میت کی طرف سے صدقہ کرنا

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

سوال: بھائی کا اپنے فوت شدہ بھائی کی طرف سے صدقہ کرنے کا کیا حکم ہے اور کیا صدقہ کا ثواب میت کو پہنچے گا؟
جواب: ایسا کرنا سنت اور مستحب ہے ، اور یہ حکم صرف بھائی کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ ہر قریبی رشتہ دار اور ہر مسلمان صدقہ کر سکتا ہے ، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث [2756] میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أمى توفيت وانا غائب عنها أينفعها شيء إن تصدقت به عنها؟ قال: نعم [صحيح البخاري ، كتاب الوصايا باب 27/20/15]
”اے اللہ کے رسول ! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور میں اس کے پاس موجود نہ تھا ، تو اگر میں اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو فائدہ ہوگا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں !“
نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث [2760] میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ:
ان رجلا قال: يا رسول الله إن أمی افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت ، أفا تصدق عنها؟ قال: نعم ، تصدق عنها [صحيح البخاري ، كتاب الوصايا باب 19]
”ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ کو اچانک موت آگئی اور وہ کچھ بول نہ سکی ، میرا خیال ہے کہ اگر وہ کچھ بولنے کا موقع پاتی تو ضرور صدقہ کرتی تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کردوں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ، تم ان کی طرف سے صدقہ کرو !“
مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ صدقہ کا اجر و ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے ، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص میت کے حق میں دعا کرے تو یہ میت کے لیے نفع بخش ہے ، خواہ یہ دعا نماز جنازہ پڑھتے وقت کی جائے ، یا دفن کرنے کے بعد ، یا بوقت زیارت ، یا غائبانہ طور پر ، بہر صورت میت تک دعاؤں کا ثواب پہنچ جاتا ہے ۔ عمومی دلائل اس حکم کو واضح کرتے ہیں ۔
اور جس صدقہ کا ثواب میت تک پہنچتا ہے اس میں ایک قربانی ہے ، خواہ میت نے وصیت کی ہو یا زندہ نے اپنی خوشی سے میت کی طرف سے قربانی کی ہو ، بہر حال میت کے لیے قربانی کا عظیم اجر ہے ، جیسا کہ احادیث میں آیا ہے لہٰذا جب قربانی کی نیت میت کے لیے کی جائے تو اس کا اجر میت کو پہنچ جاتا ہے ۔
جن نیک کاموں کا اجر میت کے لیے ہدیہ کیا جا سکتا ہے ان میں حج و عمرہ بھی شامل ہے ، جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
حج عن أبيك واعتمر [سنن الترمذى كتاب الحج ، باب 87 ح 930 و سنن ابي داؤد كتاب المناسك ، باب الرجل يحج عن غيره ، ح 1810]
”اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو ۔“
جہاں تک قرآن خوانی اذکار و وظائف ، نماز ، روزہ ، اعتکاف یا اس جیسے جسمانی یا زبانی اعمال کے ذریعے ثواب پہنچانے کا معاملہ ہے تو اس میں اختلاف بہت مشہور ہے ، بعض اہل علم نے اس طرح ثواب پہنچانے سے روکا ہے ۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ [النجم: 39]
”اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اُس نے کی ۔“
لیکن جمہور اہل علم نے اجازت دی ہے ۔ فقہاء کا کہنا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب متعلقہ شخص کو مل کر رہے گا خواہ مسلمان نے ثواب زندہ کے نام سے بھیجا ہو یا میت کے نام پر ۔
اور یہ اس وجہ سے کہ ثواب کا ہدیہ پانے والے نے یہ ثواب اپنے حسنِ سلوک یا رشتہ داری کی بنیاد پر حاصل کیا ہے ۔ صورت معاملہ یوں ہے کہ ثواب ہدیہ کرنے والے نے اپنی نیکی اللہ پاک کی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر کی تھی ، نیز اس کو یہ بھی علم تھا کہ اس نیکی کا ثواب اس کو اللہ کی طرف سے ملے گا لہٰذا اس نے اپنی نیکی کا ثواب اپنے کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کے نام پر ہدیہ کر دیا ، بنابریں اس نیکی کا اجر و ثواب متعلقہ فرد تک پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی ۔ واللہ اعلم !

اس تحریر کو اب تک 102 بار پڑھا جا چکا ہے۔