مجبوری کے تحت عورت کا حمل کو روکنا

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

ضرورت کے تحت حمل کو روکنا
سوال: ایک مسلمان ماہر ڈاکٹر نے ایک عورت کو آگاہ کیا کہ اس کے لیے حاملہ ہونا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ حاملہ ہوئی تو زچگی کے دوران وہ مر جائے گی، اور اس کے خاوند کی کوئی اور بیوی بھی نہیں ہے اور وہ دونوں میاں بیوی جوانی کے اس بہترین دور سے گزر رہے ہیں جس میں وہ دونوں ایک دوسرے سے مستغنی و بے پرواہ بھی نہیں ہو سکتے، کیا اس عورت کے لیے مانع حمل دوائی استعمال کرنا جائز ہے یا بوقت جماع اس کا خاوند اس سے عزل کر سکتا ہے؟
جواب: اولا: عزل کے جواز پر روایت موجود ہے، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
«كنا نعزل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، و القرآن ينزل» [صحيح البخاري، رقم الحديث 4911 صحيح مسلم، رقم الحديث 1440]
’’ ہم عزل کرتے تھے درآنحالیکہ قرآن نازل ہوتا تھا (یعنی اگر عزل ممنوع ہوتا تو قرآن اس سے منع کر دیتا)“
اس حدیث کی صحت پر بخاری اور مسلم نے اتفاق کیا ہے۔ مسلم میں یہ روایت بھی موجود ہے۔
«كنا نعزل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم الله، فبلغه ذلك فلم يمنعنا»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 1440]
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عزل کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو منع نہیں کیا۔“
ثانیا: اللہ تعالیٰ نے اولا آرام میں سے جس کا پیدا کرنا مقدر کر رکھا ہے مانع حمل گولیاں اور عزل اس کو روک نہیں سکتا۔ اس کی اصل وہ روایت ہے جس کو جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: بلاشبہ میرے پاس ایک لونڈی ہے جو ہماری خدمتگار ہے اور ہماری کھجوروں کو سیراب کرتی ہے، میں اس سے مجامعت کرتا ہوں اور اس کے حاملہ ہونے کو ناپسند کرتا ہوں، تو آپ نے فرمایا:
«اعزل عنها إن شئت، فإنه سيأتيها ما قدر لها» [صحيح مسلم، رقم الحديث 1439]
”اگر تو چاہتا ہے تو اس سے عزل کر لے مگر (یاد رکھے) جو اس کے مقدر میں اولاد ہے وہ ہو کر رہے گی۔“
اس کو مسلم، احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق پر روانہ ہوئے، ہمیں کچھ عرب لونڈیاں ملیں، پس ہمیں عورتوں سے ملاپ کی انتہائی زیادہ خواہش محسوس ہوئی اور ہم پر (عورتوں سے) دوری گراں گزرنے کی اور ہم نے (ان لونڈیوں سے مجامعت کرتے ہوئے) عمل کرنے کو پسند کیا تو ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ما عليكم ألا تفعلوا، فإن الله عزوجل قد كتب ما هو خالق إلى يوم القيامة» [صحيح مسند احمد63/3]
تم پر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (مگر) بلاشبہ اللہ عزوجل نے ہر اس چیز کو تحریر فرما دیا ہے جس کو وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔“
اس حدیث کی صحت پر بخاری اور مسلم نے اتفاق کیا ہے، پس مذکورہ بالا یہ دو حدیثیں اور اس مفہوم کی دوسری حدیثیں عزل کے جواز پر دلالت کرتی ہیں، اور مانع حمل گولیوں کا استعمال عزل کے حکم میں ہی ہے۔
ثالثا: اس مسلمان ڈاکٹر نے جو یہ بیان کیا ہے کہ بلاشبہ یہ عورت اگر حاملہ ہو گئی تو وہ بوقت ولادت مر جائے گی، صحیح نہیں ہے، کیونکہ موت کا علم اس علم غیب کا حصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ» [31-لقمان: 14]
”بے شک اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتاکہ وہ کس زمین میں مرے گا، بے شک اللہ سب کچھ جانے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔“ (سعودی فتوی کمیٹی)

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔