نیند کی وجہ سے نماز رہ جائے تو کیا کریں؟

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رِبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ فِيهِ النُّوْمُ عَنِ الصَّلَاةِ فِيهِ : ثُمَّ أَذْنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ الْحَدِيثِ – فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ.
عبد الله بن ابی رباح سے روایت ہے، اس نے ابوقتادہ سے ایک طویل حدیث بیان کی جس میں نماز سے پہلے نیند کا تذکرہ تھا اس میں یہ الفاظ ہیں ”پھر بلال نے اذان دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز اداکی پھر صبح کی نماز پڑھی“ ۔ باقی اسی طرح حدیث ہے آپ نے ایسے ہی کیا جس طرح روزانہ کیا کرتے تھے ۔“
تحقيق و تخریج :
مسلم : 281
وَفِي حَدِيثِ جَابِرٍ الطَّوِيلِ فِي صِفَةِ حج النبى على سَاقَهُ إِلَى ذِكْرِ خُطَبَةِ النَّبِيِّ من أى بِعَرَفَةَ، قَالَ: ثُمَّ أَذَنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظهر، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى عَصْرَ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا .
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ: حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانِ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ أَخْرَجَ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ [ كُلِّهَا مُسْلِمٌ.]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذ کور ایک طویل حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی صفت بیان کی گئی وہ حدیث کو میدان عرفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ تک لے گئے ہیں ۔ راوی کہتا ہے ”پھر اذان دی نماز ظہر پڑھی ، پھر تکبیر کہی پھر نماز عصر پڑھی ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی دوسری نماز نہیں پڑھی ۔“ اسی حدیث میں ہے ”یہاں تک کہ آپ مزدلفہ آئے وہاں مغرب اورعشاء ایک اذان کے ساتھ اور دو تکبیروں کے ساتھ پڑھیں ۔“ یہ تمام احادیث مسلم نے روایت کی ہیں ۔
تحقيق و تخریج
مسلم 1218 :
وَعَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ لَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ: صَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلاثًا، وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ تشریف لائے تو وہاں مغرب اور عشاء کو جمع کیا مغرب کی تین رکعت پڑھیں اور عشاء کی دو رکعت ہر ایک نماز الگ تکبیر کے ساتھ ادا کی اور ان دو نمازوں کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی ۔“
تحقیق و تخریج :
بخاری : 1673، مسلم 1288۔
وَفِي حَدِيثِ شُعْبَةَ بِسَنَدِهِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ النَّبِيَّ عَلَى صَلَاهُمَا بِإِقَامَةِ وَاحِدَةٍ
شعبہ کی حدیث جو حضرت عبداللہ بن عباس کے حوالے سے مذکور ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں : ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں نمازیں ایک ہی اقامت سے پڑھائیں ۔ “
تحقیق و تخریج :
مسلم شریف میں عبداللہ بن عمر کے حوالے سے یہ حدیث منقول ہے ۔ حدیث نمبر 1288 نصب الراية حافظ ذیلعی : 69/3 –
فوائد :
➊ نیند کی وجہ سے کوئی نماز رہ جائے تو جماعت کروانی ہو تو ضروری ہے کہ اذان کہی جائے یہ اس صورت میں ہے جب اذان کہی نہ گئی ہو ورنہ سابقہ اذان پر اکتفا کیا جاسکتا ہے ۔
➋ اذان اور جماعت کے مابین وقفہ میں سنتیں وغیرہ پڑھنا درست ہے ۔
➌ صبح کی نماز سے قبل کی دو سنتیں مؤکدہ ہیں ان کے پڑھنے کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے ۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مؤکدہ سنتوں کی قضائی دی جا سکتی ہے ۔ اگر قضائی نہ دی جائے تو حرج نہیں ہے ۔
➍ ایک اذان سے ایک یا زیادہ نمازیں اداکی جا سکتی ہیں لیکن ہر ایک کے لیے تکبیر الگ کہنی ہو گی یہ اس وقت ہے جب کسی صورت میں نمازیں اکٹھی کرنے کا ارادہ ہو ۔
➎ نمازیں ملاکر مقدم کر کے پڑھنی ہوں تو اذان پہلی نماز کے وقت ہو گی مثال کے طور پر ظہر وعصر پڑھنی ہے تو اذان نماز ظہر کے وقت میں کہی جائے گی اذان ایک ہی ہو گی لیکن تکبیر ہر نماز کی جماعت کے لیے الگ ہو گی ۔
➏ نمازوں کو جمع کرنا درست ہے ۔ مسافر آدمی نمازوں کو جمع کر سکتا ہے ۔
➐ حالت سفر میں نماز قصر کر کے پڑھنی جائز ہے ۔ مغرب کی نماز معمول کے مطابق تین فرض ہی پڑھی جائے گی باقی دودو رکھتیں ۔ دوران سفر صرف فرض پڑھنے ضروری ہیں نوافل نہ پڑھے تو حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح قضائی کسی نماز کی دینی ہو تو صرف فرضوں کی قضائی ہو گی نفلوں کی نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک اذان اور دو اقامتوں سے مغرب، عشاء کی نماز پڑھی یہی صحیح ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔