۔ ماہِ شوال کے بعد شوال کے چھ دنوں کے صیام کی قضا کا حکم

سوال : ایک عورت ہر سال شوال کے چھ دنوں کے صیام رکھتی رہی۔ ایک سال رمضان کے شروع میں اس کو بچہ پیدا ہوا۔ اور وہ رمضان کے بعد نفاس سے پاک ہو سکی، اس کے بعد رمضان کے صیام کی قضا کرنے لگی۔ کیا وہ صیام رمضان کی قضا کے بعد شوال کے صیام کی قضا کرے ؟ اگرچہ شوال کا مہینہ گزر جائے ؟ یا اس پر صرف رمضان کی قضا ضروری ہے ؟ اور کیا شوال کے ان چھ دنوں کے صیام ہمیشہ اس پر ضروری ہیں یا نہیں ؟
جواب : شوال کے چھ دنوں کا صوم سنت ہے، فرض نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال، كان كصيام الدهر “ أخرجه الإمام مسلم فى صحيحه
’’ جس شخص نے رمضان کا صوم رکھا پھر اس کے بعد شوال کے چھ دنوں کے صوم رکھے تو وہ پورے سال صوم رکھنے والے کی طرح ہے “۔
مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شوال کے چھ دنوں کے صیام کو مسلسل اور متفرق طور پر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کا لفظ مطلق ہے۔ البتہ اس کو جلدی رکھنا افضل ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى [20-طه:84]
’’ اے رب تیری طرف جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو جائے “۔
اور قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث عمومی طور پر نیکیوں میں سبقت کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔
شوال کے ان صیام پر ہمیشگی برتنا واجب نہیں ہے۔ لیکن افضل ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان سے ثابت ہوتا ہے :
أحب العمل إلى الله ماداوم عليه صاحبه، وإن قل [صحيح: صحيح بخاري، اللباس 77، باب الجلوس على الحصير و نحوه 43 رقم 5861 بروايت عائشه رضي الله عنها و الرقاق 81 باب القصد و المداومة على العمل 18 رقم 6464 و 6465، صحيح مسلم، صلاة المسافرين و قصرها 6 باب فضيلة العمل الدائم 30 رقم 215، 782]
’’ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے، اگرچہ وہ تھوڑا ہو “۔
ان صیام کی قضا مشروع نہیں ہے، کیوں کہ یہ سنت ہے اور اس کا محل فوت ہو گیا۔ خواہ کسی عذر کی بنا پر فوت ہوا ہو یا بغیر عذر کے۔ اور توفیق دینے والاصرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمہ اللہ۔ “
اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔