مالداروں کا اپنی دولت سے فریب کھانا

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اہل جاہلیت سمجھتے تھے کہ جن کو دنیا میں ملتی ہے وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ٭ وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ٭ قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ٭ وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَـئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ ٭ وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَـئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ٭ قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ [34-سبأ:34]
”اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں سے بھیجا، مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہ جو چیز تم دے کربھیجے گئے ہم اس کے قائل نہیں اور یہ بھی کہنے لگے کہ ہم بہت سامان اور اولاد رکھتے ہیں اور ہم کو عذاب نہیں ہو گا، کہدو کہ میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے وہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں۔ ہمارا مقرب وہ ہے جو ایمان لایا اور عمل نیک کرتا رہا ایسے ہی لوگوں کے اعمال کے سبب دگنا بدلہ ملے گا اور وہ خاطر جمع سے بالاخانوں میں بیٹھے ہوں گے۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں میں کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ہرا دیں وہ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔ کہدو کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور اس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا۔ اور تم جو خرچ کرو گے۔ وہ تم کو اس کا عوض دے گا۔ اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔“
اور سورۃ القصص میں فرمایا :
وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ٭ وَلَـكِنَّا أَنْشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَـكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ٭ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَـكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ٭ وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ٭ فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَى أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ ٭ قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ [28-القصص:44]
”اور نہ اس وقت جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی تم طور کے کنارے تھے بلکہ تمھارا بھیجا جانا تمہارے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ ان کو ہدایت دیں۔ تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور (اے پیغمبر ہم نے آپ کو اس لیے بھیجا ہے کہ) ایسا نہ ہو کہ اگر ان (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت واقع ہو تو یہ کہنے لگیں اے رب تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرنے اور ایمان لانے والوں میں ہوتے، پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے کہ جیسی نشانیاں موسیٰ کو ملی تھیں ویسی اس کو کیوں نہیں ملیں، کیا جو نشانیاں پہلے موسیٰ کو دی گئی تھیں انہوں نے اسے کفر نہیں کیا، کہنے لگے کہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق اور بولے کہ ہم منکر ہیں۔ کہہ دو اگر سچے ہو تو خدا کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ۔ جو ان دونوں کتابوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو تاکہ میں بھی اس کی پیروی کروں۔ پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں، اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہو گا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
نیزدوسری جگہ فرمایا :
إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ٭ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ٭ قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا وَلَا يُسْأَلُ عَنْ ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ [28-القصص:76]
”قاروں مو سیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر زیادتی کرتا تھا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہو جاتیں، جب اس نے ان کی قوم نے کہا کہ اترائے مت کہ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور جو مال اللہ نے تم کو دیا ہے اس سے آخرت طلب کرو۔ اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلاؤ اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے ویسی تم بھی لوگوں سے بھلائی کرو اور ملک میں فساد نہ چاہو کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ بولا یہ مال میری عقل کے زور پر ملا ہے۔ کیا اس کو معلوم نہیں کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو قوت میں اس سے بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ہلاک کر ڈالی ہیں اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔“
ان آیات سے یہ ثابت ہوا کہ روزی گھٹانا اور بڑھانا اللہ کی مشیت کے تابع ہے اور اس کی محبت اور رضاء اس کی اطاعت اس کے رسولوں کی تابعداری اور دلائل کے ساتھ حق پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہے۔ رہی مال کی کثرت اور روزی کی وسعت اور خوش حال زندگی تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اصحاب نعمت ان کی وجہ سے نجات پائیں گے۔ اگر دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن و قیمت رکھتی تو اللہ اپنے نافرمانوں کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پینے دیتا۔
ارشاد ہے :
وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَـنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ [43-الزخرف:33]
”اور یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہو جائیں گے جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتوں کو چاندی سے بنا دیتے اور سیڑھیاں بھی جن پر وہ چڑھتے ہیں۔ “
اور جیسا کہ شاعر نے کہا :
كم عالم عالم اعيت مذاهبه . . . وجاهل جاهل تلقاه مرزوقا
کتنے عالم ایسے ہیں جن کی روزی کے سہارے تنگ ہیں . . . اور کتنے جاہل ہیں جن کو آسودہ حال پاؤ گے۔
اور یہ شعر بعض اکابرین کی طرف منسوب ہے :
رضينا قسمة الجبار فينا . . . لنا علم وللجهال مال
ہم اپنے بارے میں قسمت الہٰی پر راضی ہیں . . . کہ علم ہمارے لیے اور جاہلوں کے لیے مال۔
فان المال يفنيٰ عن قريب . . . وان العلم باق لا يزال
اس لئے کہ مال تو جلد ہی ختم ہو جائے گا . . . اور علم باقی رہے گا اس کو زوال نہیں
بہرحال دلائل و شواہد تو بہت ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ اہل جاہلیت کا یہ نظریہ کہ دنیا کی زیب و زینت قرب الہیٰ کی دلیل ہے، حقیقت سے دور اور باطل نظریہ ہے۔ جس کو ذرا بھی بصیرت ہو گی وہ ایسی باتوں پر دھیان نہیں دے گا۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply