لاٹری کا حکم

تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

61- لاٹری
سوال یہ مختلف نمبرز ہوتے ہیں جو بہت بڑی تعداد میں نمبروں والے کاغذوں کی صورت میں جاری کیے جاتے ہیں، پھر ان کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور قرعہ اندازی کے دن کچھ لوگ نفع کماتے ہیں اور کچھ خسارہ، ان منافع بخش اوراق کو خریدنے کے متعلق اسلام کیا کہتا ہے؟ خصوصاً انسان میں انتہائی معمولی رقم کے بدلے خریدتا ہے لیکن وہ ان سے غیر معمولی منافع بھی کھا سکتا ہے اور خسارہ بھی پا سکتا ہے۔ کیا اس منافع سے فقراء اور محتاجوں پر صدقہ کیا جا سکتا ہے؟
جواب یہ عمل اور روش اسلام میں حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شرک اور شراب نوشی کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے کیونکہ یہ میسر (جوا) ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ» [المائدة: 90]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسرگندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“
لہٰذا آدمی کے لیے جوا کھیلناجائز نہیں، چاہے وہ اس طریقے سے ہو یا کسی اور طریقے سے کیونکہ قمار بازی بلاشبہ جوا ہے اور جوا حرام ہے، یہ شراب نوشی، بت پرستی اور تیروں سے قسمت آزمائی کا ہم قرین ہے، اور اس خبیث منافع سے صدقہ نا قابل قبول ہے کیونکہ یہ حرام اور خبیث کمائی سے صدقہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یقیناً اللہ تعالیٰ طیب اور پاک ہے اور وہ طیب کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا۔“ [صحيح مسلم 1015/65]
لیکن جو شخص اس عمل سے توبہ کر لے تو اس طریقے سے جو منافع اس نے کمایا ہے، اسے چاہیے کہ اس کا صدقہ کر دے یا اسے رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے، لیکن نیت اس مال سے خلاصی پانے کی ہو نہ کہ اس سے ثواب حاصل کرنے کی، کیونکہ اس سے خلاصی پانے کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ» [التغابن: 16]
”سو اللہ سے ڈرو جتنی تم طاقت رکھو۔“
کیونکہ اگر وہ قرب الہی کے حصول کی نیت رکھتا تو اس اعتبار سے اس کا صدقہ کرتا کہ وہ مال اس کی ملکیت میں تھا، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ اسے اپنی ملکیت سے خارج کرنا چاہتا، ایسی صورت میں وہ اس سے عہدہ برا ہو سکتا ہے نہ وہ مال اس سے قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ خبیث اور حرام کمائی ہے اور اللہ پاکیزہ کے سوا کچھ قبول نہیں کرتے۔
میں اپنے مسلمان بھائیوں کو تقوی اختیار کرنے کی نصیحت اور تلقین کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کو پرہیز گاری اختیار کرنے ہی کی تلقین کی ہے ان تمام معاملات کو، جو کسی بھی رنگ میں یا کسی بھی نام کے ساتھ دھوکے اور قمار بازی پر مبنی ہوں، ترک کر دیں۔
حقائق شکلیں بدل جانے سے یا خوشمنا نام دے دینے سے بدل نہیں جاتے، خرید و فروخت اور اجارہ وغیرہ جیسے معاملات کے ہوتے ہوئے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے حلال قرار دیے ہیں، ان حرام معاملات کی کوئی ضرورت نہیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 8/253]

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔