مسافر مقیم امام کے پیچھے نماز قصر کرے یا پوری پڑھے

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

مسافر کی مقیم کے پیچھے نماز
سوال :کیا مسافر شخص مقیم امام کے پیچھے نماز قصر کر سکتا ہے یا وہ پوری ادا کرے؟
جواب: مسافر پر واجب ہے کہ مقیم امام کے پیچھے پوری نماز پڑھے خواہ وہ مقیم امام کے ساتھ ابتدا میں داخل ہو یا درمیان میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انما جعل الإمام ليؤتم به [بخاري، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى السطوح والمنبر والخشب 378]
”امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ “
دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
فما ادركتم فصلو وما فاتكم فاتموا [بخاري، كتاب الأذان: باب قول الرجل فاتتنا الصلوة635 ]
” جو نماز تم امام کے ساتھ پا لو وہ پڑھو اور جو تم سے رہ گئی تھی اس کو پورا کر لو۔“
یہ دونوں احادیث مسافر اور مقیم دونوں کے لیے عام ہیں۔ جس طرح مقیم امام کی اقتدا کرتا ہے اسی طرح مسافر بھی امام کی اقتدا کرے گا۔ اسی طرح جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے جو رکعات فوت ہو گئی تھیں ان کو پورا کیا جائے گا۔ مقتدی مسافر ہو یا مقیم کیونکہ یہ حکم عام ہے اور سب کے لیے ہے۔
موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں:
كنا مع ابن عباس رضي الله عنهما بمكة فقلت انا إذا كنا معكم صلينا اربعا و اذا رجعنا إلى رحالنا صلينا ركعتين ؟ قال تلك سنة أبى القاسم صلى الله عليه و سلم [مسند احمد 216/1، برقم /1865 ]
” ہم مکہ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے، میں نے پوچھا :جب ہم تمھارے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعت نماز ادا کرتے ہیں اور جب اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو دو رکعت ادا کرتے ہیں( ایسا کیوں ہے)؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ ابوالقاسم صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے۔ “
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ مسافر جب اکیلا ہو تو دو رکعت پڑھتا ہے اور جب مقیم کے پیچھے نماز ادا کرے تو پوری پڑھتا ہے، یہ کیوں ہے؟‘ انھوں نے کہا : تلك السنة یہی سنت ہے۔“ [ إرواء الغليل 571 ]
یہ حدیث اس مسئلے میں صریح نص ہے کہ مسافر کے لیے مقیم امام کے پیچھے پوری نماز پڑھنا ہی واجب ہے کیونکہ ایک صحابی رسول کا من السنة يا تلك السنة کہنا مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”رسول اللہ نے منیٰ میں دو رکعت نماز ادا کی، آپ کے بعد ابوبکر اور عمر
رضی اللہ عنہما اس پر عمل کرتے رہے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے:
فكان ابن عمر رضى الله عنهما إذا صلى مع الإمام صليٰ اربعا و إذا صلاها وحده صليٰ ركعتين [ مسلم، كتاب صلاة المسافرين و قصرها: باب قصر الصلاة بمني 694 ]
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے تھے اور جب اکیلے ہوتے تو دو رکعت پڑھتے۔
یہ تھا ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت پر عمل اور یہی عمل کرنے کا وہ دوسروں کو حکم دیتے تھے۔
ابو مجلز کہتے ہیں:
قلت لابن عمر : المسافر يدرك ركعتين من صلاة القوم يعني المقيمين اتجزيه الركعتان أو يصلى بصلاتهم؟ قال فضحك وقال يصلى بصلاتهم [بيهقي 158/3 ]
میں نے عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا:” مسافر مقیم امام کے ساتھ دو رکعت پا لیتا ہے، کیا اسے دو رکعت کفایت کر جائیں گی یا جتنی مقیم لوگوں نے نماز ادا کی ہے اتنی وہ بھی ادا کرے؟‘‘ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ بات سن کر ہنس پڑے اور کہا: جتنی نماز مقیم لوگوں نے پڑھی ہے اتنی ہی مسافر بھی پڑھے گا۔“
اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [ارواء الغليل 22/3| ]
یہ ایک صحابی رسول کا عمل اور فتوی بھی ہے کہ مسافر مقیم امام کے پیچھے پوری نماز ادا کرے گا، خواہ وہ شروع میں امام کے ساتھ مل ہو یا آخری دو رکعتوں میں۔ اس کے برعکس اگر مقیم آدمی مسافر امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے تو اسے پوری نماز پڑھنا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال نماز پڑھائی اور مقیم لوگوں سے کہا :” تم اپنی نماز پوری کر لو، ہم مسافر ہیں۔“

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔