میت کے سرہانے سورۃ بقرۃ پڑھنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : ہمارے ہاں کسی مردہ کو دفن کرنےکے بعد قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کا پہلا رکوع اور قبر کی پائنی کی جانب سورہ بقرہ کا آخری رکوع پڑھنا جائز ہے قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ یہ کام جائز ہے یا نہیں؟
جواب : میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کی جانب آخری آیات جو تلاوت کی جاتی ہیں اس کی بنیاد ایک ضعیف روایت پر ہے جو صاحب مشکوٰۃ نے كتاب الجنائز : باب دفن الميت [7171] میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
« إذا مات احدكم فلا تحبسوه واسرعوا به إلٰي قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة » [رواه البيهقي فى شعب الايمان وقال : والصحيح انه موقوف عليه]
”جب تم میں سے کوئی آدمی وفات پا جائے تو اس کو روک کر نہ رکھو بلکہ اسے اس کی قبر کی طرف جلدی لے چلو اور اس کے سر کی جانب سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کی جانب سورۂ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔“
اسے بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور کہا: ہے : ”صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے۔“ صاحب مشکوٰۃ نے امام بیہقی کی شعب الایمان سے روایت نقل کر کے آگے امام بیہقی کا اس پر جو حکم نقل کیا ہے، یہ ہمیں شعب الایمان میں نہیں ملا۔ کیونکہ یہ روایت شعب الایمان میں باب فى الصلوة على من مات أهل القبلة، فصل فى زيارة القبور [9294 16/7] میں موجود ہے، اس پر امام بیہقی نے لکھا ہے :
« ولم يكتب الا بهٰذا الاسناد فيما اعلم وقد روينا القراءة المذكورة فيه عن ابن عمر موقوفا عليه »
”میرے علم کے مطابق یہ روایت اسی سند کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اس میں مذکورہ قرأت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوف روایت کی گئی ہے۔“ اور یہ السنن الکبریٰ بیہقی ”باب ما ورد فی قراءۃ القرآن عند القبر (56/4) میں بھی موجود نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یہ مرفوع روایت شعب الایمان کے علاوہ ”طبرانی کبیر (2/208/2)“ اور امام خلال کی ”کتاب القراءۃ عند القبور (ق 2/25)“ میں مروی ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ کی تحقیقِ ثانی (223/2) میں ذکر کیا ہے، اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ بن الضحاک البابلی ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : «واهٍ» کمزور راوی ہے۔
ازدی کہتے ہیں : «اَلضُّعْفُ عَلٰي حَدِيْثِهِ بَيِّنٌ» اس کی روایت میں کمزوری واضح ہے۔
ابوحاتم فرماتے ہیں : « لَا يُعْتَدُّ بِهِ» اسے شمار نہ کیا جائے۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں یہ ثقہ راویوں سے مفصل روایت بیان کرتا ہے اور ان میں وہم کا شکار ہو جاتا ہے اور جس روایت میں یہ متفرد ہو اس میں ساقط الاحتجاج ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں : اس کی روایت میں ضعف نمایاں ہے۔ [تهذيب التهذيب 153/6، المغني فى الضعفاء 521/2، ميزان الاعتدال 390/4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”ضعیف ہے۔“ [تقريب مع تحرير 91/4]
اسی طرح اس کا استاذ ایوب بن نہیک الحلمی مولیٰ آل سعد بن ابی وقاص بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اسے ابوحاتم وغیرہ نے ضعیف اور ازدی نے متروک قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال 294/1]
امام ذہبی” [المغني فى الضعفاء 151/1] میں لکھتے ہیں : ”ترکوہ“ محدثین نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
ابن ابی حاتم رازی فرماتے ہیں :
«سمعت ابا زرعة يقول : لا احدث عن ايوب بن نهيك لم يقرأ علينا حديثه وقال هو منكر الحديث » [الجرح والتعدل 259/2]
”میں نے ابوزرعہ رازی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں ایوب بن نہیک سے روایت بیان نہیں کرتا اس کی روایت انہوں نے ہم پر نہیں پڑہی اور فرمایا وہ منکر الحدیث ہے، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اب رہا اس کا موکوف ہونا تو یہ موقوفا“ بھی صحیح ثابت نہیں۔ امام بیہقی سے صاحب مشکوۃ نے جو اس کا موقافاً صحیح ہونا نقل کیا ہے، تو امام صاحب نے یہ فرمایا کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث بجائے مرفوع کے موقوف ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس کی موقوف سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ روایت [السنن الكبري بيهقي 56/4] میں «عبدالرحمٰن بن العلاء بن الجلاج عن ابيه» کے طریق سے مروی ہے کہ العلاء بن اللجلاج نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب تم مجھے میری قبر میں داخل کرنے لگو تو مجھے لحد میں رکھو اور کہو، «باسم الله وعلي سنت رسول الله صلى الله عليه وسلم» اور میرے اوپر مٹی ڈالو اور میرے میرے سر کے نزدیک سورہ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھو، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ اسے مستحب سمجھتے تھے۔“ علامہ زیلعی نے ”نصب الرایہ (302/2)“ میں اور علامہ ہیثمی نے ”مجمع الزوائد (44/3) (4243)“ میں طبرانی کبیر (220/29) کے حوالے سے یہ روایت درج کی ہے اور اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں :
«فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذالك »
میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنی“ اس پر علامہ زیلعی نے سکوت اختیار کیا ہے اور علامہ نے کہا ہے : «رجاله موثقون» اس کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے، لیکن یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن اللجلاج شامی مجہول ہے، اس سے مبشر بن اسمائیل الحیلہی کے سوا کسی نے روایت نہیں کی (میزان الاعتدل258/9)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب (3975) میں اسے مقبول لکھا ہے۔
اور شعیب ارناؤط نے تحریر تقریب التھذیب (342/7) میں کہا ہے کہ یہ مجہول ہے اور اسے روایت کرنے میں مبشر بن اسماعیل الحلمی متفرد ہے۔
شیخ البانی مشکوٰۃ (223/2) تحقیق ثانی میں رقمطراز ہیں :
«والموقوف لا يصح اسناده فيه عبدالرحمٰن بن العلاء بن الجلاج وهو مجهول»
”موقوف کی سند صحیح نہیں، اس میں عبدالرحمٰن بن العلاء بن الجلاج مجہول ہے۔“
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس روایت کی بنیاد پر سورۂ بقرہ کے پہلے اور آخری رکوع کا پڑھنا رواج ہوا ہے وہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے اس کی کوئی صحیح سند موجود ہے اور صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« لا تجعلوا بيو تكم مقا بر ان الشيطان ينفر من البيت تقر افيه سورة البقرة » [مسلم، كتاب صلوة المسافرين : باب استحباب صلوة النافلة فى بيته و جوازها فى المسجد780]
”اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ یقیناًً شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں میں سورۂ بقرہ پڑھی جائے نہ کہ قبرستان میں۔
یہ حدیث بالکل اسی طرح ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«صلوا فى بيوتكم ولا تتخذوها قبورا » [مسلم، كتاب الصلاة المسافين وقصرها : باب استحباب صلاة النافلة فى بيته وجوازها فى المسجد 777]
”اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور انہیں قبریں نہ بناؤ۔“
معلوم ہوا جیسے قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی اسی طرح قرآن بھی نہیں پڑھا جائے گا، لہٰذا مذکورہ رواج پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس تحریر کو اب تک 5 بار پڑھا جا چکا ہے۔