تین اوقات پورے دن میں ، جن میں نماز پڑھنا منع قرار دیا گیا ہے

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ لَا يَقُولُ: لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ
ابوسعيد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں : ”صبح کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے اور عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک سورج غروب ہو جائے ۔“ [متفق عليه]
تحقيق و تخريج :
البخاري : 586 ، مسلم : 827 یہ حدیث مسلم شریف کے باب الاوقات الى نهى عن الصلاة فيها ميں ذکر کی گئی ہے ۔
وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ السَّحُدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ رَسُولُ اللهِ مَن يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ الْعَصْرِ ثُمَّ إِنَّهُ شُغِلَ عَنْهُمَا أَوْ نَسِيَهُمَا، فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ ثُمَّ أَثْبَتَهُمَا وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد پڑھا کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے، پھر ایک دفعہ آپ مشغول ہو گئے یا انہیں پڑھنا بھول گئے تو آپ نے عصر کی نماز کے بعد یہ دو رکعتیں پڑھیں پھر لگا تار انہیں پڑھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی نماز ایک مرتبہ پڑھ لیتے تو اسی پر دوام کرتے ثابت قدم رہتے ۔“ مسلم
تحقیق و تخریج :
مسلم : 835 یہ حدیث مسلم شریف کے ”باب معرفة الركعتين اللتين كان يصليهما التي بعد العصر“ میں مذکور ہے ۔
فوائد :
➊ تین اوقات پورے دن میں ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا منع قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں نماز جنازہ پڑھنا اور مردوں کو دفنانا بغیر کسی عذر کے بھی منع ہے ۔ اسی طرح جب نصف نہار کا سورج سر کی مانگ پر چمک رہا ہو مغرب کی سمت ابھی جھک انہ ہو یا سورج غروب ہونے کو جا رہا ہو تو پھر نماز پڑھنا اور مردوں کو دفنانا غیر مشروع ہے ۔
➋ اوقات کے اندر اندر کیے اعمال قابل حاضری اور قابل گواہی ہوتے ہیں ۔
➌ کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ سورج کے پجاری طلوع آفتاب کے وقت سورج کو پوجتے ہیں اور سورج طلوع بھی شیطان کے سر سے ہوتا ہے ۔
➍ صبح کی نماز کی قضائی جب سورج ایک نیزہ بلند ہو جائے اور اس کی شعائیں چہار اطراف پھیلتی شروع ہو جائیں یعنی سورج کے نکلنے میں کسی قسم کا شک باقی نہ رہے، دی جا سکتی ہے ۔
➎ جمعہ کے روز زوال کے وقت نوافل پڑھے جا سکتے ہیں اسی طرح نماز جمعہ بھی اداکی جا سکتی ہے یہ صرف یوم جمعہ کا امتیاز ہے ۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ صبح کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد کسی نماز کی قضائی دی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں ۔ اسی طرح نماز جنازہ پڑھنا اور شکرانہ نوافل ادا کرنا وغیرہ جائز ہیں ۔ اس مسئلہ سے بھی واقفیت ہو گئی کہ جو بھی کام شروع کیا جائے اس پر ہمیشگی کرنی چاہیے اسی طرح معمول والی نماز خواہ وہ نوافل ہی کیوں نہ ہوں ان کی قضائی روٹین بحال رکھنے کی خاطر دی جا سکتی ہے ۔ ورنہ نوافل وسنن کی قضائی فرض ، واجب نہیں ہے ۔
➏ نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے قضا نماز ثابت ہے کوئی بات بھول جانا ایک نبی کے لیے عیب نہیں ہے اور نہ ہی شان کے خلاف ہے

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔