اہل جاہلیت اور تقلید

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اہل جاہلیت کا دین جن اصولوں پر مبنی تھا ان میں سب سے بڑی چیز تقلید تھی۔ یہ اگلے پچھلے تمام کافروں کا سب سے بڑا قاعدہ تھا، جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا :
وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ ٭ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ [43-الزخرف:23 ]
”اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں ہدایت کرنے والا نہیں بھیجا، مگر وہاں کے خوش حال لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راہ پر پایا ہے اور قدم بقدم انہیں کے پیچھے چلتے ہیں، پیغمبر نے کہا اگرچہ میں تمہارے پاس ایسا دین لاؤں کہ جس رستے پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا وہ اس سے کہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے، کہنے لگے جو دین تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے۔“
اللہ نے ان کو حکم دیا :
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ [ 7-الأعراف:3]
” پیروی کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو اور تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔“
اور فرمایا :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ [2-البقرة:170]
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب اللہ نے نازل کی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھے رستے پر ہوں تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے۔ “
ان کے علاوہ دوسری بہت سی آیات اس کی وضاحت کرتی ہیں کہ اہل جاہلیت تقلید کے پھندے میں گرفتار تھے، نہ کسی کی رائے قبول کرتے اور نہ غور و فکر سے کام لیتے، اسی لیے جہالت کی وادیوں میں بھٹکتے رہے اور یہی حال ان سب لوگوں کا ہوا جو اہل جاہلیت کے طریقے پر چلتے رہے، خواہ کسی بھی زمانے میں رہے ہوں۔

 

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply