غیر اللہ سے مدد مانگنا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا ہے ؟ شریعت کی نظر میں اس کی قباحت کی صراحت فرما دیں۔
جواب : اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ ایسی اشیاء کے حصول کے لئے جو مخلوق کے اختیار میں نہیں ہیں،، مخلوق میں سے کسی فرد کو پکارنا شرک ہے اور پھر مردہ کو جو نہ سن سکتا ہے اور نہ جواب دے سکتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ﴾

’’ اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تو نے یہ کام کیا تو ظالموں میں شمار ہو گا۔ “ [ 10-يونس:106]

* اس آ یت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا ہے کہ کوئی غیر اللہ کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ﴾

’’ اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کر دے تو اس مصیبت کو دور کر نے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ “ [ 10-يونس:108]

صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا :
واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك
’’ جان لو ! اگر ساری امت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو نفع نہیں پہنچا سکتی مگر وہ جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ “ [ترمذي، كتاب صفةالقيامة : باب منه 2016]

قرآن کریم میں ایک مقام پر ہے :
﴿إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّـهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّـهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ﴾

’’ بے شک جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، وہ تمھارے لیے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ پس تم اللہ تعالیٰٰ کے ہاں سے رزق مانگو اور اس کی عبادت کرو۔ “ [29-العنكبوت:17]

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ﴾
’’ اور ایسے لوگوں سے زیادہ کون گمراہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک ان کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادات سے انکار کر دیں گے۔ “ [46-الأحقاف:5، 6]

اس آ یت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ غیر اللہ کو حاجت روائی کے لیے پکارنا ان کی عبادت ہے حالانکہ انسان صرف اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے :
﴿أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ﴾

’’ مجبور و بے بس شخص کی دعا کو قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے ؟ [27-النمل:62]
یہ چند دلائل ہیں ورنہ اس کے بیان کے لیے قرآن و سنت میں کئی نصوص موجود ہیں جن کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ وہ سکے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراف کا ذکر کیا ہے۔ اگر کسی بزرگ کی قبر پر جا کر حاجت روائی کے لیے پکارنا درست ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بزرگ دنیا میں کون ہو سکتا ہے ؟ لیکن حالت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر انھیں کسی حاجت کے لیے کبھی نہیں پکارا۔ اگر یہ کام جائز ہوتا تو صحابہ خصوصا خلفائے راشدین کو اپنے دور میں بڑی بڑی ضرورتوں اور مصائب کا سامنا تھا، وہ ضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آتے۔ بالکل اسی طرح دعا کا مسئلہ ہے۔ ان جلیل القدر صحابہ میں سے کسی نے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دعا کر دیں۔ ہاں ! زندگی میں جو واقعتاً بزرگ ہو اس سے دعا کروانا درست ہے اور اس میں بھی بزرگ نہیں مانگا جاتا بلکہ اس سے عرض کی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے ہماری بہتری کے لیے دعا کرے۔

اس تحریر کو اب تک 67 بار پڑھا جا چکا ہے۔

This Post Has One Comment

  1. Muhammad Munir

    ما شاءاللہ تعالیٰ
    بہت ہی عمدہ اور ایمان افروز تحریر

Leave a Reply