ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھنا

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

حاملہ کے ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھنے کا حکم
سوال : جب حاملہ ولادت سے ایک یا دو دن قبل خون دیکھے تو کیا وہ اس کی وجہ سے روزہ و نماز ترک کر دے یا وہ کیا کرے ؟
جواب : جب حاملہ ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھے اور اس سے درد زہ بھی شروع ہو جائے تو یہ نفاس کا خون ہوگا ، وہ اس کے سبب نماز و روزہ ترک کر دے ، اور جب خون کے ساتھ درد زہ نہ ہو تو فاسد خون ہے اس کا کچھ لحاظ نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ اس کی وجہ سے روزہ رکھنے اور نماز ادا کرنے سے رکے گی ۔ (محمد بن صالح العثیمین رحمه اللہ )

سوال : ایک عورت جب اپنی شادی کے دو ماہ بعد حیض سے پاک ہوئی تو اس کو خون کے چھوٹے چھوٹے دھبے لگنے لگے تو کیا وہ روزہ چھوڑ دے اور نماز ادانہ کرے ؟ یا وہ کیا کرے ؟
جواب : عورتوں کے حیض و نکاح کے مسائل کی پیچیدگیاں ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے ، ان پیچیدگیوں کے اسباب میں سے ایک سبب مانع حمل گولیوں کا استعمال ہے ، لوگ ان کثیر تعداد میں موجود پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اشکال کا وجود تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بلکہ عورتوں کے وجود کے وقت سے ہی پایا جاتا ہے ۔ لیکن مذکورہ سبب سے اس کی اتنی کثرت ہے کہ انسان ان کے حل کی تلاش میں حیران و ششدر ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے اور افسوس کے ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے ۔
لیکن مذکورہ مسئلہ میں عام قاعدہ یہ ہے کہ جب عورت پاک ہو جائے اور حیض و نفاس سے یقینی طور پر پاکی کو دیکھ لے ، حیض سے پاکی حاصل ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ عورت کو (شرمگاہ پر رکھی ہوئی) روئی سفید بر آمد ہو اور یہ سفیدی اس مٹیالے رنگ کی ، یا زردی مائل ، یا دھبے یا رطو بت کی سفیدی ہے ، جس کو طہر کے بعد عورتیں پہنچاتی ہیں تو مذکورہ تمام پانی حیض نہیں ہیں اور یہ نماز کی ادائیگی ، روزے رکھے اور خاوند کے اپنے بیوی سے جماع کرنے سے مانع نہیں ہیں ، کیونکہ یہ حیض نہیں ۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
كنا لانعد الصفرة والكدرة شيئا
[ صحيح ۔ سنن النسائي ، رقم الحديث 368 ]
”ہم زردی مائل اور مٹیالے رنگ کے پانی کا کچھ لحاظ نہیں کرتی تھیں ۔ “
اس کو بخاری نے روایت کیا ہے ۔ ابوداود میں یہ الفاظ زائد ہیں : بعد الطهرة [ صحيح سنن أبى داود ، رقم الحديث 307 ] ( حیض سے پاک ہونے کے بعد ) ’’ ہم عورتیں زرد اور مٹیالے کا کچھ لحاظ نہیں کرتی تھیں ۔ “اس کی سند صحیح ہے ۔
اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ یقینی طہر کے بعد اس قسم کی پائی جانے والی اشیا عورت کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس کو نماز ادا کرنے سے ، روزے رکھنے سے اور خاوند کے اس سے مباشرت کرنے سے روکتی ہیں ، لیکن عورت پر واجب ہے کہ وہ جلدی نہ کرے ، حتی کہ وہ طہر کو دیکھ لے ، کیونکہ بعض عورتیں جب ان کا خون خشک ہو جاتا ہے تو وہ عمل طہر دیکھنے سے پہلے ہی غسل طہارت کرنے میں جلدی کرتی ہیں ۔
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیویاں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اپنی خون آلود روئی بھیجا کرتی تھیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا ان کو کہتیں : لا تعجلن حتي ترين القصة البيضاه [صحيح البخاري ، رقم الحديث 314 ] ”سفید روئی دیکھنے تک جلدی نہ کرو ۔“ (محمد بن صالح العثمین رحمها اللہ )
مشتبہ خون کا حکم
سوال : جب عورت پر خون مشتبہ ہو جائے اور وہ تمیز نہ کر پائے کہ وہ حیض کا خون ہے یا استحاضہ کا یا کوئی اور خون ہے تو وہ اس کو کیا شمار کرے
جواب : عورت سے خارج ہونے والے خون میں اصل تو یہ ہے کہ وہ خون حیض ہو الا یہ کہ واضح ہو کہ وہ استحاضہ کا خون ہے ، سو اس بنا پر جب تک یہ واضح نہ ہو کہ وہ استحاضہ کا خون ہے عورت اس کو حیض کا خون ہی شمار کرے ۔
(محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ)

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔