نماز عید کے لیے عورتوں کا عیدگاہ جانا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا نماز عیدین کے لیے عورتوں کا عید گاہ میں جانا ضروری ہے؟
جواب : عیدین کی نماز میں عورتوں کی شرکت لازمی ہے، جو عورتیں ایامِ ماہواری میں بھی ہوں وہ بھی عیدگاہ کی طرف جائیں، وہ اگرچہ نماز ادا نہیں کریں گی لیکن مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں گی۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :
ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم عیدین کے دن حیض والی اور پردہ دار دوشیزاؤں کو لے کر آئیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک ہو جائیں اور حائضہ عورتیں نماز والی جگہ سے علیحدہ رہیں، ایک عورت نے کہا:
”اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہ تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے اس کے ساتھ والی چادر اوڑھا دے۔ “ [بخاری، کتاب الصلٰوۃ : باب وجوب الصلوۃ فی الثیاب (351)، مسلم، کتاب الصلٰوۃ العیدین : باب ذکر اباحۃ النساء فی العیدین إلی المصلٰی (890)]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ خواتین کو عیدین کی نماز ادا کرنے کے لیے عیدگاہ کی طرف جانا چاہیے، اگر عورت کے ایام ماہواری شروع ہو جائیں تب بھی وہ عیدگاہ کی طرف جائے گی، مسلمانوں کی دعا میں شرکت کرے گی،
امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”المغنی“ میں یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد بعض ایسے حضرات کے اقوال نقل کیے ہیں جو عورتوں کے لئے عید گاہ کی طرف جانا پسند نہیں کرتے، پھر اس کے متعلق انتہائی جامع اور موثر تبصرہ یوں کیا ہے :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سب سے زیادہ اتباع کی حق دارہے۔ “ [المعني : 4/ 265 ]
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خواتین عیدگاہ میں حاضر ہوتی تھیں۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن اٹھے، پہلے نماز ادا کی پھر خطبہ دیا، جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو عورتوں کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوتے تھے۔“ [ صحيح بخاري، كتاب العيدين : باب المشي والركوب إلى العيد 961 ]
الغرض اس معنی کی کئی ایک احادیث ِ صحیحہ موجود ہیں کہ عورتوں کو نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے عیدگاہ کی طرف جانا چاہیے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔