گناہ اور نیکی کی پہچان

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن النواس بن سمعان رضى الله عنه قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن البر والإثم فقال: ‏‏‏‏البر حسن الخلق والإثم ما حاك فى صدرك وكرهت ان يطلع عليه الناس [أخرجه مسلم] ، [بلوغ المرام : 1238]
”نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیکی عادت کا اچھا ہونا ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس پر اطلاع پائیں۔“ [مسلم]
تخریج : [مسلم، البر والصلة 14، 15] ، [بلوغ المرام : 1238] اور دیکھئے [تحفة الاشراف 20/9]
فوائد :
➊ حسن خلق سے مراد عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے، کھلے چہرے اور میٹھی زبان کے ساتھ ملاقات کی جائے گی سختی اور درشتی سے پرہیز کیا جائے مگر یہ ایک محدود مفہوم ہے حقیقت یہ ہے کہ حسن خلق اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو اس طرح اوڑھنا بچھونا بنا لینے کا نام ہے کہ وہ آدمی کی پیدائشی عادت کی طرح بن جائیں اور کسی مشقت کے بغیر خود بخود ادا ہوتے چلے جائیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا :
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ [68-القلم:4] ”یقیناً آپ عظیم خلق پر ہیں۔“
سعد بن ہشام بن عامر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق بتائیں تو انہوں نے فرمایا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ عرض کیا کیوں نہیں، فرمایا : فان خلق نبي الله كان القرآن ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن ہی تھا۔“ [مسلم، مسافرين 139]
یعنی آپ نے قرآن کے آداب اس طرح اختیار کر لئے تھے اس کے احکام پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب اس طرح تھا کہ قرآن کی ہر بات آپ کی طبعی عادت بن گئی تھی۔
حسن خلق کے اس مفہوم میں ارکان اسلام، حقوق اللہ، حقوق العباد، صبر، شکر، وفائے عہد، صدق، امانت، عدل، صدقہ، جہاد، احسان عرض سبھی کچھ شامل ہے اور اس کی جامع چند آیات یہ ہیں :
لَّيْسَ الْبِرَّ . . . . . . . . [2-البقرة:177]
اور فرمایا :
وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ . . . . . . . [25-الفرقان:63]
اور فرمایا :
التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ . . . . . . . [9-التوبة:112]
اور فرمایا :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ٭ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ٭ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ٭ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ٭ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ٭ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [23-المؤمنون:1 – 11]
قرآن مجید مترجم مع تفسیر سے تفصیل ملاحظہ کر لیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامتیں بیان فرمائی ہیں پہلی یہ کہ وہ سینے میں کھٹکتا ہے آدمی کو اس پر تسلی نہیں ہوتی۔ ایک خیال یہ آتا ہے کہ یہ کام کر لوں اس کی صاف ممانعت تو کہیں نہیں ملتی دوسرا خیال آتا ہے کہ نہیں یہ کام اچھا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے۔ لوگوں میں بدنامی ہو گی یہ کیفیت انسان کو بےچین رکھتی ہے۔ اسی کا نام گناہ ہے حسن بن على رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث حفظ کی :
دع ما يريبك إلى ما لا يريبك فإن الصدق طمانينة وإن الكذب ريبة [صحيح الترمذي، النسائي]
”جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان (کا باعث) ہے اور جھوٹ بے چینی (کا باعث) ہے۔“ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے [بلوغ المرام حديث 1384]
گناہ کی دوسری علامت یہ بیان فرمائی کہ تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کام کا علم ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ سبھی لوگوں کا کسی چیز کو برا جاننا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کام گناہ ہے اسی لئے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اچھے کام لوگوں کو معلوم ہوں اور برے کام معلوم نہ ہوں۔ ریاء کی بیماری بھی یہیں سے پیدا ہوتی ہے۔
➌ جب وہ کام گناہ ہیں جن میں شبہ ہو، جن کے جائز اور ناجائز ہونے میں واضح حکم موجود نہ ہو اور جن کے متعلق دل میں کھٹکا ہو تو جو کام صاف الفاظ میں منع کئے گئے ہیں۔ ان کے گناہ ہونے میں کیا شبہ ہے ؟
➍ اگر کسی کام کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہو مگر لوگ جہالت کی وجہ سے اسے ناپسند کریں تو لوگوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مسلمان کی شان یہ ہے : لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ [5-المائدة:54] ”وہ کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔“
➎ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں اچھے اور برے کی پہچان رکھ دی ہے۔ اسی لئے عربی میں نیکی کو معروف کہا جاتا ہے کہ اس کام کا اچھا ہونا سب کے ہاں پہچانی ہوئی چیز ہے۔ اور برائی کو منکر کہتے ہیں جس کا معنی ہے ”نہ پہچانی ہوئی چیز“ یعنی فطرت انسانی اس کام کو قبول نہیں کرتی اور نہ پہچانتی ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 9 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply