یتیم کی کفالت

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

376- شرعاً یتیم کی عمر
بچہ اس وقت تک یتیم خیال کیا جائے گا جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے۔
بلوغت کی علامتیں، جن سے اس کی پہچان ہو جاتی ہے، حسب ذیل ہیں:
(1) نیند یا بیداری کی حالت میں شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا۔
(2) لڑکا ہو کہ لڑکی، زیر ناف سخت بال اگ آنا۔
(3) لڑکی ہو تو ان علامات کے ساتھ ماہواری کا آنا۔
اگر ان علامات بلوغت میں سے کسی بھی علامت کا ظہور نہ ہو تو علما کے صحیح قول کے مطابق پندرہ سال مکمل ہو جانے پر بچہ بالغ ہو جائے گا، کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ ان کو غزوۂ احد کے دن آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت ان کی عمر 14 سال تھی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت نہ دی، پھر خندق کے دن ان کو آپ کے سامنے لایا گیا، تب ان کی عمر 15 برس تھی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت مرحمت فرما دی۔
مطلب یہ ہے کہ ان کو اور دیگر چھوٹے بچوں کو سامنے لایا گیا کہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کس کی بلوغت ظاہر ہو چکی ہے تاکہ اس کو جنگ کے لیے اجازت دی جائے اور جو بالغ نہیں ہوا اس کو اجازت نہ دی جائے۔ جب ابن عمر کو 14 سال کی عمر میں واپس کر دیا گیا اور پندرہ سال کی عمر میں اجازت دے دی گئی تو یہ اس کی دلیل ہے کہ بلوغت کی عمر 15 برس ہے۔
[اللجنة الدائمة: 4992]

377- یتیم کی کفالت
نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا اس طرح ہوں گے۔ آپ نے تشہد کی انگلی اور درمیان والی انگلی میں کچھ فاصلہ کر کے ان سے اشارہ کیا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5304]
یتیم سے مراد وہ چھوٹا بچہ ہے جس کا باپ فوت ہو جائے، اور یتیم کی کفالت کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اس کے معاملات کی نگرانی اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ یتیم کی یتیمی تب تک رہتی ہے جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے، کفالت کرنے والے کے وجود سے یہ یتیمی ختم نہیں ہوتی لیکن جب وہ اپنے دادا یا کسی کے زیر کفالت تو دوسرے آدمی سے اس کی کفالت شرعاً اور قانونا ساقط ہو جاتی ہے۔
[اللجنة الدائمة: 17790]

378- یتیم کے مال میں تصرف کرنا
یتیم کے مال میں، اگر اس کی ذاتی مصلحت اور مفاد نہ ہو تو تصرف اور خورد برد کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ» [الأنعام: 152]
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یتیم کا مال کھانا سات ہلاک کر دینے والے کاموں میں سے ایک ہے، لہٰذا اپنی مصلحت اور ذاتی مفاد کے لیے تمہارے لیے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں، بلکہ سرپرست اور نگران کو چاہیے کہ وہ یتیم کے مال کی نمو کرے اور اسے اس کی مصلحت کے لیے تجارت میں لگائے۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ”یتیموں کے لیے ان کے مالوں سے رزق تلاش کرو، انہیں زکاۃ نہ کھا جائے۔“
[اللجنة الدائمة: 5504]

379- ولی (نگران) کا یتیم کا مال بڑھانا
ولی اگر تجارتی امور میں ماہر ہو اور وہ بغرض اصلاح یتیم کا مال بڑھائے اور اپنی طرف سے کوئی زیادتی نہ کرے تو خسارے کی صورت میں اس پر کوئی تاوان نہیں، بلکہ ولی کو چاہیے کہ وہ یتیم کا مال بلا نشو ونما، سرمایہ کاری اور پیداواری سرگرمی کے نہ چھوڑے کہ کہیں اسے صدقہ ہی کھا جائے۔
جہاں تک زکات کا تعلق ہے تو اگر اس کا مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو وہ واجب ہو جائے گی اور اس کا نگران اسے نکالے گا۔ اگر تجارت کا منافع ہو اور اصل رقم نصاب کو پہنچ جائے تو نفع کا سال اصل رقم کا سال شمار ہوگا۔
[اللجنة الدائمة: 7890]

380- یتیم کے مال سے قرض دینا
تتیموں کے مال سے ضرورت مند کو قرض دینا جائز نہیں، کیونکہ اس سے مال میں پیداوار نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے مال خطرے میں پڑ جاتا ہے، لیکن اس انداز میں ادھار پیسے دینا جس میں سود ہو نہ کوئی خطرہ بلکہ اس میں مال کی پیداوار ہو تو پھر کوئی حرج نہیں، جیسے بیع سلم، زیادہ منافع کے ساتھ ادھار کاروبار کی صورتیں، کیونکہ پیداواری سرگرمی میں ان کا مال لگانا شرعاًً مطلو ب ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ» [الأنعام: 152]
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔“

381- مختلف اداروں اور فلاحی امدادی تنظیموں کے ذریعے سے مال دے کر یتیموں کی کفالت کرنا
جو کسی ایسے قابل اعتماد امدادی ادارے اور فلاحی تنظیم کے ذریعے سے کسی یتیم کی کفالت کرتا ہے جو یتیموں کی رہائش، خوراک اور لباس جیسی بنیادی ضروریات مہیا کرتی ہے، ان کی تربیت و پرورش کا اہتمام کرتی ہے تو وہ شخص ان شاء اللہ یتیم کی کفالت کرنے والوں کے زمرے میں داخل ہو جا تا ہے اور جنت میں داخل کرنے والے اجر عظیم اور ثواب کثیر کا مستحق ہوگا۔
سہل بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔“ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی میں کچھ فاصلہ کر کے اشارہ کیا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5304]
یہ اجر عظیم صرف اسی تک محدود نہیں جو یتیم کی اپنے گھر میں پرورش کرتا ہے، لیکن یتیم جب زیادہ حاجت مند ہو اور کوئی شخص اس کو اپنے گھر لے جاتا ہے اور بڑے اہتمام سے اس کی پرورش کرتا ہے تو لازماً یہ شخص اس سے زیادہ اجر کا مستحق ہے جو صرف اپنے مال سے اس کی کفالت کرتا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 20062]

382- یتیم جب بالغ ہو جائے تو اس کا مال اس کے سپرد کرنے کی کیفیت
یتیم کو اس کا مال دو شرطوں کے ساتھ دیا جائے:
پہلی شرط: بالغ ہونا اور دوسری شرط: سمجھدار ہونا۔ یعنی ایسا کم سمجھ اور بیوقوف نہ ہو جو اپنا مال فضولیات اور غیر منافع بخش سرگرمیوں میں فنا کر دے۔
للہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ» [النساء: 6]
”اور یتیموں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھداری معلوم کرو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو۔“
پھر یہ مال عادل گواہوں کی موجودگی میں یا شرعی عدالت کی توثیق کے ساتھ ان کے سپرد کیا جائے۔
فرمان الہی ہے:
«فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا» [النساء: 6]
”پھر جب ان کے مال ان کے سپر د کرو تو ان پر گواہ بنا لو اور اللہ پورا حساب لینے والا کافی ہے۔“
[اللجنة الدائمة: 15531]

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔