مسلمان کو چہرے پر مارنا منع ہے

ظلم کا انجام
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏الظلم ظلمات يوم القيامة [متفق عليه]
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ظلم، قیامت کے کئی اندھیرے ہو گا۔“ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 2447] ، [مسلم البر والصلة /57] دیکھئے تحفة الاشراف [458/5]
فوائد :
➊ اکثر اہل لغت اور علماء کے نزدیک ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا۔ مثلاً کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ علاوہ ازیں حق بات جو دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح صرف اور صرف ایک ہوتی ہے۔ اس سے تجاوز کو بھی ظلم کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ۔ اس لئے بڑا گناہ ہو یا چھوٹا سب پر ظلم کا لفظ بولا جاتا ہے۔ دیکھئے آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہیں ظالم کہا گیا اور ابلیس کو بھی ظالم کہا گیا۔ حالانکہ دونوں میں بے حد فرق ہے۔ [مفردات راغب ]
ظلم کی تین قسمیں ہیں :
الف :
اللہ تعالیٰ کے متعلق ظلم :
اس کی سب سے بڑی قسمیں کفر، شرک اور نفاق ہے۔ کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے۔ اسی لئے الله تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [31-لقمان:13]
”یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“
اور فرمایا :
وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [11-هود:18]
”اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبردار اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔ “

ب :
لوگوں پر ظلم : ان آیات میں یہی مراد ہے :
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا [42-الشورى:40]
”برائی کا بدلہ برائی ہے اس جیسی۔“
– – الى قولہ – –
إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ [42-الشورى:40]
”یقیناً وہ ظالموں سے محبت نہیں رکھتا۔“
اور فرمایا :
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [42-الشورى:42]
”صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔“
لوگوں پر ظلم خواہ ان کی جان پر ہو یا مال پر یا عزت پر ہر طرح حرام ہے۔

ج :
اپنی جان پر ظلم :
ان آیات میں یہی مراد ہے :
فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ [35-فاطر:32 ]
”پھر ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔“
اور فرمایا :
ظَلَمْتُ نَفْسِ [28-القصص:16]
”میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔“
اور فرمایا :
فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ [2-البقرة:35]
” پس تم دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔“
ان تینوں قسموں میں درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ [2-البقرة:57] ، [7-الأعراف:160]
”اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کیا کرتے تھے۔“
➌ ظلم قیامت کے دن کئی اند ھیرے ہو گا۔ اندھیروں سے مراد یا تو حقیقی اندھیرے ہیں یعنی ظالم کو قیامت کے دن روشنی نصیب نہیں ہو گی جس سے وہ صحیح راستہ معلوم کر سکے جبکہ اہل ایمان کا حال یہ ہو گا کہ :
نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ [ 66-التحريم:8]
”ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا۔“
یا قیامت کے دن کی سختیاں مراد ہیں جیسا کہ :
قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [6-الأنعام:63]
”کہہ دیجئے کون ہے جو تمہیں خشکیوں اور سمندروں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔“
اس آیت میں مذکور ظلمات کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد سختیاں ہیں۔ یا قیامت کے دن ظلم کی جو سزائیں ملیں گی وہ مراد ہیں۔ [سبل ]
➍ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا کیونکہ اگر وہ کفر و شرک کی صورت میں ہے تو اس کے مرتکب پر جنت حرام ہے :
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ [5-المائدة:72]
”پکی بات یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔“
اور اگر بندے پر ظلم ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من كانت عنده مظلمة لاخيه فليتحلله منها فإنه ليس ثم دينار ولا درهم من قبل ان يؤخذ لاخيه من حسناته فإن لم يكن له حسنات اخذ من سيئات اخيه فطرحت عليه [بخاري 6534، 2449 ]
”جس شخص نے اپنے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہو وہ اس سے معاف کروا لے کیونکہ وہاں درهم و دینار نہیں اس سے پہلے پہلے کہ اس کے بھائی کے لئے اس کی نیکیاں لے لی جائیں اگر نیکیاں نہ ہوں تو اس کے بھائی کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں۔“
اب ظاہر ہے جب نیکیاں چھن جائیں گی تو نور کہاں سے آئے گا پھر تو اندھیرے ہی اندھیرے رہ جائیں گے۔

ظلم اور کنجوسی سے بچو
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن جابر رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏اتقوا الظلم فإن الظلم ظلمات يوم القيامة واتقوا الشح فإنه اهلك من كان قبلكم [اخرجه مسلم]
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا : ” ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا اور حرص سے بھری ہوئی کنجوسی سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلوں کو برباد کر دیا۔ “ ( اسے مسلم نے روایت کیا)
تخریج : [مسلم البر والصلة 56]
دیکھئے : تحفة الاشراف [218/2]
فوائد :
➊ شدید حرص جس کے ساتھ کنجوسی بھی ہو اور وہ آدمی کی عادت بن چکی ہو۔ اَلشُّحُّ “ کہلاتی ہے۔
➋ صحیح مسلم میں پوری حدیث اس طرح ہے :۔
واتقوا الشح، فإن الشح أهلك من كان قبلكم، حملهم على أن سفكوا دماءهم، واستحلوا محارمهم.
”اور حرص سے بھری ہوئی شدید بخیلی سے بچو کیونکہ اس شدید بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ اس نے ابھار کر انہیں اس بات پر آمادہ کر دیا کہ انہوں نے اپنے خون بہا دیئے اور اپنے آپ پر حرام چیزیں حلال کر لیں۔ “
شدید بخل اور شدید حرص کے نتیجے میں جب وہ دوسروں کے اموال و حقوق غصب کرنے لگے تو ہر طرف فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑے پھیل گئے پھر نہ اپنوں کی پروا رہی نہ غیروں کی، نہ حلال کی تمیز رہی نہ حرام کی۔ نتیجہ دنیا میں بھی بربادی اور آخرت میں بھی تباہی کی صورت میں نکلا۔
➌ الله تعالیٰ نے بخل اور حرص کی مذمت فرمائی ہے
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [59-الحشر:9]
” جو شخص اپنے نفس کی شدید حرص سے بچا لیا گیا تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔“
اور فرمایا :۔
وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ [47-محمد:38]
” اور جو شخص بخل کرے اس کے بخل کا وبال خود اسی پر ہے۔ “
اور فرمایا
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ [3-آل عمران:180]
” وہ لوگ جو اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو انہیں اللہ نے دی ہے۔ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ایسا کرنا ان کے لئے بہتر ہے بلکہ وہ ان کے لئے بہت ہی برا ہے عنقریب قیامت کے دن ان کے گلے میں اس چیز کا طوق ڈالا جائے گا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
شر ما فى رجل شح هالع وجبن خالع [ابوداؤد عن ابي هريرة 2511، صحيح ابن داؤد 2192 ]
” آدمی میں بدترین خصلت سخت گھبراہٹ میں ڈال دینے والی حد سے بڑھی کنجوسی ہے اور دل نکال دینے والی بزدلی ہے۔“
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے :
اللهم إني اعوذ بك من الجبن، ‏‏‏‏‏‏واعوذ بك من البخل، ‏‏‏‏‏‏واعوذ بك من ان ارد إلى ارذل العمر، ‏‏‏‏‏‏واعوذ بك من فتنة الدنيا وعذاب القبر [ بخاري عن سعد 6374 ]
”اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نکمی عمر سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور قبر کے عذاب ہے۔ “
➎ بخل کیا ہے ؟ عام طور پر ہر آدمی اپنے آپ کو سخی اور دوسرے کو بخیل سمجھتا ہے اور بعض اوقات آدمی ایک کام کرتا ہے تو کوئی اسے بخل قرار دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ بخل نہیں ہے۔ تو وہ بخل جو باعث ہلاکت ہے اس کا ضابطہ کیا ہے ؟
صاحب سبل فرماتے ہیں کہ سخاوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو چیزیں واجب فرمائی ہیں انہیں ادا کرے۔ واجب کی دو قسمیں ہیں ایک واجب شرعی مثلاً زکوٰة، ان لوگوں کے اخراجات جن کا نفقہ اس کے ذمے ہے اور دوسرے مقامات جہاں اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے دوسرا وہ واجب جو وعدے کی وجہ سے ضروری ٹھہرتا ہے یا انسانی شرافت اور مروت اس کا تقاضا کرتی ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچے وہ بخیل ہے اور جو شخص اللہ کے حقوق مثلاً زکوٰة اور اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ خوش دلی سے ادا کرے اور لوگوں سے معاملات میں معمولی معمولی چیزوں پر تنگدلی اور باریک پڑتال سے بچ کر فراخدلی کا معاملہ کرے یہ سخی ہے۔
➏ بخل کی بیماری کے دو سبب ہیں۔ پہلا ان خواہشات کی محبت جو مال اور میں امیدوں کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں۔
دوسرا خود مال سے محبت ہو جانا کہ یہ میرے پاس رہے۔ مثلاً روپے پیسے سے محبت تو اس لئے تھی کہ اس کے ذریعے ضروریات اور خواہشات پوری ہوتی ہیں۔ پھر جب معاملہ اور بڑھا تو خود روپے پیسے سے محبت ہو گئی ضرورتیں اور خواہشیں بھول گئیں روپیہ خود ضرورت اور خواہش بن گیا۔ یہ آدمی کے لئے انتہائی بدبختی کی بات ہے کیونکہ جب ضروریات میں خرچ ہی نہیں کرتا تو سونے اور پتھر میں کیا فرق ہے۔
➐ حرص اور بخل کا علاج یہ ہے کہ خواہشات کی محبت سے جان چھڑانے کے لئے اتنے پر قانع اور راضی ہو جائے جو اللہ نے اسے دیا ہے اور اسی پر صبر کرے۔ لمبی امیدوں کا علاج یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے اپنے ساتھیوں کی موت کی طرف توجہ کرے اور دیکھے کہ انہوں نے مال جمع کرنے مکان اور جائیداد بنانے میں کتنی محنت کی پھر کس طرح وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
بعض لوگ اپنے بچوں کے لئے مال میں بخل کرتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے وہی انہیں رزق دے گا۔ خود اپنے آپ کو دیکھے بعض اوقات والدین اس کے لئے ایک پیسہ چھوڑ کر نہیں جاتے۔ پھر کون ہے جو اسے اس مقام پر پہنچاتا ہے۔
بخل کے علاج کے لئے قرآن مجید کی وہ آیات جو بخل سے روکتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اللہ کے محبوب بندوں کی زندگی کو دیکھے۔ پھر بخل کے انجام پر غور کرے۔ کیونکہ جو بھی مال جمع کرتا ہے لازماً آفات اور مصیبتوں کا نشانہ بنتا ہے۔
غرض سخاوت ہی دنیا اور آخرت میں انسان کے لئے خیروبرکت کا باعث ہے بشرطیکہ حداعتدال میں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا [25-الفرقان:67]
”اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں نہ بخیلی کرتے ہیں اور ان کا خرچ اسی کے درمیان پورا پورا ہو تا ہے۔“

شرک اصغر – ریا
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن محمود بن لبيد رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن اخوف ما اخاف عليكم الشرك الاصغر: الرياء .‏‏‏‏ [اخرجه احمد بإسناد حسن]
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سب سے زیادہ خوف والی چیز جس سے میں تم پر ڈرتا ہوں چھوٹا شرک ریا یعنی دکھاوا ہے۔“ (اسے احمد نے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے )
تخريج : اسناد حسن [ مسند احمد 428/5 و 429 ]
میں پوری حدیث اس طرح ہے :
إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر، قالوا : يا رسول الله و ما الشرك الأصغر ؟ قال الرياء، ان الله تبارك وتعاليٰ يقول يوم تحازي العباد باعمالهم: اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون فى الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء ؟!
”سب سے زیادہ خوف والی چیز جس کا مجھے تم پر ڈر ہے شرک اصغر ہے“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! اور شرک اصغر کیا ہے ؟ فرمایا : ”دکھاوا؟ جس دن بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اس دن اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا جاؤ ان لوگوں کے پاس جنہیں دکھانے کے لئے تم عمل کرتے تھے اور دیکھو تمہیں ان کے ہاں کوئی بدلہ ملتا ہے ؟ “
البانی نے فرمایا : ”یہ اسناد جید ہے اس کے تمام راوی ثقہ اور شیخین کے راوی ہیں البتہ محمود بن لبید صرف مسلم کے راوی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) نے فرمایا : ”وہ صغیر صحابی ہیں ان کی اکثر روایت صحابہ سے ہے۔ میں کہتا ہوں : مسند میں ان سے کئی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوئی ہیں۔ انتھی۔ [سلسلة الاحاديث الصحيحة 951 ]
مفردات :
الرياء باب مفاعلۃ کا مصدر ہے۔ راءي يراءي مراءاة ورياء جیسا کہ قاتل يقاتل مقاتلة وقتالا یہ مہموز العین ہے کیونکہ یہ رویۃ سے مشتق ہے تخفیف کر کے ہمزہ کو یاء سے بدل کر پڑھنا بھی درست ہے یعنی ریاء۔
لغت میں اس کا معنی یہ ہے کہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرے جیسا وہ حقیقت میں نہیں ہے اور شروع میں یہ ہے کہ غیراللہ کو مدنظر رکھ کر کوئی نیکی کرے یا کسی گناہ سے اجتناب کرے یا کوئی دنیوی مقصد حاصل کرنے کے لئے اپنا عمل لوگوں کو بتائے یا اس مقصد کے لئے کرے کہ لوگوں کو اس کا عمل معلوم ہو۔ [سبل السلام ]
فوائد :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ریا کی مذمت کی ہے اور اسے منافقین کی صفت قرار دیا ہے۔
چنانچہ فرمایا :
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا [4-النساء:142]
” منافقین اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکا دینے والا ہے اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سست کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کے لئے دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر کم۔ “
اور فرمایا :
فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا [18-الكهف:110]
”تو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو وہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبارت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ “
یہاں عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اور رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت مخلوق میں سے کسی کو دکھانے کے لئے نہ کرے اپنے عمل کو ریا سے برباد نہ کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ٭ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ٭ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ [107-الماعون:4]
” پس ویل ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔ “
حدیث میں بھی ریا کے متعلق بہت وعید آئی ہے ریا کار درحقیقت غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجده کریں گے صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو دنیا میں ریا اور سمعه (دکھانے اور سنانے ) کے لئے سجدہ کرتے تھے۔ وہ سجدہ کرنے لگیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ بن جائے گی (سجدہ نہیں کر سکیں گے ) [بخاري كتاب التفسير باب يوم يكشف عن ساق ح4919 ]
➋ حدیث میں ریا کو شرک اصغر کہا گیا ہے اس سے ریا کی قباحت ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ [4-النساء:47]
” اللہ تعالیٰ یہ بات ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا۔ “
ہمیں ہر کام صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہیے اور اسی بات پر قانع رہنا چاہئے کہ ہمارا پروردگار جس کے لئے ہم ساری جدوجہد کر رہے ہیں ہمیں دیکھ رہا ہے کسی دوسرے سے نہ کسی فائدے کی امید ہے نہ نقصان کا خوف اور اعمال میں اخفاء کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے تاکہ ریاء سے بچ سکیں۔
ریا کی چند صورتیں ہیں :
پہلی یہ کہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے نیکی کا کوئی عمل کرے اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت ہی نہ ہو۔ مثلا نماز صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے پڑھے جیسا کہ منافقین پڑھتے تھے۔ صدقہ صرف اس لئے کرے کہ اسے بخیل نہ کھا جائے۔ یہ ریاء کی بد ترین صورت ہے اور یہ حقیقت میں مخلوق کی عبادت اور اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
دوسری یہ کہ اصل مقصد بندوں کو دکھانا اور ان سے کچھ حاصل کرنا ہو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت بھی ہو یا بندوں کو اور اللہ کو دکھانے کا ارادہ یکساں ہو یہ عبادت بھی غیر اللہ کو شریک بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
انا اغني الشركاء عن الشرك من عمل عملا اشرك فيه معي غيري تركته وشركه [مسلم عن ابي هريره/الزهد46]

” میں تمام حصہ داروں میں حصے سے زیادہ غنی ہوں جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی حصہ دار بنائے میں اس کو اور اس کے حصے کو چھوڑ دیتا ہوں۔ “
ابن ماجہ میں یہ روایت ان الفاظ سے آئی ہے :
قال الله عزوجل : انا اغني الشركاء عن الشرك فمن عمل لي عملا اشرك فيه غيري فانا منه بري وهو للذي اشرك [ صحيح ابن ماجه / الزهد 3387/21]
”میں تمام حصے داروں میں حصے سے زیادہ مستغنی ہوں سو جو شخص میرے لئے کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے غیر کو حصہ دار بنائے تو میں اس سے بری ہوں اور وہ اسی کے لئے ہے جسے اس نے حصہ دار بنایا۔ “
➍ بعض اوقات آدمی صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت سے کوئی عمل کرتا ہے۔ مگر لوگوں کو اس لئے دکھا کر کرتا ہے کہ وہ بھی اس پر عمل کریں تو یہ جائز ہے بلکہ اس کو دیکھے کر عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی وہ شریک ہو گا اگرچہ چھپا کر کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کا امکان ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ [2-البقرة:271 ]
”اگر تم صدقات کو ظاہر کرو تو وہ بہت ہی اچھا ہے اور اگر انہیں چھپاؤ اور فقراء کو دو تو وہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے۔“
➎ بعض اوقات آدمی خالص اللہ کے لئے کوئی عمل کرتا ہے، مگر کسی بزرگ مثلاً استاد، والد یا کسی نیک آدمی کے سامنے اس لئے کرتا ہے کہ وہ خوش ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اس لئے کہ ان کے خوش ہونے پر بھی اللہ تعالیٰ خوش ہو گا۔ خود ان سے نہ کسی صلے کی نیت ہو نہ کسی دنیاوی فائدے کی تو یہ ریا نہیں بلکہ انہیں خوش کرنے میں بھی یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [ 9-التوبة:99 ]
” بعض اعرابی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی خرچ کی ہوئی چیزوں کو اللہ کے ہاں قریب ہونے کا اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں یاد رکھو یقیناً یہ ان کے لئے قریب ہونے کا ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ “
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خوب مزین کر کے قرآن پڑھنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ریا قرار نہیں دیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی آواز بہت ہی اچھی تھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے ابوموسیٰ یقيناً تمہیں آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے یعنی تمہیں داؤد علیہ السلام جیسی خوبصورت اور سریلی آواز دی گئی ہے جس کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے۔ [بخاري فضائل القرآن 5048 ]
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”کاش تم مجھے اس وقت دیکھتے جب گزشتہ رات کان لگا کر میں تمہاری قرأت سن رہا تھا یقیناً تمہیں آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے۔“
ابویعلیٰ نے سعید بن ابی بردہ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مزید مفصل بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے وہ اپنے گھر میں قرآن پڑھ رہے تھے دونوں کھڑے ہو کر ان کی قرأت کان لگا کر سنے گئے۔ پھر چلے گئے صبح ہوئی تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے ملے اور فرمایا : ”اے ابوموسیٰ کل رات میں تمہارے پاس سے گزرا اور میرے ساتھ عائشہ بھی تھیں تم اس وقت اپنے گھر میں قرآن پڑھ رہے تھے ہم نے کھڑے ہو کر تمہارا قرآن سنا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
اما اني يا رسول الله ! لو علمت لحبرت لك تحبيرا
”یا رسول اللہ ! اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں آپ کی خاطر قرآن کو بہت ہی مزین کر کے پڑھتا۔ “ [مسند ابويعليٰ 401/6 حديث 7242 ]
ابن سعد نے انس رضی اللہ عنہ سے ایسی سند کے ساتھ جو مسلم کی شرط پر ہے روایت کیا ہے کہ ایک رات ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے ان کی آواز سنی۔ ان کی آواز بہت میٹھی تھی۔ تو وہ کھڑی ہو گئیں اور کان لگا کر سننے لگیں۔ جب صبح ہوئی تو انہیں یہ بات بتائی گئی کہنے لگے۔ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو ان کے لئے اسے خوب مزین کر کے پڑھتا۔
رویانی نے یہی روایت مالك بن مغول عن عبد الله بن بريدة عن ابيه کی سند سے سعید بن ابی بردۃ (یعنی ابویعلیٰ والی روایت) کی طرح بیان کی ہے اس میں ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا:
لو علمت ان رسول الله يستمع لقراءتي لحبرتها تحبيرا
” اگر مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قرأت پر کان لگائے ہوئے ہیں تو میں اسے خوب مزین کر کے پڑھتا۔ “
اس روایت کا اصل احمد کے ہاں موجود ہے۔ [فتح الباري شرح حديث 5048 ]
➏ بعض اوقات آدمی نیکی کا کام کرنے والوں کے ساتھ مل کر زیادہ خوش دلی سے عبادت کر لیتا ہے اسے خیال گزرتا ہے کہ یہ تو ریا ہے۔ ممکن ہے کبھی ایسا بھی ہو جب اس کی نیت خراب ہو جائے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کے دل میں نیکی کی رغبت ہوتی ہے مگر مختلف مصروفیات دنیاوی خواہشات اور غفلتوں کی وجہ سے نیکی نہیں کر پاتا جب دوسروں کو نیکی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو شوق بھڑک اٹھتا ہے غفلت کا پردہ اترتا ہے اور نیکی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
جب وہ صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کے لئے نیکی کر رہا ہے تو اسے ریا نہیں کہا جا سکتا۔ جماعت کے ساتھ مل کر رہنے میں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں دوسرے فوائد کے علاوہ یہ فائدہ بھی ہے کہ اس سے نیکیوں میں مقابلے کا جذبہ برقرار رہتا ہے اور آدمی سست نہیں ہوتا۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ [2-البقرة:148] ’’پس تم نیکیوں میں سبقت کرو۔ “
➐ اگر کوئی شخص خالص اللہ کے لئے عمل کرے مگر الله تعالیٰ اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے وہ اس کی تعریف کریں تو یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے اگر اس پر اسے خوشی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی اللہ کے لئے نیک عمل کرتا ہے اور اس پر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تلك عاجل بشري المومن ”یہ مومن کو جلدی مل جانے والی بشارت ہے۔ “ [مسلم حديث نمبر 2642]

منافق کی علامات
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا اؤتمن خان ‏‏‏‏ متفق عليه ولهما من حديث عبد الله بن عمرو: ‏‏‏‏وإذا خاصم فجر .
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”منافق کی نشانیاں تین ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کو امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے۔“ [بخاري و مسلم ]
”اور ان دونوں کے لئے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے اور جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔“
تخريج : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بخاری [33] ، مسلم الایمان [59] وغيرهما عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث بخاری [34] ، مسلم (الایمان [58] و غیرھا صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت اس طرح ہے :
آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم انه مسلم
” منافق کی نشانیاں تین ہیں خواہ وہ روزے رکھے نماز پڑھے اور گمان رکھے کہ وہ مسلم ہے۔ “ [صحيح مسلم 213]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ صحیح بخاری میں اس طرح ہیں :
اربع من كن فيه كان منافقا او كانت فيه خصلة من اربعة كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها : إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر
” چار چیزیں ہیں جس شخص میں وہ ہوں خالص منافق ہوتا ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں سے کوئی ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے جب اسے امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب عہد کرے تو اسے توڑ ڈالے اور جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔ “ [صحيح بخاري 2459، صحيح مسلم 210]
مفردات :
مُنَافِقٌ نَافَقاءُ سے مشتق ہے جو جنگلی چوہے (یربوع) کے بل کا ایک منہ ہوتا ہے اور وہ اسے اس طرح بناتا ہے کہ اس جگہ مٹی کی صرف اتنی تہہ رہنے دیتا ہے کہ سر مارے تو کھل جائے۔ اس منہ کو وہ چھپا کر رکھتا ہے۔ دوسرا منہ ظاہر کر دیتا ہے۔ منافق بھی چونکہ اپنا کفر چھپاتا اور ایمان ظاہر کرتا ہے اس لئے اس کا یہ نام رکھا گیا۔ [توضيح ]
آيَةٌ اصل میں اَيَيةٌ تھا یاء متحرک اور اس کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا۔
اُوْتُمِنَ باب افتعال سے ماضی مجمول ہے۔ اِئْتَمَنَهُ اس نے اس کو امین سمجھا۔

فوائد :
➊ نفاق کا اصل یہ ہے کہ منافقت کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے دل میں کفر کے باوجود ایمان کا دعوی کرتا ہے۔ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ”اور اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔ “ [المنافقون : 1]
معلوم ہوا کہ نفاق کی اصل بنیاد جھوٹ ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ [16-النحل:105 ]
”جھوٹ صرف وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔“
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے۔
➌ ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما دونوں کی روایت کو جمع کریں تو منافق کی پانچ علامتیں بنتی ہیں۔
① بات کرے تو جھوٹ بولے۔
② وعدے کرے تو اس کا خلاف کرے۔
③ عہد کرے تو توڑ ڈالے۔
④ امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے۔
⑤ جھگڑے تو بد زبانی کرے۔
اگر غور کریں تو جھگڑتے وقت بدزبانی کرنا پہلی علامت یعنی بات کرے تو جھوٹ بولے “ میں شامل ہے اور اس کی ہی ایک خاص صورت ہے کیونکہ عموماً جھوٹ باندھنے کے بغیر بد زبانی مشکل ہے۔ عہد کرے تو توڑ ڈالے دوسری علامت یعنی وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے میں شامل ہے۔ اگرچہ عہد وعده کی بہ نسبت زیادہ پختہ ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں قسم بھی ہوتی ہے مگر بنیادی طور پر دونوں ملتے جلتے ہیں۔
اب اصل علامتیں تین ہی رہ گئی جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ ان تینوں علامتوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اس کی دیانت ہر طرح سے ختم ہو گئی ہے۔ کیونکہ دیانت تین طرح کی ہوتی ہے۔ قول میں دیانت فعل میں دیانت اور نیت میں دیانت۔
”جب بات کرے تو جھوٹ بولے : “
یہ زبان کی بددیانتی ہے لڑتے وقت بد زبانی بھی زبان کی بد دیانتی ہے۔
” جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے۔“
یہ نیت کی بد دیانتی کا اور جھوٹی نیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ آدمی گناہ گار اس وقت ہے جب وعده یا عہد کرتے وقت اس کی نیت ہی وفا کی نہ ہو یا بعد میں وفا کی نیت پر قائم نہ رہے۔ اگر نیت وعدہ وفا کرنے کی ہے مگر حالات کے ہاتھوں بے اختیار ہونے کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کر سکا تو اس پر مواخذہ نہیں۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا [2-البقرة:286]
” اللہ تعالیٰ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق۔“
”جب اسے امین سمجھا جائے تو خیانت کرے۔“
یہ فعل کی بد دیانتی اور عملی جھوٹ ہے۔ گو اس کے ساتھ زبان اور نیت کی بد دیانتی بھی شامل ہو جاتی ہے۔
④ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ علامتیں تو بعض اوقات مسلمان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ تو کیا اسے منافق قرار دیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب کئی طریقے سے دیا گیا ہے۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اعتقادی نفاق یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا ایمان ہی نہیں صرف زبانی کلمہ پڑھا ہے۔ لوگ اسے مسلمان سمجھ رہے ہیں حالانکہ وہ دل سے مسلمان ہی نہیں۔ یہ نفاق اکبر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی نفاق والوں کو کافر قرار دیا گیا اور انہیں آگ کے درک اسفل میں ہونے کی وعید سنائی گئی۔ اب بھی کئی کمیونسٹ، سیکولر، ڈیمو کریٹ دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتے صرف مسلمان معاشرے میں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
دوسرا عملی نفاق کہ انسان ظاہر یہ کرے کہ وہ اچھے عمل کا مالک ہے مگر حقیقت میں اچھے عمل والا نہ ہو۔ اس نفاق کی بنیادی چیزیں اس حدیث میں ذکر کی گئی ہیں کہ جب ہی تمام جمع ہو جائیں تو عمل سرے سے ہی فاسد ہو جاتا ہے یعنی بات کرتے وقت ظاہر ہ کر رہا ہے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس کا باطن اس کے خلاف ہے اور وہ خلاف واقع بات کر رہا ہے۔
ظاہر اس کا یہ ہے کہ لوگ اسے امین سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں وہ امین نہیں وعدہ کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کا تاثر دے رہا ہے مگر نیت پورا کرنے کی نہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں عملی نفاق کی علامات ذکر کی گئی ہیں اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ فرمایا جس میں ایک علامت ہو گی اس میں نفاق کی ایک علامت ہو گی اور سب ہوں گی تو خالص منافق ہو گا۔ اعتقادی نفاق والے میں یہ درجہ بندی نہیں ہوتی وہ تو اللہ کے ہاں سرے سے ہی کافر ہے۔
⑤ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آدھ دفعہ ان گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھے تو آدمی منافق ہو جاتا ہے کیونکہ مومن سے بھی گناہ سرزد ہو سکتے ہیں مقصد یہ ہے کہ یہ گناہ اس کی عادت بن جائیں روز مرہ کا وطیرہ ہی یہ ہو تو وہ منافق ہے۔ جب یہ علامتیں پوری جمع ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں کہ اس کا اللہ اور اس کے رسول پر دل سے ایمان ہو۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے : اس کی عادت ہر بات میں جھوٹ کی ہو جائے کوئی وعدہ پورا نہ کرے کسی امانت میں امین نہ رہے تو صرف عملی ہی نہیں اعتقادی منافق بھی ہو گا کیونکہ بات کرنے اور وعدہ کرنے میں ایمان کا اقرار بھی شامل ہے اس میں کبھی جھوٹ بولے تو یہ صرف عملی منافق کیسے رہا۔ جھوٹ تو اہل ایمان کا شیوہ ہی نہیں سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ [16-النحل:105 ]
”جھوٹ صرف وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔“
اور ہر بات پر عمل اور نیت میں جھوٹ ہی جھوٹ ہو تو ایمان کیسے باقی رہ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار [البخاري 6094 ]
” جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ حق سے ہٹ جانے کی طرف لے جاتا ہے اور حق سے ہٹ جانا آگ کی طرف لے جاتا ہے۔“

مسلمان کو گالی دینے اور اس سے لڑنے پر وعید
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏سباب المسلم فسوق وقتاله كفر .‏‏‏‏ [متفق عليه]
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی ) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ “
[متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 6044] ، [مسلم، الايمان] وغیرھما،۔ دیکھئے تحفۃ الاشراف [35/7، 55/7، 39/7، 129/7، 314/7، 349/7]
مفردات :
سِبَاب، سَبَّ يَسُبُّ (نَصَرَ يَنْصُرُ) کا مصدر سَبٌ اور سِبَابٌ دونوں طرح آتا ہے گالی دینا بعض نے فرمایا یہاں سباب باب مفاعلہ میں سے ہے یعنی دونوں جانب سے گالی گلوچ کرنا۔ اَلسُّبَّةُ جسے گالی دی جائے دبر کو بھی سُبَّۃ کہا جاتا ہے کیونکہ گالی دیتے وقت اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ابراہیم حربی نے فرمایا : سباب سب سے زیادہ سخت اور تکلیف ده گالی کو کہتے ہیں کیونکہ سباب کا مطلب ہے کہ کسی آدمی کے ان عیوب کا ذکر کیا جائے جو اس میں ہیں اور ان کا بھی جو اس میں نہیں ہیں۔
قِتَال – باب مفاعلہ کا مصدر ہے ایک دوسرے سے لڑنا۔
فُسُوْق . نَصَرَ يَنْصُرُ کا مصدر ہے۔ فَسَقَ يَفْسُقُ فِسْقًا وَ فُسُوْقًا لغت میں اس کا معنی ”نکلنا ہے“ اور شرع میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نکلنا مراد ہے۔ شرع میں یہ عصیان سے سخت ہے۔ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ [49-الحجرات:7] اور اس نے کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لئے ناپسند بنا دیا۔ [فتح ]

فوائد :
➊ مسلمان کو گالی دینا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ مقابلے میں بھی گالی دینے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ مقابلے میں بھی زیادتی سے بچنا مشکل ہے۔
➋ اگر کوئی ابتداءً گالی دے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے اگرچہ بہتر صبر ہے۔ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ [الشوري : 41] ”جو شخص ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لے لے تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔ “ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ) [الشوري : 43] ”اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقیناً یہ ہمت کا کام ہے۔ “
➌ بدلہ لینے میں شرط یہ ہے کہ صرف اتنی گالی دے جتنی اسے دی گئی ہے زیادتی نہ کرے اور نہ وہ بات کرے جو جھوٹ ہو۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے پر ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم [سنن ترمذي 1981 ]
”دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔ “
اگر دونوں ہی ایک دوسرے پر جھوٹ باندھیں تو دونوں گناہ گار ہیں اگرچہ پہل کرنے والا پہل کا مجرم بھی ہے۔ عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : المستبان شيطانان يتهاتران ويتكاذبان [صحيح ابن حبان – 5696]
”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بدزبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
➍ ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو گالی دے سکتا ہے خصوصاً جب وہ محارب (حالت جنگ میں ) ہو اس وقت اسے ذلیل کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کے ارد گرد ادھر ادھر کے لوگ جمع ہیں جب جنگ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا : امصص بظر اللات انحن نمر عنه
[بخاري، الشروط /5]
”(جاؤ جا کر) لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟“
➎ ”اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“ لڑائی کرنا گالی دینے سے سخت ہے اس لئے اس پر حکم بھی سخت ہے۔
➏ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے انسان مومن نہیں رہتا بلکہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا : لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض [بخاري 7077]
”میرے بعد دوباره کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ خارجی لوگوں کا یہی موقف ہے اور اسی بنا پر انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی لوگوں کو بزعم خویش کبیرہ کا مرتکب ہونے کی بنا پر کافر قرار دیا مگر ان احادیث سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں، بلکہ شریعت کے قواعد اور قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔
➐ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کفر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک وہ کفر جس سے مراد خروج عن الاسلام ہے اور جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور ابدی جہنمی ہے یہ کفر جحود اور بڑا کفر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ماننے سے انکار کر دینا یہ جانتے ہوئے کہ یہ بات واقعی اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور اس انکار کو درست سمجھنا۔
کفر کی دوسری قسم کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ نے كفرٌ دُوْنَ كفرٍ (بڑے کفر سے کم تر کفر قرار دیا ہے) یعنی اسلام میں رہ کر کفر کے کسی کام کا ارتکاب کرنا۔ اس کفر کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [صحيح مسلم۔ الايمان /12]
ایمان کی ان تمام شاخوں کی ضد جتنے کام ہیں سب کفر کے کام ہیں۔ مگر کفر کے ہر کام کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ مثلا اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لینے توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے، نماز قائم کرنے، زکوة ادا کرنے اور عملی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہو جانے کے بعد کسی گناه مثلاً قتل، زنا، چوری وغیرہ کا ارتکاب کرتا ہے مگر ان کاموں کو جائز نہیں سمجھتا، نہ ہی اللہ اور اس کے رسول کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تو یہ شخص گناہ گار مسلم ہے، یہ نہ اسلام سے خارج ہے، نہ ابدی جہنمی۔ ہاں اس نے جو گناہ کیا ہے وہ کفر اور جاہلیت کا کام ہے اس لئے اس کے متعلق اگر کہیں کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی بھی کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہے اور نہ یہ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔
اس تفصیل کی دلیل کے لئے چند آیات و احادیث پر غور کریں۔
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ [4-النساء:48]
”یقیناًً اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ چیزیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک جو شرک پر فوت ہو اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ہاں مومن کے گناہ اللہ چاہے گا تو بخش دے گا۔ چاہے تو سزا دے کر جہنم سے نکال لے گا۔
(ب) شفاعت کی تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ملت اسلام کا فرد ہے اور اسے اللہ چاہے گا تو شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکال دے گا اور چاہے گا تو محض اپنے فضل و کرم سے بغیر کسی کی شفاعت کے جہنم سے نکال دے گا۔
(ج) اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا [49-الحجرات:9]
”اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو۔ “
اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ [49-الحجرات:10]
”مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان آپس میں لڑائی کے باوجود مومن ہیں ان کی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوئی کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائیں۔ اسی طرح قصاص کی آیات میں قاتل کو اور مقتول کے وارثوں کو بھائی قرار دیا۔ فرمایا :
فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ [2-البقرة:178]
”تو جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے تو پیچھا کرنا ہے اچھے طریقے سے اور اس کی طرف ادا کرنا ہے احسان کے ساتھ۔“
معلوم ہوا کہ قتل کے باوجود قاتل مسلمان ہے اور مقتول کے وارثوں کا دینی اور ایمانی بھائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے یا طلحہ و زبیر و عائشہ رضی اللہ عنہم اور حضرت علی اللہ رضی اللہ عنہ کے در میان حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان جو جنگیں ہوئیں اپنے بالمقابل لڑنے والے کسی شخص کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کافر قرار نہیں دیا، نہ ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنایا، نہ ان کے مال کو مال غنیمت بنایا۔ اگر وہ انہیں کافر قرار دیتے تو مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کی طرح ان کے اموال کو مال غنیمت بناتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بناتے۔
ان آیات اور صحابہ کرام انتظام کے اجماع سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو جو کفر قرار دیا گیا ہے اور آپس میں لڑنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر کا کام ہے ایمان کا نہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والا کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے یہ نہیں کہ مسلمان سے لڑنا اسلام سے خارج ہونا ہے اور نہ یہ کہ مسلمان سے لڑنے والا ملت اسلام سے خارج ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کئی صحابہ سے قتل، زنا، چوری بہتان، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں کا صدور ہوا آپ نے ان پر اللہ کی مقرر کردہ حدیں لگائیں مگر نہ کسی کو کافر قرار دیا نہ ملت اسلام سے خارج قرار دیا نہ ہی کسی کو مرتد قرار دے کر اس پر ارتداد کی حد (قتل) لگائی۔
➒ مسلمان کو گالی دینے کو فسق اور اس سے لڑنے کو کفر قرار دینے سے ان گناہوں کی قباحت اور شناعت صاف ظاہر ہے اہل ایمان کو فسق اور کفر کا ارتکاب کسی طور پر زیب نہیں دیتا۔
➓ بعض علماء نے ”مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے“ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اسے مجازاً کفر قرار دیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی نعمت اس کے احسان کی ناشکری اور اخوة اسلام کی بے قدری ہے۔ یہ وہ کفر نہیں جو ایمان سے انکار پر لازم آتا ہے۔ اسے کفر اس لئے قرار دیا گیا کہ اس گناہ میں بڑھتے بڑھتے دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے بعض اوقات انسان بڑے کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ اعاذنا الله منه

بدگمانی سے بچو
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث . [متفق عليه]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔“ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 6066] ، [مسلم، البر والصلة / 38]
وغیرھما دیکھئے تحفۃ الاشراف [172/10]
صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے :
ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا
”اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔“

فوائد :
➊ قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی سبب نہ ہو مثلا ایک آدمی کے بدکار یا شرابی ہونے کا خیال دل میں جما لینا حالانکہ اس سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہوئی کہ اسے ایسا سمجھا جائے۔ اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا ولا تجسسوا جاسوسی مت کرو۔ کیونکہ جب کسی شخص کے برے ہونے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو آدمی وہ بات ثابت کرنے کے لئے جاسوسی کرتا ہے ٹوہ لگاتا ہے کان لگاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ یہ حدیث اس آیت سے بہت ملتی جلتی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا [49-الحجرات:12]
” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے۔ “
آیت میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس گمان کی تحقیق کے لئے جستجو کرتا ہوں تو اسے کہا گیا وَلَا تَجَسَّسُوا جاسوسی مت کرو۔ اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر ہی مجھے یہ بات ثابت ہو گئی ہے تو کہا: گیا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں وہ موجود ہی ہو) مت کرو۔ [فتح الباري]
➋ ظن کی دو حالتیں ہیں۔ ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے اس پر عمل کرنا درست ہے شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریبا تمام کام اسی پر چلتے ہیں۔ مثلا عدالتوں کے فیصلے گواہوں کی گواہی باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور و فکر جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے اور اس پر عمل واجب ہے اسے ظن اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی جانب مخالف کا ادنیٰ سا امکان رہتا ہے مثلاً ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو۔ راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لئے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے۔
دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آ جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے۔ یہ وہم کہلاتا ہے۔ ان کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ”بے شک بعض گمان گناه ہیں“ سے یہی مراد ہے اور إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا [يونس : 36] ”بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا“ اور وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ [النجم : 23] ”یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں“ میں اسی ظن کا ذکر ہے۔
➌ جیسا کہ اوپر گزرا حدیث میں ایسے ظن (گمان ) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلاٍ ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانتدار ہے اس کی بد دیانتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا۔ بلکہ فرمایا : اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ) ”زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ “
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا : ما يجوز من الظن جو گمان جائز ہیں۔ اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما اظن فلانا وفلانا يعرفان من ديننا شيئا ”میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔“ لیث نے فرمایا : یہ دونوں آدمی منافق تھے۔ انتھی۔ اس جائز گمان سے وہ گمان مراد ہے جس کی علامات اور دلیلیں واضح ہوں۔
➍ اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الله تجاوز لامتي عما حدثت به انفسها ما لم تعمل او تكلم به [مسلم/ الإيمان 332]
”اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر لائیں۔“
➎ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا اس لئے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بدترین اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے برا قرار دے لیا۔ جب کہ اس کے برے ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔

اپنی رعیت کو دھوکا دینے والے پر جنت حرام ہے
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن معقل بن يسار رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ‏‏‏‏ [متفق عليه]
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کوئی بھی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنا دے اسے جس دن موت آئے وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعیت کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔“ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 7150] ، [مسلم، الايمان142] و غیرهما دیکھئے تحفۃ الاشراف [ 464/8،461/8]
فوائد :
➊ بخاری رحمہ الله نے حسن رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے اس میں ایک قصہ ہے کہ عبید الله بن زیاد معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کرنے کے لئے آئے، یہ اس بیماری کا واقعہ ہے جس میں معقل رضی اللہ عنہ فوت ہوئے۔ عبید اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کے زمانے میں بصرے کے عامل تھے تو اس موقعہ پر معقل رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ حدیث سنائی۔
بلوغ المرام میں مذکور الفاظ مسلم کی ایک روایت کے ہیں۔ مسلم کی دوسری روایت ہے یہ ہے کہ فرمایا :
ما من امير يلي امر المسلمين ثم لا يجهد لهم وينصح إلا لم يدخل معهم الجنة [ مسلم / الايمان 366]
”جو کوئی امیر مسلمانوں کی حکو مت کا والی بنے، ان کے ساتھ نہ پوری کوشش کرے، نہ ان کی خیر خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“
➋ اس حدیث میں ان حکمرانوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو اپنی رعایا کی بہتری کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے، نہ ان کی خیر خواہی کرتے ہیں بلکہ انہیں دھوکا دیتے ہیں اور توبہ کئے بغیر اسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں کہ ان کے لئے جنت حرام ہے۔ کیونکہ اتنے بندوں کے حق وہ قیامت کے دن کہاں سے ادا کریں گے ؟ اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف ہے بندوں کو راضی نہیں کرے گا کہ ان کے حقوق اپنے پاس سے ادا کرے اور ان کو دھوکا دینے والے اور ظالم حکمرانوں کو جنت میں بھیج دے بلکہ انہیں ضرور ہی ان حقوق کے بدلے جہنم میں پھینکے گا۔
جنت حرام ہونے کا مطلب اس حدیث میں یہ ہے کہ جہنم میں جانے کے بغیر شروع میں ہی جنت میں داخل ہو جانا ان پر حرام ہے۔ یہ مطلب اس لئے کیا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے جنت صرف کفار کے لئے حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ [5-المائدة:72]
”یقیناً جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔ “
اور جنت کے پانی اور رزق کے متعلق فرمایا :
إِنَّ اللَّـهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ [7-الأعراف:50 ]
”اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔“
اس لئے کسی مسلمان کے متعلق اگر یہ الفاظ آئیں کہ اس پر جنت حرام ہے تو اس سے مراد یہی ہو گا کہ جنت میں شروع میں داخلہ اس پر حرام ہے۔
زیر بحث حدیث میں مسلم کی دوسری روایت اس مطلب کی تائید کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا : لم يدخل معهم الجنة ”اپنی رعیت کی خیر خواہی نہ کرنے والا ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔ “ البتہ اپنے گناہوں اور زیادتیوں کی سزا پانے کے بعد کسی وقت جنت میں چلا جائے تو الگ بات ہے۔
➌ رعایا کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے ان کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ ان کی عقل برباد کرنے کی ہر کوشش کو ناکام کرے اس مقصد کے لئے قتل، ڈاکے، چوری، زنا، بہتان، شراب نوشی پر اللہ کی بتائی ہوئی حدیں نافذ کرے، بے حیائی کو پھیلنے سے روکے، مظلوم کی فریاد سنے۔ رعایا سے علیحدگی اور فاصلہ اختیار نہ کرے۔ فیصلہ کرتے وقت اپنی خواہش کی بجائے حق کے مطابق فیصلہ کرے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے جہاد جاری رکھے۔ ان کی تربیت کے لئے قرآن و سنت کی تعلیم کا اہتمام کرے اور ان کے تمام معاملات پر صرف ان لوگوں کو ذمہ دار مقرر کرے جو اس کی پوری محنت کوشش اور جستجو کے بعد اسے دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ اس کام کے اہل معلوم ہوئے ہیں۔ اموال اور دوسرے فوائد کی تقسیم میں عدل کرے ایسا حکمران اللہ کے ہاں بہت ہی بلند درجے والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ان میں سب سے پہلا شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار فرمایا امام عادل ہے۔ [بخاري۔ الاذان / 36]
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز وجل وكلتا يديه يمين الذين يعدلون في حكمهم واهليهم وما ولوا [مسلم / الامارة : 4721 ]
” انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں رحمان عزوجل کے دائیں ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو فیصلے میں عدل کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں اور جس کے بھی ذمہ دار ہیں عدل کرتے ہیں۔ “
➍ خیر خواہی کے مقابلے میں دھوکا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر کام میں اپنی خواہش نفس کو مقدم رکھے۔ رعایا کی جان مال اور آبرو برباد کرے، حدود اور جہاد کو باطل کرے، مسلمانوں کے مال میں اپنی مرضی سے ناحق تصرف کرے، ان پر ظلم کا مداوا نہ کرے، ناجائز ٹیکس لگا کر ان کی زندگی تلخ کر دے۔ مفسدوں کو رعایا پر ظلم کی کھلی چھٹی دے دے، حکو مت کی ذمہ داریوں پر اہل لوگوں کی بجائے اپنی خوشامد کرنے والے جا و بیجا حمایت کرنے والے نااہل اور مفس لوگوں کو مقرر کرے، مسلمانوں کے دشمنوں سے ساز باز کر کے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے ایسے حکمرانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت حرام ہونے کی وعید سنائی ہے۔

امت محمدیہ پر مشقت ڈالنے والے حاکم کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏اللهم من ولي من امر امتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه ‏‏‏‏ [اخرجه مسلم]
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ جو شخص میری امت کے کام میں سے کسی چیز کا ذمہ دار بنا پھر اس نے ان پر مشقت ڈالی تو تو اس پر مشقت ڈال۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا۔ )
تخریج : [مسلم، الامارة /19] دیکھیے تحفۃ الاشراف [ 477/11]
صحیح مسلم میں مکمل حدیث اس طرح ہے کہ عبدالرحمن بن شماسہ فرماتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی بات پوچھنے کے لئے ان کے پاس حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا : تم کن لوگوں سے ہو؟ میں نے کہا: میں ایک مصری آدمی ہوں۔ فرمانے لگیں : تمہاری اس لڑائی میں تمہارا ساتھی (امیر) تمہارے لئے کیسا رہا؟ اس نے کہا: ہم نے اس کی کسی بات کو ناپسند نہیں کیا۔ اگر کسی آدمی کا اونٹ مر جاتا تو وہ اسے اونٹ دے دیتا تھا۔ غلام فوت ہو جاتا تو غلام دے دیتا تھا اور خرچ کی ضرورت ہوتی تو خرچہ دے دیتا تھا۔ فرمانے لگیں : اس نے میرے بھائی محمد بن ابی بکر کے متعلق جو کچھ کیا وہ مجھے تم سے وہ حدیث بیان کرنے سے مانع نہیں ہو سکتا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گھر میں بیان کرتے ہوئے سنی :
اللهم من ولي من امر امتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه ومن ولي من امر امتي شيئا فرفق بهم فارفق به [مسلم/ الامارة 4722]
”اے اللہ ! جو شخص میری امت کے کام میں سے کسی چیز کا ذمہ دار بنا پھر ان پر مشقت ڈالی تو تو اس پر مشقت ڈال اور جو شخص میری امت کے کام میں کسی چیز کا ذمہ دار بنا پھر ان کے ساتھ نرمی کی تو تو اس کے ساتھ نرمی کر۔ “

فوائد :
➊ اس حدیث میں مسلمانوں کے بادشاہوں، وزیروں، افسروں، ججوں، فوجی کمانڈروں، اساتذہ کرام اور کسی بھی قسم کی ذمہ داری رکھنے والوں کو مسلمانوں کے ساتھ نرمی کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور ان پر کیا کرنے اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر مشقت ڈالنے والے کے حق میں بددعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس پر مشقت ڈالے اور نرمی کرنے والے کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نرمی کرے۔
امت مسلمہ پر حکمرانوں کی ڈالی ہوئی چند مشقتیں :
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمان حکمرانوں نے اپنی رعایا پر بے شمار مشقتیں ڈال رکھی ہیں۔ وہ اپنی رعایا کو ملاقات کا موقع ہی نہیں دیتے لوگ روزانہ آ کر کھڑے رہ رہ کر ملاقات سے محروم واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی درخواستیں مہینوں بلکہ سالوں تک فائلوں میں ہی دبی رہتی ہیں۔ افسر اور کلرک اپنی خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں اور کام کے لئے آنے والوں کو ہر روز کل آنے کے لئے کہہ کر ناکام واپس بھیج دیتے ہیں۔ خواہ کوئی کتنی مصیبت میں پھنسا ہوا ہو افسر صاحب میٹنگ یا باتھ سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔
برسراقتدار لوگ اپنی رعایا کو روزگار میں سہولت میسر کرنے کی بجائے ہر کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں کوئی صنعت لگانا چاہے یا کاروبار کرنا چاہے تو لائسنس کی پابندی ہے لائسنس حاصل کرنے کے لئے بے شمار محکموں کے دفتروں میں دربدر پھرنا اور افسروں کے نخرہ اٹھانا پڑتا ہے، اگر کاروبار شروع کر بیٹھیں تو مختلف ٹیکس اور اتنے ظالمانہ اور حد سے بڑھے ہوئے کہ یا وہ جھوٹ بول کر اپنی اصل آمدنی چھپا کر یا رشوت دے کر جان چھڑائیں اور اگر رشوت نہ دیں یا سچ کہیں تو اپنا تمام سرمایہ ٹیکس میں دینے اور کاروبار ختم کرنے کے باوجود گورنمنٹ کے نادہندہ اور پولیس کو مطلوب رہیں۔ حکو مت کو صرف پیسے کھانے اور اپنا اقتدار مضبوط کرنے سے غرض ہے ڈاکے مارنے والوں، دہشت گردوں قاتلوں، عزتیں لوٹنے والوں کو کھلی چھٹی ہے وہ بے شک جدید ترین اسلحہ استعمال کریں۔ مگر اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنے والوں پر لائسنس کی پابندی ہے۔ اگر لائسنس نہ لے سکیں تو صرف گھر رکھنے پر ہی لمبی قید یا پھانسی کے لئے تیار رہیں۔
اگر کسی پر ظلم کیا جائے اس کی جائیداد چھین لی جائے اور وہ انصاف کے لئے عدالت میں جانا چاہے تو حکمرانوں نے اس کے لئے اتنی مشقتیں تیار کر رکھیں ہیں کہ اگر وہ سمجھدار ہو تو عدالت کی مشقتیں برداشت کرنے کی بجائے اپنی پہلی مظلومیت پر ہی صبر شکر کر لے۔
سب سے پہلے تو وہ جس عدالت میں جا رہا ہے اس میں اللہ کے قانون جو کہ سراسر آسانی اور رحمت ہے، کی بجائے کفار کے قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا جو کہ سراسر مشقت ہے اور فطرت کے خلاف ہے پھر اس عدالت میں وہ اپنی زبان میں اپنامدعا پیش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ عدالت کی زبان انگریزی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وکیل کرے اور جس کا گھر پہلے ہی لٹ چکا ہو وہ وکیل کی فیس کہاں سے لائے گا۔
پھر عدالت سے انصاف حاصل کرنے کے لئے اسے پیسے دینے پڑیں گے انصاف خریدنا پڑے گا اگر عدالت کی فیس نہیں دے سکتا تو یہ شخص انصاف کا حقدار نہیں۔
عدالت کی فیس وکیل کی فیس اور دوسرے واجبات ادا کرنے کے بعد درخواست دے کر اب اسے انتظار کرنا پڑے گا کہ اس کے مقدمے کی سماعت کب شروع ہوتی ہے۔ کبھی جج گرمیوں کی چھٹیوں پر ہے، کبھی ہفتہ وار چھٹی ہے، کبھی وکیل فارغ نہیں، کبھی جج دوسرے مقدموں میں مصروف ہے۔ لمبی مدتیں انتظار کرنے کے بعد اگر سماعت شروع ہوئی تو تاریخیں ملنی شروع ہو گئیں۔ اگر فیصلہ ہو گیا تو پھر ہائی کورٹ میں نئے سرے سے وہی چکر شروع ہو گیا اس کے بعد سپریم کورٹ کا مرحلہ باقی ہے اور ہر عدالت کے لئے نئی فیس، نیا وکیل اور انتظار کا نیا حوصلہ چاہیے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اس انتظار میں زندگی سے گزر جاتے ہیں
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اگر کوئی بے گناہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو اسے اپنی صفائی کے لئے ان تمام مراحل سے گزرنا پڑے گا یا واقعی اس سے کوئی غلطی ہو گئی تو بجائے اس کے کہ فوراً اس کی تحقیق کر کے اسے سزا دے کر فارغ کر دیا جاتا وہ اپنی سزا سننے کے لئے سالوں تک جیل میں سڑتا رہتا ہے اور پولیس کے وہ کارندے اور عدالت کے وہ جج جن کی غفلت یا تغافل سے وہ اس عذاب میں بلاوجہ مبتلا رہا کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔
پھرصرف ملزم ہی پر مشقت کے یہ پہاڑ نہیں توڑے جاتے بلکہ اصل مشقت اس کے گھر والوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اگر اسلام پر عمل ہوتا تو جلد از جلد فیصلہ کر کے حد لگا کر یا تعزیر لگا کر گھر بھیج دیا جاتا اب ہر جرم کے لئے چوری ہو یا کوئی اور جیل یا جرمانے کی سزا ہے۔ جو حقیقت میں اس کے لئے کم ہے اور اس کے وارثوں کے لئے زیادہ ہے ماں باپ بوڑھے ہیں کما نہیں سکتے بچے کمائی کے قابل نہیں، بیوی کو ضرورت ہے کہ خاوند اس کے پاس رہے مگر گھر کا یہ کفیل اپنی سزا سننے کے لئے جیل میں ہے یا سزا بھگتنے کے لئے نہ ماں کی خدمت کر سکتا ہے نہ بیوی کے حقوق ادا کر سکتا ہے نہ بچوں کی تربیت کر سکتا ہے نہ انہیں کما کر دے سکتا ہے۔ اگر اللہ کے دین پر عمل کرتے تو ہر ایک کے لئے بے حد آسانی تھی، جرم کی سزا دے کر اسے گھر بھیج دیا جاتا۔ مگر کفار کی تقلید میں ان سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیا جو صرف مجرم کے لئے ہیں اور جن سے گناہ رکتے ہیں اور ایسی سزائیں نافذ کیں جن سے مجرم کا کچھ نہیں بگڑتا جیل میں رہ کر اس کا ذوق جرم مزید بڑھتا ہے اور وہ تربیت یافتہ اور عادی مجرم بن جاتا ہے۔ ماں باپ، بیوی بچوں اور صالح معاشرے سے کٹنے اور جیل میں ہونے والے ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے وہ چڑچڑا وحشی اور خونخوار بن جاتا ہے اور اصل سزا اس کے ماں باپ بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو ملتی ہے۔

امت مسلمہ پر نرمی کرنے کی برکات :
اگر امت اسلامیہ کے حکمران اپنی رعایا کے لئے آسانیاں پیدا کرتے۔ اپنے اور ان کے درمیان دیواریں کھڑی نہ کرتے ان پر ہونے والے ظلم کا ازالہ کرتے انہیں چوروں، ڈاکووں سے بچاتے انہیں اسلحہ کی تربیت دے کر اور اسلحہ رکھنے کی اجازت بلکہ حکم دے کر چوروں، ڈاکووں اور کفار کے مقابلے میں کھڑا کر دیتے، کاروبار میں سہولت دیتے، انہیں کفار کی یلغار سے بچانے کے لئے جہاد کرتے، ہر قسم کا ٹیکس ختم کر کے معیشت کی بنیاد زکوٰة، خراج اور غنیمت پر رکھتے، کفار کا نظام عدل جو حقیقت میں سراسر ظلم ہے ختم کر کے اسلام کا نظام عدل جو سراسر رحمت ہے نافذ کرتے تو اللہ بھی ان کے لئے بے شمار آسانیاں مہیا فرما دیتا ان کے لئے زمین و آسمان کے خزانوں کے منہ کھول دیئے جاتے، مجرموں کو جیلوں میں سڑنے کے لئے چھوڑ دینے کی بجائے اگر ان پر اللہ کی حدود نافذ کرتے تو ایک ایک حد پر اللہ کی طرف سے رزق کی وہ فراوانی اور کشادگی ہوتی جو چالیس چالیس دن تک مسلسل ہونے والی رحمت کی بارش سے بھی نہ ہوتی۔ [نسائي، ابن ماجه بحواله سلسلة الاحاديث الصحيحة 409/1]
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [7-الأعراف:96]
” اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے بہت ہی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کاموں کی وجہ سے پکڑ لیا۔ “
مسلم رعایا پر مشقت ڈالنے کے وبال :
مسلم ممالک کے حکمرانوں نے جب اللہ کے حکم کے برعکس اپنی رعایا پر بے حد مشقتیں ڈالیں (جن کی تھوڑی سی تفصیل اوپر گزر چکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کے مطابق ان پر بے شمار مشقتیں ڈال دیں۔ جن میں سے چند ایک ہی ہیں۔
(الف) وہ اپنی بداعمالیوں اور ظلم و ستم کی وجہ سے ہر وقت حکومت چھن جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور حکومت قائم رکھنے کے لئے اپنوں پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے یہود و نصاریٰ اور دوسرے کفار پر بھروسہ کرتے اور ان کی مدد کے محتاج رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی ہر جائز، ناجائز فرمائش پوری کرنے پر مجبور ہیں۔
(ب) وہ جس قدر لوگوں کے مقدمات کو طول دے کر جیلوں میں بند رکھتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق انہیں شکنجوں میں کس کر اور بے شمار قسم کی دفعات لگا کر ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں اس قدر قل خونریزی، ڈاکے اور دہشت گردی میں اضافہ ہوتا اور حکمرانوں کی نا اہلی اور بے بسی نمایاں ہوتی ہے۔
(ج) وہ جس قدر ملت اسلامیہ پر ٹیکسوں اور تاوانوں کی مشقت بڑھاتے ہیں اور سود کے خونی پنجے میں جکڑتے ہیں اسی قدر دنیا بھر کے کفار کے مقروض ہوتے چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ انہیں تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی یہودیوں کے بنکوں سے سود پر روپیہ لینا پڑتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اتنی زبردست گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں کہ قرض لی ہوئی رقموں کا سود ادا کرنے کے لئے مزید سود پر قرض لیتے ہیں اور زمینی اور آسانی برکا ت کی بجائے اپنے اوپر سے آفات کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔
کاش یہ حکمران امت پر آسانی اور اس کے ساتھ نرمی کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے لئے آسانی مہیا فرماتا اور ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرتا۔

حدیث میں مذکور امیر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی سے اس کا سلوک :
اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبدالرحمٰن بن شماسہ سے جس امیر کے متعلق پوچھا: تھا وہ معاویہ بن حد یج رضی اللہ عنہ صحابی تھے جن کی امارت میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بلاد مغرب میں کفار سے کئی جنگیں لڑی گئیں اور ان جنگوں میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا تھا۔ [اعلام النبلاء3/37-38 ]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر کے حاکم تھے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ان سے مصر چھیننے کے لئے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ فوج بھیجی تھی۔ انہوں نے معاویہ بن حدیج کو محمد بن ابی بکر سے لڑنے کے لئے بھیجا۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مقابلہ کیا، مگر ان کے ساتھی انہیں چھوڑ کر بکھر گئے محمد اکیلے ایک کھنڈر میں چھپ گئے، مگر آخر کار پکڑے گئے اور معاویہ بن حدیج نے انہیں قتل کر دیا۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے : [البدايه و النهابه 326/7]
عائشہ رضی اللہ عنہا کا انصاف اور حدیث پہنچانے کا جذبہ :
اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا کمال تقویٰ اور انصاف بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے قاتل کی اچھی صفت سن کر اس کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو چھپایا نہیں بلکہ اپنی دلی کیفیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان امت تک پہنچا دیا۔ علاوہ ازیں اس سے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا حدیث رسول کو امت تک پہنچانے کا زبردست جذبہ اور اس کا اہتمام بھی صاف ظاہر ہے۔

مسلمان کو چہرے پر مارنا منع ہے
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏إذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه ‏‏‏‏ [متفق عليه]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی شخص لڑے تو چہرے سے بچے۔ “ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 2559] ، [مسلم/البر والصلة 112] ، دیکھئے تحفۃ الاشراف [204/10]
فوائد :
چہرے پر مارنے کی ممانعت :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے چہرے پر کوئی بھی چیز مارنا منع ہے حتیٰ کہ اپنے غلام، خادم یا شاگرد کو ادب سکھانے کے لئے یا سزا دیتے وقت بھی منہ پر کوئی چیز مارنا حرام ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں : اذا ضرب احدكم خادمه فليجتنب الوجه [صحيح الادب المفرد حديث نمبر130]
”جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے بچے۔ “ آپس میں لڑائی ہو جائے غصہ اور جذبات کتنے ہی مشتعل کیوں نہ ہوں مسلمان کے منہ پر ہتھیار چھوڑ کر تھپٹر بھی نہ مارے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
اذا قاتل احدكم اخاه فلا يلطمن الوجه [مسلم/البروالصلة 116]
” جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو منہ پر تھپٹر نہ مارے۔ “
سزا دیتے وقت بھی منہ پر نہ مارے :
ایک روایت میں قَاتَلَ کی جگہ اِذَا ضَرَبَ اَحَدُكُمْ کے لفظ ہیں۔ [مسلم – البر والصلة 112]
یعنی صرف لڑائی ہی نہیں کسی وجہ سے بھی مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے۔
باکسنگ :
باکسنگ میں چونکہ ایک دوسرے کے چہرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس لئے اس حدیث کی رو سے یہ وحشیانہ کھیل حرام ہے۔
چہرے پر مارنا کیوں منع ہے ؟ :
چہرے پر مارنے کی حرمت کی ایک وجہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی حسن و جمال کا مظہر ہے اور آدمی کے اکثر حواس مثلاً دیکھنا، سننا، چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ چہرے پر مارنے کی صورت میں ان تمام حواس کا یا ان میں سے کسی ایک کا ختم ہو جانا یا خراب ہو جانا عین ممکن ہے اور شکل بگڑنے کا بھی اندیشہ ہے۔ کسی مسلم بھائی کے ساتھ اتنی زیادتی کی صورت بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
دوسری وجہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ :
اذا قاتل احدكم اخاه فليجتنب الوجه فان الله خلق آدم على صورته [مسلم البر والصلة 115]
”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔“
اس حدیث میں مارنے سے ممانعت کی وجہ سے انسانی چہرے کی تکریم قرار دی گئی ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس (آدم) کی صورت پر پیدا فرمایا، مگر ابن ابی عاصم نے ” کتاب السنہ“ میں ابويونس عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ کے طریق سے یہی روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے : من قاتل فليجتنب الوجه فان صورة وجه الانسان على صورة وجه الرحمن ”جو شخص لڑے وہ چہرے سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت رحمان کے چہرے کی صورت پر ہے۔“ (فتح الباری میں اس مفہوم کی اور روایات بھی لکھی ہیں دیکھے : جلد 5 حدیث 2559)
اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل رحمها الله نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا جس میں ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمان کی صورت پر پیدا فرمایا۔ [فتح الباري، حواله مذكوره ]
البتہ یہ بات خاص طور پر مدنظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ :
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ [الشوريٰ 11]
”اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔“
اسی طرح اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا مگر اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اتنی بات یقینی ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ مخلوق کو خالق کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
کافر کو چہرے پر مارنے کا حکم :
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جہاد میں بھی چہرے پر مارنا جائز نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے شرف انسانی سے محروم ہیں ان کی کوئی تکریم نہیں أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ [7-الأعراف:179]
”یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراه۔ “
قیامت کے دن اس حقیقت کا اظہار اس طرح ہو گا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کا چہرہ انسان کی بجائے بجو کا کر دیا جائے گا۔ [بخاري۔ كتاب احاديث الانبياء /8 ]
عزت و تکریم صرف مومن کے لئے ہے۔ وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ [المنافقون : 8]
” عزت صرف اللہ کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا۔ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ [8-الأنفال:12]
”ان کی گردنوں کے اوپر مارو اور ان کے ہر پورے پر مارو۔ “
اب ظاہر ہے گر دنوں سے اوپر کھوپڑی اور چہرہ ہی ہے۔ اور اتنی نفاست سے مارنا کہ صرف کھوپڑی پر لگے اور چہرے پر نہ لگے۔ ممکن ہی نہیں اور فرمایا کہ فرشتے کفار کو فوت کرتے وقت يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ [محمد : 27] ”ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔ “
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین میں جب کفار نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر پڑے پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اسے ان کے چہروں کی طرف پھینک کر فرمایا : شَاهَتِ الْوُجُوْهُ ” چہرے بگڑ جائیں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی آنکھوں کو مٹی سے بھر دیا، وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ [مسلم۔ كتاب الجهاد والسير /81]
دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہروں کو نشانہ بنایا اور ان کے چہروں کے بگڑنے کے لئے خاص بددعا کی۔
بدلے کی صورت میں چہرے پر مارنا جائز ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ [2-البقرة:194]
” جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اس کی مثل زیادتی کرو جو اس نے کی۔ “
اور فرمایا :
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ [5-المائدة:45]
” ہم نے ان پر اس (توراة) میں لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ہے۔“

غصہ سے اجتناب کا حکم
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعنه رضى الله عنه ان رجلا قال: يا رسول الله اوصيني قال: لا تغضب ‏‏‏‏ فردد مرارا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال: ‏‏‏‏لا تغضب ‏‏‏‏ [اخرجه البخاري]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے وصیت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”غصہ مت کر “اس نے کئی مرتبہ (سوال ) دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہی) فرمایا : ”غصہ مت کر۔ “ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے )
تخریج : [بخاري 6116 ]
فوائد :
یہ سوال کرنے والا کون تھا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال مختلف وقتوں میں کئی صحابہ نے کیا اور آپ نے انہیں یہی جواب دیا فتح الباری میں جاریہ بن قدامہ، سفیان بن عبداللہ ثقفی، ابوالدرداء اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے یہ سوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی جواب مذکور ہے۔ ان میں سے بعض نے یہ کہہ کر سوال کیا کہ آپ مجھے تھوڑی سی بات بتا دیجئے جس سے مجھے نفع ہو اور بعض نے کہا: مجھے ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپ نے میں جواب دیا کہ غصہ مت کر۔ تمام روایات کی تفصیل کے لئے دیکھئے : فتح الباری [حديث 6116 ]
➋ طالب وصیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب
حقیقت یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کے جواب میں اور وصیتیں بھی فرمائی ہیں۔ بعض سے فرمایا : قل ربي الله ثم استقم ”تو کہہ میرا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہ۔ “ [صحيح الترمذي – الزهد 47]
بعض سے فرمایا : لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله ”تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔ “ [ترمذي 458/5 اور صحيح ابن ماجه 317/2]
اہل علم فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک ماہر طبیب ہر مریض کے مزاح اور بیماری کو مدنظر رکھ کر علاج اور غذا تجویز کرتا ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے بڑے روحانی معالج تھے ہر شخص کو اسی عمل کی وصیت فرماتے جو اس کے لئے ضروری اور اس کے حالات کے مطابق ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے ان حضرات میں غصہ زیادہ تھا اس لئے آپ نے انہیں بار بار سوال کے باوجود غصہ سے اجتناب کی ہی وصیت فرمائی۔ چونکہ تقریبا تمام لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ غصے میں آ کر اعتدال سے نکل جاتے ہیں اس لئے آپ کی وصیت تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔
غصہ کے نقصانات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غصے سے بچنے کا حکم دے کر بے شمار قباحتوں سے بچانے کا اہتمام فرمایا کیونکہ غصے کی آگ سے انسان کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں بلکہ شکل ہی بدل جاتی ہے غم کے ساتھ ہی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے آدمی وحشیانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے مارنے کو دوڑتا ہے قتل تک سے دریغ نہیں کرتا، بس نہ چلے تو اپنے ہی کپڑے پھاڑ دیتا ہے، اپنے آپ کو ہی مارنا شروع کر دیتا ہے زبان سے واہی تباہی بکنے لگتا ہے، برتن توڑ دیتا ہے، کبھی کسی بے گناہ کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ غرض ایسے ایسے کام کرتا ہے کہ اگر ہوش کی حالت میں اپنے آپ کو دیکھے تو شرمندہ ہو جائے۔ یہ تو ظاہری نقصان تھا دل کا نقصان اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ غصے کی وجہ سے دل بغض، کینے، حسد اور آتش انتقام سے بھرا رہتا ہے سکون اور اطمینان رخصت ہو جاتے ہیں انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر آجاتا ہے اور دوستوں، رشتہ داروں اور اہل ایمان بھائیوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اب آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکیمانہ وصیت پر غور فرمائیں کہ آپ نے اس چھوٹے سے جملے میں کتنی حکمت کی باتیں سمو دی ہیں۔ اس پر عمل کرنے سے انسان کو کتنے فائدے حاصل ہوتے ہیں اور وہ کتنے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔
غصہ مت کر مطلب؟
ظاہر ہے کہ غصہ ایک فطری چیز ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ غصہ نہ آئے بلکہ اللہ کے دین کی خاطر غصے ہو نا قابل تعریف ہے اور اس سے جذبہ جہاد پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے ”غصہ مت کر“ کا مطلب یہ ہے کہ جہاں غصے ہونا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں وہاں غصہ مت کرو۔ ایسے مقامات پر ”غصہ مت کرو“ کی دو حالتیں ہیں۔ ایک غصہ آنے سے پہلے دوسرے غصہ آنے کے بعد۔
غصہ آنے سے پہلے لَا تَغْضَبْ کا مطلب یہ ہے کہ کوشش کرو غصہ نہ آئے حتیٰ کہ غصہ نہ کرنے کی عادت بن جائے۔ اس کے لئے وہ اسباب اختیار کرنا ہوں گے جن سے آدمی حسن اخلاق کا مالک بن جاتا ہے۔ مثلاً بردباری، حیا، سوچ سمجھ کر کام کرنا، زیادتی برداشت کرنا، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، عفو درگزر، غصہ کو پی جانا اور ہر ایک کو کھلے چہرے اور خندہ پیشانی سے ملنا۔ جب ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی تو غم کے موقعہ پر آدمی اس عادت کی وجہ سے غصے میں آنے سے بچ جائے گا۔ غصہ آ جانے کے بعد لَا تَغْضَبْ کا مطلب یہ ہے کہ غصے کے کہنے پر عمل مت کرو۔
ابن حبان رحمہ الله نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد فرمایا کہ ”غصے میں آنے کے بعد کوئی ایسا کام مت کرو جس سے تمہیں منع کیا گیا ہے“ مطلب یہ ہے کہ غصے پر قابو پانے کی کوشش کرو اور اس کے کہنے میں آ کر اللہ کی نافرمانی مت کرو کیونکہ اصل پہلوان اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام نہیں کرتا۔
جب غصہ آ جائے تو اسے دور کرنے کا طریقہ کیا ہے اس کے لئے دیکھئے اس باب کی حدیث 1396/2 کی تشریح۔

اللہ کے مال میں ناحق دخل اندازی کا انجام
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن خولة الانصارية رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن رجالا يتخوضون فى مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة ‏‏‏‏ [اخرجه البخاري]
خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کچھ لوگ اللہ کے مال میں حق کے بغیر دخل اندازی کرتے ہیں تو ان کے لئے قیامت کے دن آگ ہے۔“ (اسے بخاری نے روایت کیا)
تخریج : [بخاري 3118] ، وغیرہ دیکھئے تحفۃ الاشراف [300/11]
مفردات : يَتَخَوَّضُوْنَ – خَاضَ يَخُوْضُ کا اصل معنی پانی میں داخل ہونا ہے پھر یہ لفظ کسی بھی کام میں دخل دینے اور اس میں اپنی مرضی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
فوائد :
اللہ کے مال میں ناحق دخل اندازی کی صورتیں :
اللہ کے مال سے مراد مال غنیمت ہے بیت المال کے دوسرے اموال مثلاً زکوٰة، خراج وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان میں نہ امیر کو ناحق دخل اندازی جائز ہے نہ رعایا کو۔ امیر کی ناحق دخل اندازی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اللہ کا مال سمجھ کر اللہ ہی کی بتائی جگہوں پر عدل و انصاف کے ساتھ خرچ کرنے کی بجائے اپنا زاتی مال سمجھ کر اپنی مرضی اور خواہش نفس کے مطابق خرچ کرے یا اپنی جائیداد بنانی شروع کر دے مال غنیمت کے پانچ حصوں میں چار حصے مجاہدین میں تقسیم نہ کرے۔ خمس کو اللہ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی جگہوں پر خرچ نہ کرے، زکوة کو اس کی مدوں میں صرف نہ کرے، حقداروں میں تقسیم کرنے کی بجاۓ خویش پروری اور اقرباء نوازی کرے۔ ایسا کرنے والے کے لیے ان کی وعید ہے۔ رعایا کی ناحق دخل اندازی کی ایک صورت یہ ہے کہ مال غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے اس میں سے کوئی چیز لے لے یا مسلمانوں کے مال سے کوئی چیز امیر کی اجازت کے بغیر لے لے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک غلام جس کا نام مدعم تھا بطور ہدیہ دیا۔ ایک دفعہ مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا کہ اچانک ایک نامعلوم تیر آیا جس نے اسے قتل کر دیا۔ لوگ کہنے لگے : اسے جنت مبارک ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمت کی اشیاء میں سے، تقسیم سے پہلے اٹھائی تھی آگ بن کر اس پر شعلے مار رہی ہے۔“ لوگوں نے یہ سنا تو ایک آدمی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں۔“ [متفق عليه مشكٰوة باب قسمة الغنائم ]
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو مال دیا ہے وہ بھی درحقیقت اللہ کا مال ہے، انسان اس کا امین ہے اور صرف ان جگہوں سے لینے کا اور اپنی جگہوں پر خرچ کرنے کا پابند ہے جہاں اللہ کا حکم ہے :
إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ [9-التوبة:111]
” اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں۔“
اب اگر وہ مال کمانے یا اسے خرچ کرنے میں اللہ کی مرضی کی بجائے اپنی مرضی کرے گا تو اس کا انجام بھی آگ ہے۔

ایک دوسرے پر ظلم مت کرو
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي ذر رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وآله وسلم فيما يرويه عن ربه قال: ‏‏‏‏يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا . ‏‏‏‏ [اخرجه مسلم]
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ان احادیث میں سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے فرمایا : ”اے میرے بندو ! یقیناً میں نے ظلم اپنے آپ پر حرام کر لیا ہے اور اسے تمہارے درمیان حرام کر دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ “ (اے مسلم نے روایت کیا)
تخریج : [مسلم البر والصلة / 55]
وغیرہ دیکھیے : تحفۃ الاشراف [169/9]
فوائد :
اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا :
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ پر حرام کر لیا ہے کہ کسی پر ظلم کروں۔ قرآن مجید میں فرمایا :
وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا [18-الكهف:49 ]
”اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ “
اور فرمایا :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ [50-ق:29]
”اور میں بندوں پر بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔“

کیا اللہ تعالیٰ (نعوذ بالله) تھوڑا ظلم کر لیتا ہے ؟ :
بعض اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بندوں پر ظلام یعنی ”بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں ہوں“ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ تھوڑا بہت ظلم وہ کر سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا اللَّـهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ [3-آل عمران:108]
” اللہ تعالیٰ جہان والوں پر ظلم کا ارادہ بھی نہیں کرتا۔ “
ظلام کی نفی میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ معمولی سے ظلم کا ارادہ بھی نہیں کرتا تو وہ ظالم کیسے ہو سکتا ہے ؟ چہ جائیکہ وہ ظلام ہو؟ ظلم کی تعریف اور مزید تشریح کے لئے دیکھئے : اسی باب کی حدیث (1397/3)

غیبت کیا ہے ؟
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي هريرة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏اتدرون ما الغيبة؟ ‏‏‏‏ قالوا: الله ورسوله اعلم قال: ‏‏‏‏ذكرك اخاك بما يكره ‏‏‏‏ قيل: افرايت إن كان فى اخي ما اقول؟ قال: ‏‏‏‏إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه فقد بهته [‏‏‏‏اخرجه مسلم]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے ؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارا اپنے بھائی کا ذکر ایسی چیز کے ساتھ کرنا جسے وہ ناپسندکرتا ہے“، عرض کیا گیا : آپ یہ بتائیں کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو کیا پھر بھی غیبت ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے تو یقیناً تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ چیز اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا)
تخريج : [مسلم، البرو الصلة 70] دیکھئے تحفة الاشراف [ 223/10]
غیبت مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ [49-الحجرات:12]
” تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو تم اسے برا جانتے ہو۔ “
مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردہ کا گوشت کھایا جائے تو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا اسی طرح وہ شخص جس کی غیبت کی جا رہی ہو پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنی عزت کا دفاع نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مردار کھانے کو حرام قرار دیا ہے اور اگر وہ مردہ انسان کا گوشت ہو اور انسان بھی وہ جو بھائی ہے تو اس کی حرمت کس قدر زیادہ ہو گی؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کا مفہوم خود بتانے کی بجائے صحابہ سے کیوں پوچھا؟ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت دانا اور حکیم معلم تھے اس لئے آپ تعلیم دیتے وقت صحابہ کو کسی نہ کسی طرح متوجہ کر کے ان میں علم کی طلب پیدا کر لیتے تھے تاکہ بات اچھی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ جائے اور اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں قرآن مجید کی سب سے بڑی سورة بتاؤں گا۔ جب آپ مسجد سے نکلنے لگے تو صحابی نے ہاتھ پکڑ کر وعدہ یاد دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ سورہ فاتحہ ہے۔“ [بخاري : 4474، 4647 ]
معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”یقیناًً اے معاذ ! مجھے تم سے محبت ہے۔“ یہ تعلق جتانے کے بعد فرمایا کہ کسی نماز میں یہ دعا مت چھوڑنا :
رب اعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك [صحيح النسائي 1236۔ السهو 60 ]
اگر غور کریں تو طریق تعلیم پر جدید ماہرین کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحات اس ایک نکتے کی معمولی سی تشریح ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔

غیبت کیا ہے ؟ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کی ایسی واضح اور جامع تعریف فرمائی ہے کہ اس میں کوئی ابہام باقی نہیں چھوڑا۔ ذكرك اخاك بما يكره ”تمہارا اپنے بھائی کو اس چیز کے ساتھ ذکر کرنا جس (کے ساتھ ذکر کئے جانے) کو وہ ناپسند کرتا ہے۔“
امام نووی نے الاذکار میں اس کی کچھ تفصیل فرمائی ہے خلاصہ یہ ہے کہ :
”خواہ وہ چیز اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہو یا دین سے یا دنیا سے، اس کی شکل و صورت کے بارے میں ہو یا اخلاق کے، اس کے مال، اولاد، والدین، بیوی بچوں کے متعلق ہو یا اس کے لباس، چال ڈھال، بول چال، خندہ پیشانی یا ترش روئی کے متعلق غرض اس سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا ذکر جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے۔ پھر خواہ یہ ذکر زبان سے کیا جائے یا تحریر سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے تمام صورتوں میں غیبت ہے۔ اشاره خواہ آنکھ سے ہو یا ہاتھ سے، سر کے ساتھ ہو یا جسم کے کسی حصے کے ساتھ غیبت میں شامل ہے۔
بدن کی غیبت مثلاٍ :
اس کی تنقیص کے لئے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، ٹھگنا، لمبوترا، کالا، کبڑا یا اس قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرے۔ دین کے بارے میں غیبت یہ ہے کہ : اسے فاسق، چور، خائن، ظالم، نماز میں سست، پلید، ماں باپ کا نافرمان، بدمعاش وغیرہ کہے۔ دنیا کے بارے میں مثلاً : اسے نکما، باتونی، پیٹو وغیرہ کہے۔ اخلاق کے متعلق مثلاً : اسے بدخلق، متکبر، ریاکار، جلد باز، بزدل، سڑیل قرار دے۔ اس کے والد کے متعلق مثلاً : جولاہا، موچی، کالا حبشی وغیرہ کہہ کر اس کی تنقیص کرے۔ پھر زبان ہاتھ، جسم کے ساتھ غیبت کی ایک صورت اس کی نقل اتارنا ہے۔ مثلاً : اس کے اٹک اٹک کر بات کرنے یا ناک میں بولنے کی، لنگڑا کر چلنے کی، کبڑا ہونے کی یا چھوٹے قد کا ہونے کی نقل اتارے۔ غرض قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حرکت جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تنقیص ہو غیبت ہے اور حرام ہے۔

کیا غیبت کسی صورت میں جائز بھی ہوتی ہے ؟ :
بعض اوقات مسلم بھائی کی غیبت جائز بھی ہو جاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کا عیب بیان کیا جا سکتا ہے۔
قاعدہ اس کا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی ضروری مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہو سکتا ہو تو اس وقت یہ جائز ہے۔ نووی نے اور ان سے پہلے غزالی نے غیبت کے جواز کے چھ موقعے گنائے ہیں :
ظلم پر فریاد :
مظلوم کو حق ہے کہ ظالم کے خلاف بات کرے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا :
لَّا يُحِبُّ اللَّـهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ [4-النساء:148]
”اللہ تعالیٰ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا جائے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان لصاحب الحق مقالا ”حق والے کو بات کرنے کی گنجائش ہے۔“ [بخاري : ح 2390]
بہتر یہ ہے کہ بادشاہ یا قاضی یا ایسے شخص کے پاس اپنی مظلومیت کا تذکرہ کرے جو اس کی مدد کر سکتا ہو۔
② کسی گناہ یا برے کام کو روکنے کے لئے ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو اس کے ساتھ مل کر یا خود اسے روک سکیں۔ اگر مقصد صرف اس کام کرنے والے کی تذلیل ہو تو یہ جائز نہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات و احادیث اس کی دلیل ہیں۔
➌ فتویٰ لینے کے لئے مفتی کے سامنے کسی کے نقص کا ذکر کرے تو یہ جائز ہے، مثلاً ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو۔ کیا میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے لے لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارے اور تمهارے بچوں کے لئے جتنا کافی ہو معروف طریقے کے ساتھ لے لیا کرو۔“ [بخاري : 2211، البيوع/94 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند ہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاوند کا عیب بیان کرنے سے منع نہیں فرمایا کیونکہ اس کا مقصد مسئلہ پوچھنا تھا۔
➍ مسلمانوں کی خیرخواہی کے لئے اور انہیں شر سے بچانے کے لئے کسی کی برائی سے آگاہ کرے تو یہ جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ايذنوا له بئس اخو العشيرة [البخاري۔ 6054 ]
”اسے اجازت دے دو یہ خاندان کا بہت برا آدمی ہے۔ “ (حديث لمبی ہے )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس شخص کی برائی سے آگاہ کرنا ضروری خیال فرمایا۔ مسلمانوں کی خیرخواہی میں اور انہیں شر سے بچانے میں بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں :۔
(الف) حدیث کے راویوں پر اور مقدمے کے گواہوں پر جرح جائز بلکہ واجب ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔
(ب) جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، کاروبار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے تو صحیح صحیح بات بتا دے۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابوجہم رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو کنگال ہے اس کے پاس کچھ نہیں اور ابوجہم عورتوں کو بہت مارتا ہے تم اسامہ سے نکاح کر لو۔ “ [صحيح مسلم : 1480، الطلاق6 ]
اور یہ مومن کا حق ہے واذا ستنصحك فانصح له ” جب وہ تم سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر۔ “ [صحيح مسلم 2162، الادب 3 ]
⑤ جو شخص کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتا ہو، لوگوں کو لوٹتا ہو، اعلانیہ شراب پیتا ہو تو اس کے ان گناہوں کا ذکر جائز ہے جن کو چھپانے کی وہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا اور جن کا ذکر کیا جائے تو اسے برا محسوس ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ غیبت ان چیزوں کا ذکر ہے جسے وہ ناپسند کرے۔
⑥ کوئی شخص کسی لقب کے ساتھ مشہور ہو اس کے بغیر اس کی پہچان نہ ہوتی ہو اور وہ اسے برا بھی نہ جانتا ہو تو اسے اس لقب سے ذکر کرنا جائز ہے خواہ اس میں اس کا کوئی نقص ہی بیان ہو رہا ہو۔ مثلاً : أَعْمَشْ (جس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہوں) أَعْرَجْ (لنگڑا)۔ أَصَمْ (بہرا) أَعْميٰ (نابینا) وغیره شرط یہ ہے کہ مقصد اس کی تنقیص نہ ہو۔

کیا غیر مسلم کی غیبت جائز ہے :
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا
مسلمان ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں۔
اسی طرح ذكرك اخاك بمايكره سے بھی ظاہر ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے۔ کیونکہ کافر ہمارا دینی بھائی نہیں۔

اخوت ایمانی کو نقصان پہنچانے والی اشیاء کی ممانعت
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره التقوى ها هنا ‏‏‏‏ ويشير إلى صدره ثلاث مرات: ‏‏‏‏بحسب امرىء من الشر ان يحقر اخاه المسلم. كل المسلم على المسلم حرام: دمه وماله وعرضه ‏‏‏‏ [ اخرجه مسلم ]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایک دوسرے پر حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے مقابلے میں اراده خرید کے بغیر بولی نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے دلی دشمنی نہ رکھو، ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے تقویٰ یہاں ہے اور آپ اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشاره فرماتے تھے۔ آدمی کو برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر جانے۔ مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت۔“ (اسے مسلم نے روایت کیا)
تخریج : [مسلم، البر والصلة/32]
وغیرہ دیکھتے تحفۃ الاشراف [456/10]
مفردات : بِحسْبِ امْرِءٍ میں باء زائدہ ہے اور حسب امری مبتداء ہے اور ان يحقر اخاه المسلم جملہ بن کر مصدر کی تاویل میں ہو کر اس کی خبر ہے۔
فوائد :
لَا تَحَاسَدُوْا یہ باب تفاعل ہے جو دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر حسد مت کرو۔ کوئی حسد کرے تو اس کے جواب میں بھی اس پر حسد نہ کرو۔ حالانکہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی اجازت ہے :
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا [42-الشورى:40]
” برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے۔“
مگر مسلمان پر حسد کے جواب میں بھی حسد جائز نہیں تو جو تم پر حسد نہیں کرتا اس پر حسد تو بطریق اولیٰ حرام ہے۔ حسد کی تفصیل اور علاج کے لئے دیکھئے اس باب کی پہلی حدیث،
وَلَا تَنَاجَثُوْا یہ بھی باب تفاعل ہے۔ لغت میں نجش کا معنی شکار کو اس کی جگہ سے اٹھانا اور نکالنا ہے تاکہ پھر اسے شکار کیا جا سکے یہاں مراد یہ ہے کہ جب کوئی سامان فروخت ہو رہا ہو بولی: میں اس کی قیمت لگائی جا رہی ہو تو کوئی شخص دوسرے سے بڑھ کر اس کی قیمت لگا دے جب کہ اس کا ارادہ اسے خریدنے کا نہ ہو تاکہ دھوکے میں اگر کوئی دوسرا شخص اس سے بڑھ کر قیمت لگا کر پھنس جائے یہ دھوکا ایک دوسرے کے مقابلے میں کرنا بھی حرام ہے۔ تو اس شخص کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہے جو آپ سے یہ معاملہ نہیں کرتا۔
وَلَا تَبَاغَضُوْا یہ بھی تحاسدوا کی طرح باب تفاعل ہے۔ اور اس میں بھی وہی نکتہ موجود ہے کہ جو مسلمان تم سے بغض رکھے تم مقابلے میں بھی اس سے بغض مت رکھو اور اگر کوئی تم سے بغض نہیں رکھتا اس سے بغض رکھنا تو اور زیادہ برا ہے۔ اس حکم کی رو سے وہ کام بھی حرام ٹھہرے جن سے آپس میں دلی عداوت پیدا ہوتی ہے۔
وَلاَ تَدَابَرُوْا یہ دُبُر یعنی پیٹھ سے باب تفاعل ہے۔ ایک دوسرے کی طرف پیٹھ مت کرو، مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو ایک دوسرے سے بول چال بند نہ کرو کیونکہ جب دو آدمی ایک دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں یہ حالت تین دن سے زیادہ رکھنا حرام ہے۔
ایک دوسرے کی بیع پر بیع مت کرو :
جب دو مسلمانوں کی آپس میں بیع ہو چکے تو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیچنے والے سے کہے کہ تم یہ چیز میرے ہاتھ میں فروخت کرو میں تمہیں زیادہ قیمت دیتا ہوں نہ خریدنے والے سے یہ کہنا جائز ہے کہ تم یہ چیز مجھ سے خریدو میں تمہیں سستی دیتا ہوں پہلی فسخ کر دو اس سے آپس میں شدید عداوت پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر دو فریقوں میں نکاح کی بات طے ہو چکی ہے صرف عقد باقی ہے تو کسی تیسرے کو ان کی بات ختم کروا کر اپنا پیغام بھیجنا جائز نہیں۔ ہاں اگر بیع طے نہیں ہوئی اور اسی طرح ابھی رشتہ طے نہیں ہوا تو ہر شخص خریدنے کے لئے کہہ سکتا ہے کہ میں اتنی قیمت پر خریدتا ہوں اسی طرح ہر شخص نکاح کا پیغام بھی دے سکتا ہے۔
اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ :
یعنی اللہ کے بندے ہو تو اس کا حکم مانو۔ بندے کا کیا کام ہے کہ اپنی بات چلائے۔ پانچ چیزوں سے منع کرنے کے بعد علم یہ دیا کہ نسبی بھائیوں کی طرح آپس میں بھائی بن جاؤ۔ تمہارے درمیان سگے بھائیوں کی طرح باہمی شفقت، رحمت، محبت، غمخواری، معاونت اور خیر خواہی ہونا چاہیے۔
وہ چیزیں جن سے اسلامی اخوت کا اظہار ہوتا ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ پھر اس اخوت کو ظاہر کرنے والی تین چیزیں بیان فرمائیں۔
1۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔ نہ اس کی جان پر، نہ مال پر، نہ عزت پر۔
2۔ وہ اس کی مدد نہیں چھوڑتا اگر وہ مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچاتا ہے اگر وہ ظالم ہے تو اس کی مدد اس طرح کرتا ہے کہ اسے ظلم سے روکتا ہے۔
3۔ اسے حقیر نہیں جانتا۔ کیونکہ مسلمان کو حقیر جانے کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے اور تکبر ایمان کے منافی ہے۔ صحیح مسلم میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الكبر بطر الحق وغمط الناس [صحيح مسلم ح : 91، الإيمان 39 ]
” تکبر حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “
متکبر آدمی دوسرے کو حقیر جاننے کی وجہ سے انہیں اس لائق ہی نہیں سمجھتا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا اس پر فرض ہے۔
تقوی کیا ہے اور کہاں ہوتا ہے ؟ :
تقویٰ کا لفظی معنی ڈرنا اور بچنا ہے۔ اللہ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کے ثواب کی امید کے ساتھ اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کی تمام منع کردہ چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔ تقویٰ دل میں ہوتا ہے اور اس کا اثر تمام اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے۔
مسلمان کو حقیر جانے کا گناه :
فرمایا : ”آدمی کو برا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر جانے کیونکہ اسے حقیر جاننے کی وجہ تکبر ہے اور تکبر اللہ تعالیٰ سے مقابلہ ہے یہ صرف اللہ کو زیب دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
الكبرياء ردآئي اذاري، فمن نازعني واحدا منهما، قذفته فى النار [صحيح ابي داؤد، ح : 3446، اللباس 28 ]
”کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے، جس شخص نے ان دونوں میں سے کسی ایک پر مجھ سے مقابلہ کیا میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔ “
اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يدخل الجنة من كان فى قلبه مثقال ذرة من كبر [مسلم ]
”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی تکبر ہو گا۔“
كُلُّ مُسْلِمٍ اور كُلُّ الْمُسْلِم میں فرق : كُلُّ مُسْلِمٍ کا معنی ہے ہر ایک مسلمان اور كُلُّ الْمُسْلِم کا معنی ہے مسلمان کا کل، مسلمان کا ہر ہر حصہ، مسلمان کی ہر چیز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی وضاحت فرما دی کہ مسلمان کی ہر ایک چیز اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔

چار بری چیزوں سے بچنے کی دعا
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن قطبة بن مالك رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏اللهم جنبني منكرات الاخلاق والاعمال والاهواء والادواء ‏‏‏‏ [اخرجه الترمذي وصححه الحاكم واللفظ له.]
”قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے : اے اللہ ! مجھے بری عادتوں، برے کاموں، بری خواہشوں اور بری بیماریوں سے بچا۔“ اسے ترمذی نے روایت کیا اور حاکم نے صحیح کہا: اور یہ لفظ حاکم کے ہیں)
تخريج : صحيح [ترمذي 3591] ، [حاكم 532] ، البانی نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے : [صحيح الترمذي 2840]
مفردات : جَنِّبْ باب تفعیل کا مصدر ہے تجنيب کا معنی دور رکھنا ہے۔ أَخْلَاقٌ خُلُق کی جمع ہے۔ أَهْوَاء هَوًي کی جمع ہے اور أَدْوَاء۔ داءٌ کی جمع ہے۔
فوائد :
برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے کیا مراد ہے ؟
آدمی کی وہ عادتیں جو اس کی پیدائشی عادتوں کی طرح پختہ ہو جائیں اخلاق کہلاتی ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے
كذاك ادبت حتي صار من خلقي . . . اني وجدت ملاك الشيمة الادبا
”مجھے اسی طرح ادب سکھایا گیا، یہاں تک کہ وہ میری طبعی عادت بن گیا ہے، میں نے تمام خصلتوں کا اصل ادب کو پایا ہے۔ “
برے اخلاق وہ ہیں جو شریعت کی نظر میں برے ہیں اور جنہیں انسانی عقل اور فطرت بھی برا جانتی ہے مثلاً حسد، کینہ، جھوٹ، خیانت، دھوکا، سنگدلی، بخل، بزدلی، بے صبری وغیرہ اس کے مقابلے میں اچھے اخلاق ہیں مثلاً بردباری، عفو، سخاوت، صبر، رحم، لوگوں کے کام آنا، ان کی تکالیف اٹھانا اور ان سے احسان وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برے اخلاق سے پناہ مانگی اور اچھے اخلاق کے حصول کے لئے دعا کی چنانچہ نماز کے افتتاح کی دعا میں ہے :
واهدني لاحسن الاخلاق لا يهدي لا حسنها الا انت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها الا انت
”اور مجھے بہترین اخلاق کی ہدایت دے (کیونکہ) سب سے اچھے اخلاق کی ہدایت تیرے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے (کیونکہ) مجھ سے برے اخلاق کو تیرے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا۔“
برے اعمال سے مراد وہ تمام کام ہیں جو شریعت کی نظر میں برے ہیں اور فطرت انسانی بھی اگر مسخ نہ ہو گئی ہو تو انہیں برا جانتی ہے۔ مثلا قتل ناحق، زنا، چوری، بہتان وغیرہ۔
بری خواہشات وہ ہیں جن کے پیچھے اگر انسان لگ جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کا انجام برا ہو۔ بری بیماریاں جو انسان کو ذہنی یا جسمانی طور پر بےکار کر دیں لوگوں کو اس سے نفرت دلانے کا باعث ہوں جیسے برص، جذام، عشق، جنون، فالج وغیرہ۔

جھگڑے، مذاق اور وعدہ خلافی کی ممانعت
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا تمار اخاك ولا تمازحه ولا تعده موعدا فتخلفه ‏‏‏‏ [اخرجه الترمذي بسند ضعيف.]
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر، نہ اس کے ساتھ مذاق کر اور نہ اس سے ایسا وعدہ کر کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔“ (اسے ترمذی نے ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا)
تخریج : ضعيف اسے ترمذی [1995] نے روایت کر کے فرمایا یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے اسی سند سے جانتے ہیں۔ البانی نے اسے ”ضعيف الترمذی“ [341] اور ضعيف الجامع [6274] میں ضعیف قرار دیا ہے۔
مفردات : لاتُمار . مارَي يُمَارِي مُمَاراةً و مِرَاءً باب مفاعلہ سے نہی کا صیغہ ہے مادہ ”م ر ی“ جھگڑا مت کر۔
فَتُخْلِفَه باب افعال سے فعل مضارع ہے اس پر نصب اس لئے ہے کہ یہ لَا تَعِدْهُ نہی کے جواب میں ہے اور اس پر فاء داخل ہوئی ہے۔ اس فاء کے بعد أن ناصبہ مقدر ہوتا ہے

فوائد :
اس حدیث کی سند کیسی ہے ؟ :
اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہیں۔ تقریب میں ہے صدق اختلط اخيرا ولم يتميز حديثه فترك سچا ہے اخیر میں اسے اختلاط ہو گیا اور اس کی حدیث کی تمیز نہیں ہو سکی اس لئے اسے ترک کر دیا گیا۔
ترمذی نے اسے حسن غریب کیوں فرمایا ہے ؟ :
غریب تو اس لئے کہا کہ اس کی سند صرف ایک ہے اور راوی کمزور ہونے کے باوجود حسن اس لئے کہہ دیا ہے کہ اس کے مفہوم کی تائید دوسری آیات و احادیث سے ہوتی ہے۔
کیا ضعیف حدیث بیان کرنا درست ہے ؟ :
ضعیف حدیث بیان کرنا درست نہیں ہاں اگر ساتھ کہہ دیا جائے کہ یہ ضعیف ہے جیسا کہ یہاں مصنف نے واضح کر دیا ہے۔ تو درست ہے کیونکہ کسی حدیث کے ضعف کا علم بھی ایک بہت بڑا علم ہے۔ تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں۔ ہاں اگر اس کی تائید دوسری احادیث سے یا قرآن مجید سے ہوتی ہو تو پھر بطور استدلال بھی بیان کی جا سکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ اس کا ضعف واضح کر دیا جائے تاکہ اصل استدلال مجموعی مفہوم سے ہو صرف ضعیف حدیث کے کسی لفظ کو استدلال کی بنیاد نہ بنایا جائے۔
مسلمان سے جھگڑا کرنا منع ہے :
ناجائز ”مراء“ کی حقیقت یہ ہے کہ تم کسی دوسرے شخص کی بات پر کسی ضرورت اور مقصد کے بغیر اعتراض کرتے رہو اور اس کی خرابی نکالتے رہو مقصد صرف اسے نیچا دکھانا، ذلیل کرنا اور اس پر اپنی برتری ثابت کرنا ہو۔ [سبل السلام]
خواہ مخواہ، جھگڑے کی مذمت صحیح احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان ابغض الرجال الي الله الالد الخصم [صحيح مسلم، العلم 2 ]
” اللہ کو آدمیوں میں سب سے زیادہ ناپسند وہ ہے جو ہٹ دھرم سخت جھگڑالو ہو۔“
اللہ تعالیٰ نے کفار کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :
مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [43-الزخرف:58 ]
” انہوں نے اس (ابن مریم کو آپ کے لئے صرف جھگڑے کے لئے بطور مثال بیان کیا ہے۔ بلکہ وہ سخت جھگڑالو لوگ ہیں۔ “
کیا ہر قسم کا جھگڑا حرام ہے ؟ :
وہ جھگڑا جس کا مقصد حق معلوم کرنا یا حق کو دلیل سے ثابت کرنا ہو اگر اچھے طریقے سے کیا جائے تو جائز بلکہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے فرمایا :
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [16-النحل:125]
” ان کے ساتھ اس طریقے سے جھگڑا کر جو سب سے اچھا ہے۔ “
مناظره، مجادلہ اچھے طریقے سے ہو تو یہ انبیاء کی سنت ہے۔ ابراہیم علیہ السلام سید المناظرین تھے۔ آپ دیکھیں انہوں نے کس طرح نمرود کے خدائی کے دعویٰ کو باطل کر کے اسے مبہوت کر دیا۔ ستارہ، چاند، اور سورج پوجنے والوں کو لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ کی دلیل سے لاجواب کر دیا۔ بت پرستوں کو یہ کہہ دیا کہ ”ان ٹوٹے ہوئے خداؤں سے پوچھ لو یہ سب ان کے اس بڑے کا کام ہے۔“ انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اصل قصور خود تمہارا ہے۔
ہاں اس میں ایک بات مدنظر رہنی چاہئے کہ طریقہ شائستہ ہو بات حسن ہی نہیں احسن ہو اہل کتاب سے بحث کرتے وقت بھی اس کی تاکید فرمائی۔
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [29-العنكبوت:46]
” اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا مت کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہے۔ “
تو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بحث کے لئے تو اور بھی اچھا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
مزاح کی کون سی صورت حرام ہے ؟ :
وہ مزاح جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تحقیر اسے ذلیل کرنا اور اس کا خاکہ اڑانا ہو حرام ہے اس کی تہہ میں خودبینی، تکبر اور اپنی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے اور اس سے دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ [49-الحجرات:11]
” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی عورتوں سے مذاق کریں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ “
مزاح کی جائز صورت کیا ہے ؟ :
جب مزاح صرف خوش طبعی کی حد تک ہو اس میں کوئی غلط یا خلاف واقع بات نہ کی گئی ہو۔ جس شخص سے مذاق کیا گیا ہے اس کی عزت میں کوئی فرق نہ آئے بلکہ وہ خود بھی لطف محسوس کرے اور اسے خوشی حاصل ہو تو ایسا مذاق جائز ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے مگر اس کے لئے بہت تیز ذہانت کی ضرورت ہے کہ کہیں کسی دوست کی دل شکنی نہ ہو جائے۔ ؎
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول الله ! انك تداعينا آپ ہم سے مزاح کر لیتے ہیں۔ فرمایا : اني لا اقول الا حقا ”میں حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ “ [صحيح الترمذي 1621 ]
کتب حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کے کئی واقعات مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول الله ! مجھے سواری دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہم تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دیں گے“ وہ کہنے لگا اونٹنی کے بچے کو میں کیا کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اونٹ او نٹیوں کے بچے ہی تو ہوتے ہیں۔“ [ابوداؤد ماجاء فى المزاح اور ديكهئے صحيح ابي داؤد 4998]
وعدہ خلافی :
وعدہ خلافی کے متعلق تفصیل کے لئے دیکھئے اس باب کی حدیث (1400/6)

بدخلقی اور بخل کی مذمت
——————

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏خصلتان لا يجتمعان فى مؤمن: البخل وسوء الخلق ‏‏‏‏ [اخرجه الترمذي وفي سنده ضعف]
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں ، بخل اور بدخلقی۔ “ (اسے ترمذی نے روایت کیا اور اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے )
تخريج : اس کی سند میں کچھ ضعف ہے۔ ترمذی [2684] ، الادب المفرد للبخاری [282]
و غیرہما۔ سند اس طرح ہے عن صدقة بن موسيٰ عن مالك بن دينار عن عبد الله بن غالب عن ابي سعيد مرفوعاً ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صدقہ بن موسیٰ کے علاوہ کسی سے نہیں جانتے۔ شیخ البانی نے فرمایا : ”وہ اپنے سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مناوی نے فیض القدیر میں فرمایا کہ ذہبی نے کہا ہے ”صدقة “ ضعیف ہے اسے ابن معین وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور منذری نے فرمایا ہے : وہ ضعیف ہے اور حافظ نے تقریب میں فرمایا : صدوق له أوهام انتہیٰ دیکھئے تحفۃ الاشراف [478/3]
فوائد :
حدیث کی سند میں اگرچہ کچھ ضعف ہے مگر بخل اور بدخلقی کی مذمت میں کئی آیات و احادیث آئی ہیں اور انہیں کفار کے اوصاف میں شمار کیا گیا ہے۔ بخل کی مذمت میں آیات :
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ٭ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا [4-النساء:36]
”یقیناًً اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا فخر کرنے والا ہو۔ وہ جو بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور الله تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “
اور فرمایا :
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ٭ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ٭ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ [107-الماعون:1]
” کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے تو یہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور (خود کھلانا تو دور ہے ) مسکین کو کھلانے پر رغبت (بھی) نہیں دلاتا۔ “
اور جہنمیوں کے بیان میں جس میں انہوں نے اپنے جنتی ہونے کے اسباب بیان کئے ذکر فرمايا :
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ٭ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ [74-المدثر:43]
”وہ کہیں گے ہم نمازیوں سے نہیں تھے اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے۔ “
اور فرمایا :
وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ٭ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ [82-الإنفطار:8]
” اور جس نے بخل کیا اور بےپروائی کی اور جنت کو بھلایا ہم اسے مشکل کی طرف جانے کی آسانی دیں گے۔ “
آپ دیکھیں ان تمام آیات میں بخل کی صفت کفار کے ضمن میں ہی بیان ہو رہی ہے۔
بدخلقی کی مذمت :
ایسی خصلتیں جو طبیعت میں پختہ ہو جائیں اور اس طرح عادت بن جائیں کہ بغیر سوچے سمجھے خود بخود سرزد ہوتی رہیں خلق کہلاتی ہیں۔ خصوصا جن عادات کا تعلق ایک دوسرے سے برتاؤ کے ساتھ ہو۔ اچھی ہوں تو حسن الخلق اور بری ہوں سوء الخلق۔ سورة القلم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا :
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ [68-القلم:4]
” آپ عظیم خلق کے مالک ہیں۔ “
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : كان خلقه القرآن آپ کا خلق قرآن تھا۔ [مسند احمد 91/6]
یعنی قرآن مجید میں مذکور تمام اوصاف و خصال آپ کی عادت اور طبیعت بن چکے تھے۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اخلاق سیئہ کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان برے اخلاق والے لوگوں کی پیروی آپ ہر گز نہ کریں۔ فرمایا :
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ٭ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ٭ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ٭ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ٭ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ٭ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ [68-القلم:10 ]
” اور تو کسی ایسے شخص کا کہنا بھی نہ مانتا جو زیادہ قسمیں کھانے والا، بےوقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور، بھلائی سے روکنے والا، حد سے بڑھ جانے والا، گناہ گار، سرکش پھر ساتھ ہی مشہور و بدنام ہو اس کی سرکشی صرف اس لئے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے یہ تو اگلوں کے قصے ہیں۔“
حق یہ ہے کہ یہ اخلاق سیئہ کفار ہی کا حصہ ہیں ایمان مومن کو کبھی اتنی پستی میں نہیں گرنے دیتا۔

اس تحریر کو اب تک 38 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply