مانع حمل کا حکم اور مانع حمل گولیوں کا استعمال

 

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال: میرے باپ نے میری ہمشیرہ کی شادی کی، پھر وہ ہفتہ بھر ہمارے پاس رہی تو میرا باپ اس کو ہسپتال لے گیا تاکہ اس کو مانع حمل دوائی لے کر دے، پس اس کاکیا حکم ہے؟
جواب: : تیری اس بہن کے لیے یہ دوائی استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کے باپ کے لیے روا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو مانع حمل دوائی کھلائے، کیونکہ ایسا کرنا ”واد“ (زندہ درگور کرنا) اور نسل انسانی کو کم کرنے کے زمرے میں آتا ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
«تزوجوا الولود الودود فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة» [صحيح سنن أبى داود 158/3]
”شادی کرو، محبت کرنے والی اور بچے جننے والی ہے۔ کیونکہ میں تمھاری اس کثرت کے ساتھ قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخر کروں گا .“
اور مانع حمل گولیاں استعمال کرنے میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے، اور ان کے بھلائی سے خالی ہونے کی وجہ سے ہم ان سے پر ہیز ہی کرنے کی نصیجت کرتے ہیں۔ واللہ المستعان (مقبل بن ہا دی الوادعی رحمہ اللہ)

مانع حمل گولیاں استعمال کرنا کب جائز ہوتا ہے؟
سوال: شریت عورت کے لیے مانع حمل گولیوں کا استعمال کب جائز قرار دیتی ہے؟ اس غرض کے لیے کہ وہ چھوٹے بیٹوں کی تربیت کا اہتمام کر سکے؟
جواب: حالت مجبوری کے علاوہ مانع حمل گولیوں کا استعمال جائز نہیں ہے، اور مجبوری یہ ہے کہ اطباء تحقیق کے بعد فیصلہ دیں کہ عورت کا حاملہ ہونا اس کو موت کی دہلیز تک پہنچا دے گا۔ لیکن حمل کو موخر کرنے والی گولیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ عورت کو اس کی انتہائی ضرورت ہو، مثلاًً جب عورت کی صحت تھوڑے وقفے سے بار بار حمل کی متحمل نہ ہو، یا نیا حمل اس کے دودھ پیتے بچے کے لیے ضرر رساں ہو اور وہ حمل کو ضائع تو نہ کرے، البتہ اس میں مناسب وقفہ کر لے تو ضرورت کے تحت ایسا کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ یہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مشورہ کے بعد ہو۔
(صالح بن فوزان بن عبداللہ )

سوال: مانع حمل گولیوں اور اس کے متعلق تقسیم کیے جانے والے پمفلٹ کاکیا حکم ہے؟
جواب: زیر بحث مسئلہ پر تھوڑ اسا تامل اور غور کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ایک مقررہ مدت تک حمل کے وقتوں کی منصو بہ بندی کا سبب خاندانی حالات یا صحت ہو مثلاًً عورت کا حمل کی وجہ سے کمزور ہو جانا اور ضرر اٹھانا، یا بچہ کی ولادت کے وقت عورت کی زندگی کو خطرہ کا لاحق ہونا، یا پہلے بچے کا دودھ چھڑوانے سے پہلے اس کا حاملہ ہو جانا جو خود عورت کے لیے یا اس کے بچے کے لیے ضرر رساں ہو، لہٰذا ان حالات میں اور اس طرح کے دیگر حالات میں مانع حمل گولیوں کا استعمال جائز ہے۔ اور مانع حمل گولیوں کا استعمال اس عزل (جماع کے وقت عورت کی شرمگاہ سے باہر منی خارج کرنا تاکہ وہ حاملہ نہ ہو) کے مشابہ ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیا کرتے تھے، یا عزل سے نر م و آسان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق سوال کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ بلاشبہ یہودی یہ باتیں
کرتے ہیں کہ عزل کرنا چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«كذبت يهود، لو أراد الله أن يخلقه ما استطعت أن تصرفه» [صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 2171]
”یہودی جھوٹ بولتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو پیدا کرنا چاہے تو وہ (عزل کرنے والیاں) اس کو روک نہیں سکتیں۔“
اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
«كنا نعزل و القرآن ينزل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه»
[صحيح البخاري، رقم الحديث 4911 صحيح مسلم، رقم الحديث 11440]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول قرآن کے دور میں ہم عزل کیا کرتے تھے۔“
یعنی اگر عزل ناجائز ہوتا تو قرآن اس سے منع کر دیتا ہے تو گویا عزل تقریر حکمی کے ذریعہ جائز ہوا۔ مترجم
قاضی ابویعلی وغیرہ سے مروی ہے کہ عبید بن رفاعہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: علی، زبیر اور سعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے عزل پر مذاکرہ کیا اور نتیجتاً کہا: عزل کرنے میں کوئی حرج نہیں، ان میں سے ایک آدمی نے کہا: بلاشبہ یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ عزل چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: سات دور گزرنے سے پہلے (اسقاط حمل یا عزل وغیرہ کرنے پر)زندہ درگور کرنے کا حکم نہیں لگتا ہے: پہلے وہ ایک بوٹی بن جاتا ہے، پھر اس میں ہڈیاں بن جاتی ہیں، وہ سات دور اس طرح کہ پہلے دور میں بچہ مٹی کا خلاصہ ہوتا ہے، پھر وہ نطفہ ہوتا ہے، پھر وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر ان ہڈیوں پر گو شت پہنا دیا جاتا ہے اور پھر وہ ایک اور (مکمل انسان کی) صورت بن جاتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: (اے علی !) اللہ تیری عمر دراز کرے تو نے یہ سچ فرمایا ہے۔
اور فقہاء نے حمل کو چالیس دن کی مدت کے اندر، جب وہ صرف نطفہ ہی ہوتا ہے، دوائی پی کر ساقط کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
لیکن جب مانع حمل گولیوں کا استعمال افزائش نسل کو ناپسند کرتے ہوئے یا کثرت اولاد کی صورت میں اخراجات کے بڑھ جانے کے خوف سے یا اسی قسم کی کسی دوسری وجہ سے نظام حمل کو مکمل طور پر ختم کرنے کی غرض سے ہو تو یہ حلال اور جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رب العالمین کے ساتھ بدگمانی ہے (کہ وہ زیادہ بچوں کو رزق نہ دے سکے گا) اور سید المرسلین کی سنت کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت کے ساتھ دوسری امتوں پر کثرت و غلبہ کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
(محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ)

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔