا الظن وان انتم الاتخرصون مطلب یہ کہ تم محض وہم و خیال کی پیروی کرتے ہو اور جھوٹی باتیں اللہ کے متعلق کہتے ہو قل فلله الحجة البالغه یعنی وہ واضح دلائل جو دعویٰ کے اثبات میں مضبوط اور ناقابل تردید ہیں، اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اور حجت سے مراد کتاب، رسول اور بیان ہے۔ فلوشاء لهداكم اجمعين اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا، یعنی ہدایت کی توفیق دیتا اور اس پر گامزن کر دیتا، لیکن اللہ نے صرف ان لوگوں کو ہدایت دی جو اپنے اختیار سے کام لے کر حق کی راہ پر چل پڑے، اور جو راہ حق کے خلاف چلے وہ مشیت الہیٰ سے گمراہ ہوئے۔ کچھ لوگ اس آیت کی یہ توجیہ کرتے ہیں، کہ اللہ نے ان کے اس عقیدے کی تردید کی ہے کہ وہ اپنے اختیار و قدرت کو سونپ چکے ہیں اور ان سے شرک کا صد و رجبرًا و اضطرارًا ہوا ہے اور اس عقیدۃ فاسد کی بنا پر وہ اللہ اور اس کے رسول پر اپنی حجت قائم کرنے کے دعویدار ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم اختیار کے دعوے کی تردید کی اور انہیں پچھلے لوگوں سے تشبیہ دی جنھوں نے فریب میں پڑ کر انبیاء کو جھٹلایا اور شرک الہیٰ میں مبتلا ہوئے۔ اور یہی سمجھتے رہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی مشیت سے کر رہے ہیں، اور اس اعتراض کا سہارا لے کر انبیاء کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ دلیل و حجت ان کے موافق نہیں اللہ کے لئے ہے، پھر اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ ہی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ اور اللہ نے ان کے لئے وہی چاہا جو ان سے صادر ہوا، اگر اللہ سب کی ہدایت چاہتا تو سب ہدایت یاب ہو جاتے۔ اور مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جواب کو ان پر خاص کر دے اور نفوذ سنت کے عقیدہ کو اور ہر موجود میں اس کے عام تداخل کو اس کے جواب کے ذریعہ الگ کر دے۔ اور ان کا یہ دعویٰ کہ اختیار نفس سلب کر لیا گیا ہے اس جواب سے دور ہو جائے، اور حجت ان پر خاص طور پر قائم ہو جائے۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے جبریہ کے عقیدہ صدور کا بھی جواب ملتا ہے اور معتزلہ کے عقیدۃ عجز کا بھی۔ اس لئے کہ فرقہ، جبریہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ بندہ کو اتنا اختیار و قدرت حاصل ہے جس سے وہ مخالفت اور، نافرمانی میں عذر و حجت کو دور کر سکتا ہے۔ اور معتزلہ اس بات کے قائل ہیں کہ مشیت الہیٰ بندہ کے تمام کاموں میں نافد و جاری ہے۔ اور بندہ کے تمام افعال مشیت الہیٰ کے مطابق ہیں، اور الحمد اللہ اسی سے اہلسنت کی پوری حجت معتزلہ پر قائم ہو جاتی ہے۔
اور کچھ لوگوں نے اس آیت کی یہ توجیہ کی ہے کہ مشرکین نے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے کہ ہم شرک کریں تو ہم نے شرک کیا اور آپ لوگ اللہ کے ارادے کے خلاف ہم کو ایمان و توحید کی دعوت دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کئی طریقہ سے ان کی تنبیہ کی، چنانچہ فرمایا : فلله الحجة البالغة ، یعنی اگر معاملہ ویسا ہی ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو تو بھی حجة البالغه الله ہی کے لئے ہے کیونکہ فلو شاء یعنی اگر اللہ چاہتا تو تم کو اور ہمارے مخالفین سب کو اپنے دین کی راہ بتا دیتا۔ لہٰذا تمہارے دعویٰ کے مطابق سب کام مشیت الہیٰ کے تابع ہیں تو اسلام بھی اللہ ہی کی مشیت کے ساتھ ہے۔ لہٰذا جس طرح تمہارے خیال کے مطابق انبیاء کو شرک سے نہیں روکنا چاہئیے، اسی طرح تم کو بھی چاہئیے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ سے انبیاء کو مت روکو۔ اس اصول کے تحت تمہارے اور مسلمانوں کے درمیان مخالفت اور عداوت کے بجائے دوستی اور موقت ہونی چاہیئے۔
حاصل کلام یہ کہ میں نے تمہارے مذہب کی مخالفت کی ہے، ضروری ہے کہ وہ بھی تمہارے نزدیک صحیح ہو، کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے۔ اس طرح تمام متضاد مذاہب و ادیان کو صحیح ماننا پڑے گا (جسے کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرے گا )۔
اور سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ [16-النحل:35]
”اور مشرکین یوں کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی چیز کی عبادت کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، نہ اس کے حکم کے بغیر ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے، جو کافر ان سے پہلے ہوئے ہیں ایسی ہی حرکت انہوں نے بھی کی تھی تو پیغمبروں کے ذمہ تو صاف صاف پہونچا دینا ہے۔“
اس آیت کی تفسیر بھی پہلی ہی آیت کی طرح ہے جب یہ مشرکین اپنی حجت میں ناکام رہے تو مشیت کا ہوا لے کر بحث کرنے لگے، لیکن ناظرین کو معلوم ہوگیا کہ سورہ انعام کی آیت کی بحث کا خاتمہ کیسا شاندار ہوا، اور اسی طرح سورہ زخرف کی آیت 19، 20 میں بھی یہی بحث ہے، فرمایا:
وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَـنِ إِنَاثًا أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ ٭ وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَـنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [43-الزخرف:19]
”اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی۔ اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انہیں اس کی کچھ خبر نہیں، یہ تو صرف اٹکل پچو (جھوٹ باتیں) کہتے ہیں۔“
اس پوری تفصیل کا بس ایک ہی جواب یہ آیت ہے قل فلله الحجة البالغة کہہ دو اللہ ہی کے لئے ہے پوری پوری حجت۔
اور آیت میں حرام کرنے سے مراد ”سائبہ“ اور ”بحیرہ“ ہے۔ اور یہاں صرف شرک اور حرام کرنے کی نفی کی گئی ہے کیوں کہ یہی دونوں گناہ زیادہ بڑے اور مشہور تھے۔ ان مشرکین کی اس بحث کا مطلب یہ تھا کہ وہ انبیاء کو جھٹلانا چاہتے تھے اور ان پر طعن و تشنیع کرنا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا،۔۔۔ لہٰذا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کی توحید کا اقرار کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں، اس کی حلال کردہ چیز کو حلال سمجھیں اور جن چیزوں کو ہم نے ازخود حرام قرار د ے لیا ہے اس کو حرام نہ کریں جیسا کہ انبیاء کہتے اور اللہ کی طرف سے اس کو نقل کرتے ہیں، تو ان کے کہنے کے مطابق، توحید کے اقرار اور شرک سے انکار اور حلال و حرام کے سب معاملات میں ہم کو ویسے ہی رہنا چاہئیے تھا، جیسا رسول کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ عملاً ایسا نہیں ہوا، لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ اللہ نے خود نہیں چاہا کہ ہم انبیاء کی تعلیمات پر عمل کریں، بلکہ ہم اپنے ہی عقیدہ
پر رہیں اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ سب باتیں انبیاء خود اپنی طرف سے بنا کر کہا کرتے تھے (کیونکہ اگر یہ باتیں فی الحقیقت اللہ کی ہوتیں تو ہم اس کی مشیت کے مطابق ان پر ضرور عمل پیرا ہوتے)۔
اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کی کج بحثی کا یہ جواب دیا کہ كذلك فعل الذين من قبلهم یعنی جس طرح یہ جاہل کج بحثی کر رہے ہیں اسی طرح ان سے پہلے والوں نے بھی کیا تھا، انہیں کی طرح انہوں نے بھی اللہ کے ساتھ شرک کیا اور حکم الہیٰ کے بغیر چیزوں کو حرام قرار دیا اور ہٹ دھری کے ساتھ انبیاء سے لڑتے رہے تاکہ حق کو نیچا دکھا دیں۔ فهل على الرسول الا البلغ المبين یعنی انبیاء کا منصب صرف اتنا ہے کہ اللہ کا وہ پیغام پہنچا دیں جو حق کی راہ کو کھول دیتا ہے اور وحی کے ان احکام کو ظاہر کر دیتا ہے جس سے مشیت الہیٰ کا تعلق واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ ان کو ہدایت پر لگا دیتا ہے جو حصول حق کے لئے اپنے اختیارات و قدرت کو استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے : والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ، اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ان پر ان اپنی راہیں کھول دیں گے،
لیکن کسی کو زبردستی حق پر چلا دینا انبیاء کا کام نہیں ہے، اور نہ یہ اس حکمت کے مطابق ہے جس میں اللہ نے لوگوں کو پابند عمل بنایا ہے، کہ اگر لوگ عمل کریں تو انبیاء سچے سمجھے جائیں، نہ عمل کریں تو ان کی تکذیب کی جائے کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ جن افعال پر ثواب و عقاب کا فیصلہ ہوتا ہے ان میں اللہ کی مشیت کے ساتھ کرنے والے کے اختیار کا بھی دخل ہے، ورنہ ثواب و عذاب تو محض اضطراری چیز ہو کر رہ جائے۔ اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات پر مفصل و کامل بحث تفسیر روح المعانی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
معلوم ہوا کہ تقدیر کا انکار اور اس کے ذریعہ اللہ پر کج بحثی اور شریعت کا تقدیر سے مقابلہ یہ سب باتیں اہل جاہلیت کی ضلالت میں سے تھیں۔ حاصل یہ کہ نہ جبر ہے نہ تفویض، بلکہ معاملہ ان دونوں کے درمیان کا ہے۔ لہٰذا جس کا قدم اس راستے سے ہٹ گیا وہ اہل جاہلیت کے طریقہ پر پہنچ جائے گا جس کو اللہ اور اس کے رسول نے مردود قرار دے دیا ہے۔

زمانہ کو برا کہنا
————–

اہل جاہلیت زمانہ کو برا بھلا کہتے تھے جیسا کہ سورہ جاثیہ میں اللہ نے ان کا قول نقل فرمایا :
وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ [45-الجاثية:24]
” اور ہم کو صرف گردش زمانہ ہی ہلاک کراتی ہے۔“
اللہ تعالیٰ ان کی ضلالت اور ان کے کان و دل پر مہر لگ جانے اور آنکھوں پر پردہ پڑنے کا ذکر کرنے کے بعد ان کی بات نقل فرماتے ہیں وقالوا ماهي الا حياتنا الدنيا اور منکرین آخرت کہتے ہیں کہ بس ہماری اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں نموت ونحيي اسی دنیا میں ہمارا ایک گروہ مرتا ہے دوسرا زندہ ہوتا ہے، حشر کبھی نہیں ہو گا، اکثریت پرست تناسخ ارواح کے بھی قائل ہیں جن کے نزدیک ”حیاۃ“ کا تصور یہ ہے کہ روح ایک جسم سے نکل کر دوسرے جسم میں داخل ہو جاتی ہے وما يهلكنا إلا الدهر اور زمانہ کی گردش ہی ہم کو مارتی ہے، ہلاکت کی نسبت زمانے کی طرف کر کے انہوں نے ملک الموت کا بھی انکار کیا اور بحکم الہیٰ ان کے روحوں کے قبض کرنے کا بھی اور یہ جاہل حوادث کو مطلقاً زمانہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے مقدر ہیں۔ اور شکوہ دہر کی بابت جاہل شعراء کے اشعار بھرے پڑے ہیں۔ جیسے :
اشاب الصغيرو افني الكبير . . . كرالغداة ومرالعشي
چھوٹے کو بوڑھا کر دیا اور بوڑھے کو فنا . . . صبح و شام کی گردش نے
پھر بھی یہ اللہ کے وجود کے قائل تھے کیوں کہ یہ دہریہ نہیں تھے، دہریہ تو حوادث کو زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں اور وجود باری تعالیٰ کے قائل ہی نہیں اس کے باوجود یہ سب زمانہ کی تاثیر کے قائل ہیں۔ احادیث میں زمانے کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :
لايسب أحدكم الدهر فان الله هو الدهر [مسلم ]
”تم میں سے کوئی زمانے کو برا نہ کہے کیوں کہ اللہ زمانہ ہے۔“
نیز فرمایا :
يوذيني ابن ادم يقول ياخيبة الدهر فلا يقل ياخيبة الدهر، فاني انا الدهر اقلب ليله و نهاره [ابوداود، حاكم]
ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، کہتا ہے ہاے زمانے کی ناکامی، زمانہ کی ناکامی نہیں کہنا چاہئیے کیوں کہ زمانہ تو میں خود ہوں، میں ہی رات و دن کو لاتا لے جاتا ہوں۔
نیز فرمایا :
يقول الله عزوجل : استقرضت عبدي فلم يقرضني وشتمني عنبدي وهولا يدري، يقول وادهراه وانا الدهر [الحاكم ]
”اللہ فرماتا ہے، میں نے اپنے بندے سے قرض مانگا تو اس نے نہیں دیا، اور میرے بندے نے لاعلمی میں مجھے برا بھلا کہا، وہ کہتا ہے، ہائے زمانہ جب کہ زمانہ میں ہوں۔ “
لا تسبو الدهر، قال الله عز وجل : انا الاينام والليالى أجددها وابليها واتي بملوك بعد ملوك [البيهقي]
”زمانے کو برا مت کہو، اللہ کا ارشاد ہے میں رات اور دن ہوں، ان کو نیا پرانا کرتا ہوں اور بادشاہوں کے بعد نئے بادشاہ لاتا رہتا ہوں۔“
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حوادث کا پیدا کرنے والا ہے، لہٰذا جب تم حوادث کے وقوع پر زمانہ کو برا کہو گے تو یہ طعنہ براہ راست اللہ پر پڑے گا کیونکہ اللہ ہی زمانہ و حوادث کا برپا کرنے والا ہے ما لهم بذلك من علم ان کو اس کی بابت قطعی علم نہیں ہے یعنی زمانہ کو مہلک کہنے کا علم عقل و نقل کی بنیاد پر نہیں ہے۔ ان هم الا يطنون یعنی یہ جاہل اور کم علم لوگ ہیں، محض گمان و تقلید کی بنیاد پر کہتے رہتے ہیں۔ دہریوں کی بابت ہم نے اور کئی مقامات پر بھی بحث کی ہے، حاصل کلام یہ کہ جو لوگ حوادثات کو اللہ کے سوا زمانہ وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی عقلی اور نقلی بنیاد نہیں، محض ان کی جہالت ہی جہالت ہے۔ اس کا قائل جاہل ہی ہو گا، خواہ کسی دور میں پایا جائے اور ایسے جہلا سے ہمارا یہ دور بھی پوری طرح بھرا ہوا ہے۔ و الله المستعان

اللہ کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرنا
————–

اہل جاہلیت، اللہ کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا :
يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّـهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ [16-النحل:83]
” اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر ان کا انکار کر دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر ہی کافر ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اپنے بندوں کو عطا کی ہیں، ان آیتوں میں انکا ذکر فرمایا ہے :
وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ ٭ وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ٭ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ [16-النحل:80]
”اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنا دی ہے اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنا دیے ہیں، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن بھی، اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقرره تک کے لیے فائده کی چیزیں بنائیں۔ اللہ ہی نے تمہارے لیے اپنی پیدا کرده چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں۔ وه اسی طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ۔ پھر بھی اگر یہ منھ موڑے رہیں تو آپ پر صرف کھول کر تبلیﻎ کر دینا ہی ہے۔ “
فرمایا يعرفون نعمة الله یعنی یہ کافر جو اسلام اور نعمت الہیٰ سے اعراض و انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ان سے واقف نہیں ہیں۔ یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ سب نعمتیں اللہ کی ہیں، لیکن یہ عملاً ان کا اس طرح انکار کرتے ہیں کہ منعم حقیقی اللہ رب العلمین کے بجائے دوسروں کی بندگی کر کے ان نعمتوں کا یہ عملی انکار کرتے ہیں۔
ابن جریر وغیرہ نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت کا انکار یہ تھا کہ وہ ان نعمتوں کو اللہ کی طرف سے اقرار کرنے کے بجائے کہتے تھے کہ ہم نے باپ دادا سے وراثت میں پایا ہے۔ اور عون ابن عبداللہ کی روایت ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر فلاں نہ ہوتا تو مجھے ایسا اور ایسا ہو جاتا، اگر فلاں نہ ہوتا تو میں یہ چیز حاصل ہی نہیں کر پاتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ان نعمتوں کا اس طرح انکار کرتے تھے کہ انھیں اللہ کے بجائے اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے کچھ اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان کا انکار یہ تھا کہ یہ نعمتیں ان کے معبودوں کی سفارش سے ملی ہیں اور کچھ کے نزدیک نعمت سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی نبوت پر معجزات کے ذریعہ انہیں یقین تھا لیکن عناد اور تکبر کے سبب وہ انکار کرتے تھے۔ واكثرهم الكافرون یعنی ان نعمتوں کا اعتراف نہ کر کے وہ دل سے انکار کرتے تھے۔ اکثر اس لیے کہا کہ انکار کے مختلف اسباب تھے، عقل کی کمی، عدم ہدایت، دلائل پر غور و فکر کا فقدان، غیر مکلف ہونا اور اس لئے بھی کہ بعض کی نسبت کل کی طرف کر دی گئی ہے۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ بیان فرمایا ہے :
أَفَبِهَـذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ ٭ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ [56-الواقعة:81]
” پس کیا تم ایسی بات کو سرسری (اور معمولی) سمجھ رہے ہو؟ اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔ “
اہل جاہلیت کو خطاب ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمیں فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کچھ لوگ شکر گزار ہوئے اور کچھ ناشکر ہوئے کچھ نے کہا: یہ رحمت اللہ نے اتاری ہے اور کچھ نے کہا: ”فلاں ستارہ نے سچ کر دکھایا“ اسی موقع پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ مطلب یہ کی نعمتوں کو غیر منعم حقیقی کی طرف منسوب کرنا ان کا انکار کرنا ہے۔ اور ستاروں کی بابت اہل عرب کا مذہب ہم نے اور جگہوں پر بھی بہت مفصل بیان کر دیا ہے، جہاں ان کے شعرا کے وہ اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں جو ان کے اس مذہب کی وضاحت کرتے ہیں۔

آیات الہیٰ کا انکار
————–

قرآن میں اس مضمون کی آیات بہت ہیں، چنانچہ سورہ کہف میں ارشاد ہے :
أُولَـئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ٭ ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا [18-الكهف:105]
”وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا، اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ “
اس کے پہلے والی آیت میں فرمایا :
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ٭ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا [18-الكهف:103]
”کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیاده خسارے میں کون ہیں؟ وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔“
آیت میں أُولَـئِكَ یہ لوگ سے ان لوگوں کا مکمل ذکر مقصود ہے، جن کے اعمال برباد ہوئے اور جن کی کوششیں رائیگاں ہوئیں اور یہ کون لوگ تھے الذين كفروا بايات ربهم جنہوں نے اللہ کی ان آیات کا انکار کیا جو توحید کی سمعی اور عقلی دلیلوں کو بیان کرتی ہیں ولقائه اور حشر و نشر و امور آخرت پر بھی ایمان نہیں لائے۔ فحبطت اعمالهم فلا نقيم لهم يوم القيمة وزنا تو ہم ایسے لوگوں کو نہایت حقارت کے ساتھ گیا گزرا بنا دیں گے اور ان کے اعمال کی کوئی حیثیت قیامت کے دن نہ ہو گی۔ اس مضمون کی کچھ آیات میں یہ ذکر ہے کہ اہل جاہلیت میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تمام آیات کے بجائے بعض آیات الہی کے منکر تھے اور کچھ محض اعراض و روگردانی کے مرتکب تھے، جب کہ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، کہ موجودہ دور میں بھی ایسے خاصے لوگ موجود ہیں جو اہل جاہلیت سے زیادہ آیات الہیٰ کے منکر و مخالف ہیں۔

اس تحریر کو اب تک 18 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply