کھیلوں کے مقابلوں کا حکم

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

گھوڑ دوڑ اور دیگر مقابلے
390- دوڑ کی بعض صورتوں کے احکام
(1) گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ لگوانا اور گھڑ سواری میں مہارت حاصل کرنے اور جہادی تربیت پانے کے لیے جہازوں، ٹینکوں اور اسلحہ وغیرہ کی طرح کے سامان جہاد اور آلات حرب میں مقابلے کروانا مسلمانوں کی جہاد، دفاع بلاد، نصرت دین اور اشاعت اسلام کی ضرورت کے تحت بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے اور کبھی مستحب۔ جو شخص ان کا اہتمام کرتا ہے یا اپنی کسی مہارت، سوچ یا مال کے ذریعے سے کسی بھی طرح ان کے لیے معاونت فراہم کرتا ہے وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔
(2) دوڑ میں شریک افراد میں سے کامیاب ہونے والوں کا انعامات حاصل کرنا جائز ہے۔ اگر یہ انعام صدر مملکت یا اس کے کسی نائب کی جانب سے ہو یا دوڑ میں شریک نہ ہونے والے افراد کی طرف سے رضا کارانہ طور پر اس کا اہتمام کیا جائے۔ ان لوگوں میں سے جو یہ کام کرتا ہے، اگر اس کی نیت رضاء الہی کا حصول ہے تو اس کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ» [الأنفال: 60]
”اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کر سکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور پنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈراؤ گے، جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”صرف اونٹ، گھوڑے اور تیر اندازی کے مقابلے بازی میں عوض لینا ہے۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 3585]
اگر انعام کسی شریک دوڑ کی طرف سے خو شدلی اور رضامندی کی بنا پر ہو کہ جو جیت جائے وہ انعام لے لے، تو یہ جائز ہے کیونکہ اس میں جو انہیں، لیکن اگر انعام ٹکٹ خرید کر دوڑ دیکھنے والے تماشائیوں میں سے صرف چند افراد کے لیے ہو تو یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں تماشائیوں کے درمیان جوا بازی ہے۔
لیکن اگر حاکم سلطنت یا کوئی مخیر شخص انعامات کی رقم دے دے اور دوڑ دیکھنے کے لیے آنے والوں کو مفت بلا عوض ٹکٹیں دے دی جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں، لیکن دوڑ لگوانے اور دیکھنے کا مقصد شرعی ہو اور وہ پورا ہونا چاہیے۔
[اللجنة الدائمة: 3219]

391- کھیلوں کے مقابلوں کا حکم
”کھیلوں کے مقابلوں میں مال لینا جائز نہیں کیونکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: عوض کے ساتھ مقابلے بازی صرف گھوڑے، اونٹ اور تیر اندازی میں ہے۔“
کیونکہ کھیلوں کے مقابلوں کے عکس ان تین اشیا میں مقابلے بازی جہاد کی ٹرینگ ہے، جو ان میں نہیں، لہٰذا ان (کے انعقاد پر) معاوضہ لینا جائز نہیں۔ حدیث میں مذکور ان تین چیزوں سے مراد گھوڑا، اونٹ اور ہتھیار ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 16342]

392- ثقافتی مقابلوں میں شرکت کا حکم
مقابلے اگر شریعت کی متعین کردہ حدود (تیر اندازی، گھڑ سواری اور اونٹ سواری) کے مطابق نہ ہوں تو ان میں انعام لینا جائز نہیں کیونکہ یہ (مذکورہ اشیاء) وسائل جہاد سے ہیں۔ اسی طرح شرعی احکام سے متعلقہ علمی مسائل میں مقابلے بھی اس کے ساتھ ملحق ہیں، کیونکہ طلب علم جہاد فی سبیل اللہ کی ایک صورت ہے اور انعام میں یہ شرط ہے کہ وہ جائز کام میں ہو۔
[اللجنة الدائمة: 16505]

395- فٹ بال کھیلنے اور موجودہ باکسنگ اور ریسلنگ کے مقابلوں کا حکم
مقابلہ ان اشیاء میں جائز ہے جن سے کافروں کے خلاف جنگ میں مدد لی جائے، جیسے: گھوڑے، اونٹ، تیر اور ان کے ہم معنی آلات حرب: جہاز، ٹینک، آبدوزیں، خواہ یہ انعامی مقابلے ہوں یا غیر انعامی، لیکن وہ اشیا جن سے جنگ میں مدد نہیں لی جاتی، جیسے: فٹ بال کا کھیل، باکسنگ (مکے بازی) ریسلنگ (پہلوانی) اگر ان کے مقابلوں میں کامیاب ہونے والے کے لیے انعام ہو تو پھر یہ جائز نہیں، لیکن اگر یہ غیر انعامی مقابلے ہوں اور کسی واجب سے غافل کرنے والے اور حرام میں مبتلا کرنے والے نہ ہوں اور ان سے کوئی ضرر اور نقصان بھی پیدا نہ ہو تو یہ جائز ہیں وگرنہ حرام۔
[اللجنة الدائمة: 3323]

396- مکے بازی (کے کھیل) کا حکم
یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ہر مکے باز دوسرے کے چہرے پر مکہ مارتا ہے اور اکثر اوقات چہرے پر ضرب کے نتیجے میں بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے، اسی طرح جو یہ کھیل کھیلتے ہیں ان کی رانیں ظاہر ہوتی ہیں جس سے ستر بھی کھل جاتا ہے۔
جہاں تک اس مکے بازی کا تعلق ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں دونوں کھلاڑیوں یا ایک کا بہت زیادہ نقصان ہوجاتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
«وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ» [البقرة: 195]
”اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو۔“
نیز فرمایا:
«وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا» [النساء: 29]
”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔“
اور نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”نہ نقصان پہنچانا ہے نہ نقصان اٹھانا۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 2340]
اور رانیں نکالنا اور باقی ستر کھولنا بھی جائز نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 3685]

397- بعض دوسرے کھیلوں کا حکم
سوال: دومینو (یہ ایک طرح کی گیم ہے جس میں لکڑی یا پلاسٹک کے چوکور ٹکڑے استعمال ہوتے ہیں جن کی ایک سائیڈ خالی ہوتی ہے اور دوسری سائیڈ پر مختلف سیاہ نقطے ہوتے ہیں) شطرنج، گولیاں (بنٹے) نرونج، ڈھول (لڈو) موتی جوڑنا، جوکر کارڈ کا کیا حکم ہے؟
جواب: جن کھیلوں کا ذکر ہوا ہے انہیں کھیلنا حرام ہے۔ اگر یہ شرط لگا کر اور کوئی معاوضہ طے کر کے کھیلی جائیں تو کبیرہ گناہوں اور قمار بازی میں شار ہوں گی۔ امام ابو عمر بن عبد البر کا قول ہے:
”علما کا اجماع اور اتفاق ہے کہ کسی معاوضے کی بنیاد پر شطرنج کھیلنا جوا ہے جو جائز نہیں۔“
اسی طرح اگر مذکورہ کھیلوں کے کھیلنے کے نتیجے میں کسی واجب کا ترک ہو جائے تو یہ حرام ہوں گی، جیسے نماز میں وقت سے تاخیر، والدین، بیوی اور دیگر افراد خانہ کے حقوق کا ضیاع یا یہ کھیل بغض و عداوت، لڑائی، جھگڑے اور گالی گلوچ جیسے حرام کام میں مبتلا کرنے کا سبب بن جائیں، خواہ شرط کے بغیر ہی ہوں تب بھی حرام ہوں گے، لیکن اگر کھیل کو ان تمام کاموں سے دور رکھا جائے پھر بھی صحیح قول کے مطابق یہ حرام ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو شطرنج کھیل رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ کیا بت ہیں جن پر تم جمے ہوئے ہو؟ اس طرح انہوں نے ان کو بتوں پر مجاور بننے والوں کے ساتھ تشبیہ دی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اسے کھیلنے سے منع کرنا منقول ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد اور ان تمام کے اصحاب بھی اس کی حرمت کے قائل ہیں کیونکہ شطرنج اور اس جیسے کھیل بعد میں ایسے کھیلوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جنھیں معاوضے اور (شرط) کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، خواہ فی الحال یہ معاوضے سے خالی ہی ہوں۔ علاوہ ازیں غالباً یہ کھیل فرائض سے غافل کر دیتے ہیں، لڑائی جھگڑے، گالی گلوچ کا سبب بنتے ہیں، بغض و عداوت جنم دیتے ہیں اور نماز اور ذکر الہی سے روک دیتے ہیں۔ اگر انسان کسی قائدانہ منصب کا حامل ہو، جیسے: کوئی داعی دین، جماعت حسبہ کارکن، امام یا خطیب مسجد یا ان سے کسی اعلی یا ادنی منصب پر فائز شخص تو اس کے لیے برائی سے اجتناب کرنا اور واجبات کا اہتمام کرنا زیادہ لازمی ہے، کیونکہ ایسا آدمی دوسروں کے لیے نمونہ ہوتا ہے اور قابل اتباع۔
[اللجنة الدائمة: 4010]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔