امام اور مقتدی کی تکبیر اور سمع اللہ لمن حمدہ میں فرق کیوں؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : امام الله اکبر بلند آواز سے کہتا ہے جبکہ مقتدی آہستہ، امام سمع الله لمن حمده بلند آواز سے کہتا ہے جبکہ مقتدی آہستہ کہتے ہیں، آپ اگر قرآن و حدیث کے دعویدار ہیں تو قرآن یا صحیح حدیث سے یہ چیز ثابت کریں؟
جواب : نماز ایک اہم ترین عبادت ہے اور اس کا طریقہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھاتے تھے تو جہری تکبیر کہتے تھے جیسا کہ سعید بن الحارث بن المعلیٰ بیان کرتے ہیں :
صلي لنا أبو سعيد فجهر بالتكبير حين رفع رأسه من السجود وحين سجد وحين رفع و حين قام من الركعتين [ صحيح البخاري، كتاب الاذان : باب يكبر وهو ينهض من السجدتين 865 ]
”ہمیں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو انہوں نے جس وقت سجدے سے سر اٹھایا اور جس وقت (دوسرا) سجدہ کیا اور جس وقت سر اٹھایا اور جس وقت دو رکعتوں سے اٹھے، اونچی تکبیر کہی اور فرمایا : میں نے اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ “
سعید بن الحارث فرماتے ہیں :
اِشْتَكَي أَبُوْهُرَيْرَةَ أَوْ غَابَ فَصَلَّي لَنَا أَبُوْسَعِيْدٍ الْخُدْرِيُّ فَجَهَرَ بِالتَّكْبِيْرِ حِيْنَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَحِيْنَ رَكَعَ وَحِيْنَ قَالَ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَحِيْنَ قَامَ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ حَتّٰي قَضَي صَلَاتَهُ علٰي ذٰلِكَ فَلَمَّا صَلّٰي قِيْلَ لَهُ قَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ عَلٰي صَلَاتِكَ فَخَرَجَ فَقَامَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ ! وَاللهِ مَا اُبَالِي اخْتَلَفَتْ صَلَاتُكُمْ أَوْ لَمْ تَخْتَلِفْ هٰكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي [ المستدرك على الصحيحين 844، 223/1، السنن الكبري للبيهقي، كتاب الصلوة : باب جهر الامام بالتكبير 18/2، أبويعلي 1229، صحيح ابن خزيمة 580، مسند أحمد11140 224/17، 225 ]
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار یا موجود نہیں تھے تو ہمیں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، انہوں نے جس وقت نماز شروع کی، رکوع میں گئے اور رکوع سے سیدھے کھڑے ہوئے تو سمع الله لمن حمده کہا: اور سجدے سے اپنا سر اٹھایا دوسرا سجدہ کیا اور سر اٹھایا اور دو رکعتوں سے اٹھے تو اونچی آواز سے تکبیر کہی یہاں تک کہ اپنی نماز مکمل کی، انہیں کہا گیا : ”یقیناًً لوگوں نے آپ کی نماز کے بارے میں اختلاف کیا ہے “۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ آئے، منبر پر چڑھے اور کہا: ”اے لوگو ! بلاشبہ اللہ کی قسم ! تمہاری نماز مختلف ہو یا نہ ہو مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے “۔
اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں میں تکبیر جہری اور سری کہنے میں اختلاف رونما ہوا تھا اور مروان وغیرہ بنوامیہ کے لوگ تکبیر آہستہ کہتے تھے جس کی وجہ سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی نماز پر اختلاف کیا گیا تو انہوں نے اونچی تکبیریں کہہ کر نماز پڑھائی اور لوگوں کی کوئی پروا نہ کی اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح تھی۔ یہ حدیث اس مسئلہ پر بالکل واضح ہے کہ امام تکبیریں جہراً کہے گا اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر باب امام کی جہری تکبیر ہی کا قائم کیا ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
”جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے جس بیماری میں آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس ایک آدمی نے آ کر نماز کی اطلاع دی، آپ نے فرمایا : ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“۔ میں نے کہا: ”یقیناًً ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں، اگر وہ آپ کی جگہ کھڑے ہو گئے تو رو پڑیں گے اور قرأت پر قدرت نہ رکھ سکیں گے “۔ آپ نے فرمایا : ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ نماز پڑھائیں“۔ میں نے پھر وہی بات کہی تو آپ نے تیسری یا چوتھی دفعہ فرمایا : ”تم تو صواحب یوسف ہو، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ نماز پڑھائیں“۔ انہوں نے نماز پڑھائی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے گویا کہ میں آپ کی طرف دیکھ رہی ہوں، آپ کے پاؤں زمین پر لکیریں کھینچ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ نماز پڑھاؤ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔
وَاَبُوْبَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيْرَ
”اور ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔ “ [صحيح البخاري، كتاب الأذان : باب من أسمع الناس تكبير الإمام 712، صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة 418 ]
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
اِشْتَكَي رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَأَبُوْبَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ تَكْبِيْرَهُ [ صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة : باب ائتمام المأموم بالإمام 413/84، المسند المستخرج920، أبوداؤد 606، نسائي كبري 535، ابن ماجه 1240، ابن حبان 2122، مسند أحمد334/3، الأدب المفرد 948، ابن خزيمة 486، سنن النسائي 1199، أبويعلي 1896، أبوعوانة 108/2، طحاوي 234/1، المسند الجامع 473/3، 474 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے اور ہم نے آپ کے پیچھے (اس طرح) نماز ادا کی کہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو آپ کی تکبیر سنا رہے تھے “۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں :
صَلّٰي بِنَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَأَبُوْبَكْرٍ خَلْفَهُ فَإِذَا كَبَّرَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ أَبُوْبَكْرٍ يُسْمِعُنَا [نسائي، كتاب الإمامة : باب الائتمام لمن يأتم بالإمام 799، مسلم 413 ]
”ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے ابوبکر ہمیں تکبیر سناتے تھے “۔
ان احادیث صحیحہ سے بھی معلوم ہوا کہ امام تکبیر جہراً کہے گا اور مقتدی آہستہ، اگر مقتدی بھی تکبیر جہری کہتے ہوتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر سنانے کی ضرورت نہ تھی۔
معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے :
وبينا أنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الصلوة إذ عطس رجل من القوم فقلت يرحمك الله فحدقنى القوم بأبصارهم فقلت واثكل أمياه، ما لكم تنظرون إلى؟ قال فضرب القوم بأيديهم على افخاذهم فلما رأيتهم يسكتوني لكنى سكت فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم دعاني بابي وأمى هو ما ضربنى و لا كهرني و لا سبني ما رايت معلما قبله ولا بعده أحسن تعليما منه قال إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شئ من كلام الناس إنما هو التسبيح و التكبير و تلاوة القرآن [سنن النسائي، كتاب الصلوة : باب الكلام فى الصلوة 1219، صحيح مسلم، كتاب المساجد : باب تحريم الكلام فى الصلوة 537، أبوداؤد كتاب الصلوة : باب تشميت العاطس فى الصلوة 930، مسند أحمد 23762 175/39، دارمي 1503، الاحاد والمثاني 1399، ابن الجارود 212، ابن خزيمة 859، أبوعوانة 1728، ابن حبان 2247، بيهقي 249/2 250، الأسماء والصفات للبيهقي 421، التمهيد79/22۔ 80، خلق افعال العباد 193، نسائي كبريٰ 556، طبراني كبير 945/19، 948 ]
”میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز میں تھا کہ قوم میں سے ایک آدمی نے چھینک ماری، میں نے کہا: ”اللہ تجھ پر رحم کرے۔“ تو قوم مجھے گھورنے لگی، میں نے کہا: ”مجھے میری ماں گم پائے، تمہیں کیا ہے کہ میری طرف دیکھتے ہو ؟“ قوم نے اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر مارنا شروع کیا، جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں نے ان سے جھگڑنے کا ارادہ کیا لیکن خاموش ہو گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بلایا، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ مارا، نہ ڈانٹا اور نہ برا بھلا کہا، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد تعلیم دینے والا اتنا اچھا کوئی معلم نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یقیناًً ہماری اس نماز میں لوگوں کا آپس میں گفتگو کرنا درست نہیں، یہ تو تسبیح وتکبیر اور تلاوت قرآن ہے۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مقتدی کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ نماز میں سکوت اختیار کرے، اپنی آواز بلند نہ کرے۔ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آواز بلند نہیں کرتے تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب غلطی سے چھینک مارنے والے کو اونچی آواز میں يَرْحَمْكَ اللهُ کہہ دیا تو صحابہ انہیں گھورنے لگے۔ اس حدیث میں يسكتونني ہے اور بعض طرق میں يصمتونني کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ مقتدی خاموش رہے گا۔ ہاں جہر مقتدی کے لیے جائز ہو گا مگر اس جگہ جس کی دلیل مل جائے۔
اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ میں امام کی اقتدا کے متعلق احادیث میں ہے : فَإِذَا کَبَّرَ الْإِمَامُ فَکَبِّرُوْا ”جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو“ سے پتا چلتا ہے کہ امام تکبیر جہری کہے گا کیونکہ مقتدی کو امام کی تکبیر کا تبھی علم ہو گا جب امام تکبیر اونچی کہے گا اور یہ بھی یاد رہے کہ نماز اللہ کے ذکر کے لیے پڑھی جاتی ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :
﴿أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيْ﴾ [ طه : 14 ]
”نماز میرے ذکر کے لیے قائم کرو“۔
اور ذکر کے متعلق اللہ کا حکم ہے :
”اپنے رب کو اپنے نفس میں عاجزی، خوف سے اور پست آواز سے صبح شام یاد کرتے رہو۔ “
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کا اصول تو یہی ہے کہ اسے آہستہ کیا جائے سوائے اس کے کہ جہر کی دلیل آجائے۔ [الاعراف : 205]
امام کے جہر کی دلیلیں تو اوپر ذکر کر دی گئی ہیں، جو مقتدی کی تکبیرات کے جہر کا مدعی ہو وہ اس کی دلیل پیش کرے، یہ بات علمائے احناف کو بھی مسلم ہے جیسا کہ ان کی کتاب مجموعہ رسائل جلد اول تحقیق مسئلہ آمین میں لکھا ہے : ”قرآن پاک کے انہی ارشادات اور روایات سے نماز کے باقی اذکار کا آہستہ پڑھنا ثابت ہو گیا“ پھر آگے فائدہ دوم کے تحت لکھا ہے : ”دراصل قاعدہ یہی ہے کہ دعا اور ذکر آہستہ پڑھے جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے، ہاں بعض اذکار میں اللہ کی یاد کے ساتھ انسانوں کو اطلاع دینا بھی مقصود ہوتا ہے اور انسان دل کی آواز کو سن نہیں سکتا اس لیے انسانوں کو سنانے کے لیے وہاں آواز بلند کی جاتی ہے جیسے اذان میں انسانوں کو بلانا، اقامت میں مقتدیوں کو بتانا مقصود ہوتا ہے۔ امام تکبیراتِ انتقال اور سلام اونچی آواز سے کہتے ہیں کیونکہ مقتدیوں کو اطلاع دینا مقصود ہے لیکن مقتدی اور اکیلے نمازی کو یہ ضرورت نہیں، اس لیے وہ آہستہ کہتا ہے۔ “
لہٰذا احناف کے اور ہمارے اس متفقہ اصولِ قرآنی کے مطابق مقتدی تو تکبیر آہستہ ہی کہے گا بہرکیف قرآن و سنت کے بے شمار دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ مقتدی آہستہ اور خاموشی سے ذکر و اذکار اور تلاوت کرے گا جبکہ امام تکبیرات و قرأت جہری کرے گا۔ یاد رہے ایسے حیلے بہانے اور چال بازیاں بعض افراد کی جانب سے کتاب وسنت سے لوگوں کو دور کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہیں تاکہ انہیں بتایا جائے کہ دینِ اسلام پورا قرآن و حدیث میں نہیں بلکہ سارے کا سارا دین ان کی مزعومہ فقہ میں ہے اور اس کے لیے آج کل کئی واعظ و خطیب اور کم علم متعصب لوگ بڑی محنت کر رہے ہیں اور دن رات یہ باور کرانے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں کہ قرآن وحدیث ہماری مکمل راہنمائی نہیں کرتے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُمْ !
اور اللہ تعالیٰ راہِ صواب پر استقامت نصیب فرمائے، کتاب و سنت کے دامن سے وابستہ رکھے اور زیغ وضلال سے محفوظ فرمائے۔
آمين !
——————

اس تحریر کو اب تک 18 بار پڑھا جا چکا ہے۔