شادی کے دو ماہ بعد بچے کی پیدائش

سوال : اگر شادی کے دو ماہ بعد کسی کے ہاں بچہ کی پیدائش ہو جائے تو کیا اسے جائز اولاد تصور کیا جا سکتا ہے؟
جواب : شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ کس طرح حلال کا ہو سکتا ہے جب کہ روح چار ماہ بعد پھونکی جاتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« ان احدكم يجمع فى بطن امه اربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضعة مثل ذلك ثم يبعث الله . . . . الروح » [بخاري، كتاب القدر : باب 6594، مسلم 2643]
”بلاشبہ تم میں سے ایک کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) جمع کیا جاتا ہے، پھر اس کے مثل جما ہوا خون، پھر اس کے مثل گوشت کا ٹکڑا ہو تا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے، اسے چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے، اس کے رزق، نیک بخت یا بدبخت ہونے کا، اس میں روح جھونک دی جاتی ہے۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کم از کم دو ماہ اور ولادت تک لگتے ہیں۔ یعنی کم از کم شادی کے چھ ماہ بعد اگر بچہ پیدا ہوتا ہو تو اسے اہل علم نے حلال شمار کیا ہے اور اس کے باپ کی طرف منسوب کرنا درست قرار دیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
«وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا . . . . ﴿15﴾ » [الاحقاف : 15]
”اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے اٹھائے رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا اور کا حمل اور دودھ چھڑائی کا زمانہ تیس مہینے ہے۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے یعنی اڑھائی سال بیان کی ہے جس میں چوبیس ماہ یعنی دو سال مدت رضاعت ہے اور باقی جو چھ ماہ بچتے ہیں وہ مدت حمل ہے کیونکہ مدت رضاعت کی قرآن کریم نے خود وضاھت کر دی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«و الوالدات يرضعن اولادهن حولين كاملين لمن اراد ان يتم الرضاعتة» [البقرة : 233]
”مائیں اپنی اولاد کو دوسال دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو۔“اس آیت کریمہ میں «حولين كاملين» کہہ کر یہ بات بتا دی ہے کہ مدتِ رضاعت دو برس ہی ہے۔
اسی طرح ایکٰ اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«و وصينا الانسان بوالديه حملته امه وهنا على وهن و فصاله فى عامين ان اشكر لي و لوالديك الي المصير» [لقمان : 14]
”اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں احسان کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف کی صورت میں اٹھائے رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے تاکہ تو میرا شکریہ ادا کرے اور اپنے والدین کا بھی، میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔“
اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ «وفصاله فى عامين» کہہ کر دودھ چھڑا نے کی مدت دو برس ہی بتائی ہے۔ لہٰذا شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ تو حلالی شمار ہو گا، اس سے کم مدت والا بچہ حلال نہیں ہو گا۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«و قد استدل على رضى الله عنه بهذه الاية مع التى فى لقمان : ﴿و فصاله فى عامين﴾ و قوله تبارك و تعالىٰ : ﴿ ولوالدات يرضعن اولادهن حولين كاملين لمن اراد ان يتم الرضاعة ﴾ على ان اقل مدة الحمل ستة اشهر و هو استنباط قوي و صحيح و و اقفه عليه عثمان و جماعة من الصحابة رضي الله عنهم» [تفسير ابن كثير7/ 257]
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سورہ احقاف کی اس آیت کو سورہ لقمان کی آیت (14) اور سورہ بقرہ کی آیت (233) کے ساتھ ملاکر استدلال کیا ہے کہ مدت حمل کم از کم چھ ماہ ہے، یہ استنباط قوی اور صحیح ہے اور اس پر ان کی موافقت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے کی ہے۔“
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«فالرضاع اربعة و عشروں شهرا والحمل ستة اشهر»
”مدت رضاعت چوبیس ماہ اور مدت حمل چھ ماہ ہے۔“
علامہ شقیطی رحمہ اللہ سورہ لقمان اور سورہ بقرہ کی مدت رضاعت والی آیات لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :
«بين ان امد الفصال عامان و هما اربعة و عشرون شهرا فاذا طر حتها من الثلاثين بقيت ستة اشهر فتعين كونها امد الحمل و هي اقله و لا خلاف فى ذلك بين العلماء» [تفسير اضواء البيان5/ 38]
”سورۃ لقمان اور سورۃ بقرۃ کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال بیان کی ہے جو چوبیس مہینے ہے، جب چوبیس ماہ کو آپ تیس ماہ میں سے نفی کر دیں تو باقی چھ ماہ رہ جائیں گے جس سے حمل کی مدت متعین ہو جائے گی اور یہ کم از کم مدت ہے اور اس مسئلے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔“
امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وفيه دليل على ان اقل مدة الحمل ستة اشهر لانه اذا حط منه الفصال حولان لقوله تعالىٰ : ﴿ حولين كاملين لمن اراد ان يتم الرضاعة﴾ بقي ذلك» [تفسير بيضاوي2/ 394]
”اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ کم از کم مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : «حولين كاملين» کی رو سے جب دو سال دودھ چھڑانے کی مدت کو تیس ماہ سے نکال دیا جائے تو چھ ماہ باقی رہ جاتے ہیں۔“
تفسیر جلالین میں ہے :
«ستة اشهر اقل مدة الحمل و الباقي اكثر مدة الرضاع» [تفسير جلالين ص/ 668]
”چھ ماہ کم از کم مدت حمل ہے اور باقی دو سال زیادہ سے زیادہ مدت رضاعت ہے۔“
علامہ زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وهذا دليل على ان اقل الحمل ستة اشهر لان مدة الرضاع اذا كانت حولين لقوله عزوجل : ﴿حولين كاملين لمن اراد ان يتم الرضاعة ﴾ بقيت للحملل ستة اشهر» [تفسيرالكاشف 4/ 302]
”یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے، اس لیے کہ اللہ کے فرمان «حولين كا ملين» کی رو سے مدت رضاعت دو سال ہے تو پھر (تیس ماہ میں سے چوبیس ماہ نفی کر دیں تو) مدت حمل چھ ماہ رہ جاتی ہے۔“
علامہ محمد آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”اس آیت کریمہ سے علی اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور علماء کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے، اس لئے کہ جب تیس ماہ میں سے دو سال دودھ چھڑانے کے نکال لیں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ ”مائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں جن کا ارادہ مدت رضاعت کو پورا کرنے کا ہو“ تو حمل کے لیے یہی چھ ماہ باقی رہ جاتے ہیں اور یہی بات اطباء نے بھی کہی ہے۔
جالینوس نے کہا ہے : ”زمانہ حمل کی مقدار کے متلق میں بڑا سخت متلاشی تھا تو میں نے دیکھا ایک عورت 184 راتوں میں بچے کو جنم دیا۔“ (یعنی چھ ماہ اور چار راتیں) ابن سینا نے اس مشاہدے کا دعویٰ کیا ہے۔“ [تفسير روح المعاني 18/26]
اس آیت کریمہ کی مزید تفسیر دیکھنے کے لئے ملاحظہ ہو :
تفسیر فتح القدیر للشوکانی(5/ 18)،
تفسیر ایسر التفاسیر(4/ 231)
تفسیر المراغی (27/ 18)
تفسیر معالم التنزیل (4/ 167)
احکام القرآن لابی بکر ابن العربی (4/ 1697)
تفسیر مدارک (2/ 553)
تفسیر قاسمی (8/ 445)
تفسیر فتح البیان (6/ 300)
بعجہ بن عبد اللہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہینیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا، چھ ماہ پورے ہوتے ہی اسے بچہ پیدا ہو گیا۔ اس کے شوہر نے اس بات کا ذکر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی جانب ایک آدمی بھیجا۔ وہ تیار ہو کر آنے لگی تو اس کی بہن نے آہ و بکا شروع کر دی۔ اس عورت نے اپنی بہن سے کہا: ”تم کیوں روتی ہو، اللہ کی قسم ! میں نے اللہ کی مخلوق میں سے اس آدمی کے علاوہ کسی سے اختلاط نہیں کیا، اللہ جو چاہے گا میرے متلق فیصلہ کرے گا۔“ جب وہ شخص اس عورت کو لے کر عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو یہ بات علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی۔ وہ تشریف لائے اور خلیفۃ المسلمین عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : ”آپ کیا کرنے لگے ہیں ؟“ تو خلیفہ نے جواب دیا : ”اس عورت نے چھ ماہ پورے ہوتے ہی بچہ کو جنم دیا ہے، کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟“ تو علی رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: ”کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ؟“ تو انہوں نے کہا: ”کیوں نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ”کیا آپ نے یہ آیت سنی «و حمله و فصاله ثلاثون شهرا» ”اس کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس ماہ“ ہے اور نے فرمایا ہے : «حولین کاملین» ”مدت رضاعت دو سال ہے“ جب تیس ماہ سے چوبیس ماہ نکال دیں تو باقی چھ ماہ رہ جاتے ہیں۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! میرا خیال ہی اس طرف نہیں گیا، جاؤ اس عورت کو میرے پاس لے آؤ۔ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال میں پایا کہ وو اس حمل سے فراغت حاصل کر چکی تھی۔ بعجہ بن عبد اللہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ کے مشابہ تھا۔ پھر جب لڑکے کے والد نے اسے دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم ! یہ میرا بیٹا ہے، مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ [تفسير ابن ابي حاتم 3239/10، تفسير الدر المنثور9/6]
مذکورہ بالا توضیح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ شادی کے چھ ماہ بعد جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے حلال شمار کیا جاتا ہے اور اس کے باپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور جو بچہ شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہو وہ کسی طرح بھی حلال نہیں ہو گا۔ اس میں بدکاری کو یقینی طور پر دخل ہے۔ والدین کو اپنی اولاد کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ بچوں کو بالغ ہونے کے بعد جتنا جلدی ممکن ہو مناسب رشتہ تلاش کر کے شادی کے بندھن میں باندھ دیں تا کہ وہ حرام کاری سے بچ سکیں جو والدین بلاوجہ اپنے بچوں کی شادیاں لیٹ کر دیتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہے جو مختلف گلی محلوں، سڑکوں، پارکوں، چوکوں، چوراہوں، ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں میں اپنی جوانی برباد کر دیتے ہیں اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ہندوانہ رسومات کو بالائے طاق رکھ کر کتاب و سنت کے مطابق اپنی اولاد کو بہت جلد رشتہ ازدواج میں منسلک کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کر کے پاکباز، متقی اور صالح انسان بن سکیں۔
——————

اس تحریر کو اب تک 23 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply