اس حق کا انکار جو ان کے علاوہ دوسرں کے پاس ہے

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اہل جاہلیت جب فرقہ بندی کا شکار ہوئے تو ہر گروہ صرف وہی حق قبول کرتا جو ان کی جماعت والے حق کہتے اور دوسروں کے پاس جو حق ہوتا ان کا انکار کر دیتے جیسا کہ اللہ نے فرمایا :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ [2-البقرة:113]
”اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی حق پر نہیں ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کے یہودی حق پر نہیں ہیں، حالانکہ وہ کتاب الہیٰ پڑھتے ہیں اسی طرح بالکل انہیں کی سی بات وہ لوگ کہتے ہیں جو (کچھ) نہیں جانتے (یعنی شرک) تو جس بات میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں، اللہ قیامت کے دن اس کا ان میں فیصلہ کر دے گا۔“
یہ جاہلیت کی خاص عادت تھی اور آج بھی بہت سے لوگ اسی کے قائل ہیں کہ حق صرف انہی کے پاس ہے، خاص طور پر فقہی مذاہب والوں کا یہی عقیدہ ہے کہ دین بس انہی کے گروہ میں ہے دوسروں کے پاس حق ہے ہی نہیں۔ اس طرح ہر گروہ اپنے اپنے میں مگن ہے۔
وكل يدي وصلا لليليٰ . . . وليليٰ لا تقرلهم بذاكا
اور ہر شخص لیلیٰ کے وصال کا مدعی ہے . . . اور لیلیٰ کو ان میں سے کسی کے ساتھ اقرار نہیں
انصاف یہ ہے کہ دلیل پر غور کیا جائے جو دلیل کے موافق ہو وہی حق ہے اسے قبول کرنا چاہیے اور جس پر دلیل و حجت نہیں اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا چاہئیے۔ ہر شخص کی بات قبول کی جا سکتی ہے اور مسترد بھی کی جا سکتی ہے سوائے ان کی بات کے جنہیں اللہ نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کر رکھا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply