اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ کے لیے لفظ’’ عشق“ کا استعمال

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا لفظ ’’ عشق“ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کرنا جائز ؟
جواب : قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے جو لفظ کثرت سے آیا ہے وہ محبت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ [5-المائدة:54]
’’ اے ایمان والو ! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا (یاد رکھیے ! ) عنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔“
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ اے معاذ ! یقیناً میں تیرے ساتھ محبت کرتا ہوں۔“ معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : ’’ اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں بھی آپ کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ “ [مسند احمد : 5/ 245، 22119، صحيح ابن خزيمة : 751، صحيح ابن حبان : 2020، ابودؤد : 1522]
قرآن حکیم میں محبت والی کئی ایک آیات ہیں اور اسی طرح صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ ایک دوسرے کے لیے محبت کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے یہی لفظ استعمال کرنا چاہیے اور یہ بھی یاد رہے کہ قرآن حکیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی صحیح حدیث میں لفظ عشق استعمال نہیں کیا گیا۔ البتہ ایک مصنوعی، بناوٹی اور جعلی روایت میں لفظ عشق استعمال ہوا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر کے یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جس نے عشق کیا اور چھپایا اور پاکباز رہا اور مر گیا وہ شہید ہے۔“ [ تاريخ بغداد : 5/ 166۔ 262، 2/ 50، 11/ 298، تاريخ دمشق اور العلل المتناهىة]
علامہ البانی رحمه الله نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ [سلسلة الاحاديث الظعيفة : 309]
معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سے باغی اور کسی عشق کے مریض نے یہ روایت بنائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کار زار میں قتل ہونے والوں کے علاوہ جل کر، غرق ہو کر، پیٹ کے مرض سے، ذاب الجنب والے اور ایسی عورت کو شہید قرار دیا ہے جو نفاس میں بچے کی ولادت پر فوت ہو جائے، قتیل عشق کو کہیں بھی شہید قراد نہیں دیا۔ یہ کسی قتیل لیلیٰ کی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ امام ابن قیم رحمه الله نے اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے اور فرمایا ہے :
’’ اس موضوع روایت سے دھوکا مت کھائیں یہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہے اور اس کا آپ کے کلام میں سے ہونا جائز نہیں۔ اس لیے اللہ کے ہاں شہادت ایک بلند درجہ ہے جو صدیقیت کے رتبہ کے ساتھ ملایا گیا ہے، اس کے لیے اعمال اور احوال ہیں جو اس کے حصول کی شروط ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں ایک عام اور دوسری خاص اور خاص تو شہادت فی سبیل اللہ ہے اور عام شہادتیں پانچ ہیں جو صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہیں اور عشق ان میں سے ایک بھی نہیں ہے۔ عشق ان میں سے کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ تو محبت میں اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ یہ دل اور روح پر کنٹرول کرتا ہے اور غیر کے لیے محبت پیدا کرتا ہے اس کے ذریعے شہادت کیسے پائی جا سکتی ہے ؟ یہ محال ہے۔ عشق کا فساد ہر فساد سے بڑھ کر ہے بلکہ یہ روح کی خمر (شراب) ہے جو اس کو مست کر دیتی اور اللہ کے ذکر اور اس کی محبت اور اس کی مناجات سے لذت اور انس حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور دل کی عبودیت کو غیر اللہ کے لیے واجب کر دیتی ہے، عاشق کا دل معشوق کی عبادت کرتا ہے۔ بتاؤ جو کسی دوسرے آدمی کی عورت کے ساتھ عشق کرتا ہے یا امرد لڑکوں اور رانیہ و بدکار عورت سے عشق کرتا ہے کیا وہ اس عشق کی وجہ سے شہادت کا درجہ پا لے گا ؟ ؟ یہ تو صریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے خلاف ہے اور پھر عشق تو ان بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے شرعی اور قدرتی علاج مقرر کیا ہے جبکہ شہادت حدیث میں بیان کی گئی ہے اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔“ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : [ زاد المعاد : 3/ 306۔ 307]
الغرض لفظ عشق قرآن و حدیث میں کہیں وارد نہیں ہوا اور عشق ایک بیماری ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے اور پھر یہ ہمارے عرف میں اچھے اور برے دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ اس لیے ایسے لفظ کا استعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی شخص بھی یہ لفظ اپنی ماں، بہن اور بیٹی کے لیے استعمال کرنا پسند نہیں کرتا تو پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیسے پسند کرتا ہے ؟

اس تحریر کو اب تک 37 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply