اصول ایمان

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ
”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی نازل کردہ کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت کو مان لو۔ نیز اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو۔ “ [صحیح مسلم/الايمان : 93]
فوائد :
لفظ ايمان ، امن سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی امن و اطمینان ہے۔ اس لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہا جاتا ہے۔ جس سے لوگ اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے مال و جان کے متعلق بےخوف ہو جائیں۔ [مسند احمد ص206 – ج 2]
ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف جو اصول و ارکان اور احکام و مسائل لے کر آئے ہیں۔ ان کی تصدیق کی جائے اور اس کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔ پھر زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کيا جائے۔ گویا ایمان کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
➊ دل سے تصدیق
➋ زبان سے اقرار
➌ دیگر اعضاء سے التزام عمل و متابعت
یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود مومن نہیں ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ایمان کے اصول و ارکان چھ ہیں۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
➊ اللہ پر ایمان لانا
➋ فرشتوں کو تسلیم کرنا
➌ اس کی کتابوں پر یقین رکھنا
➍ اس کے رسولوں کو ماننا
➎ یوم آخرت کی تصدیق کرنا
➏ اچھی یا بری تقدیر پر ایمان رکھنا
تمام انبیاء کرام علیہم السلام ایمان کے انہی چھ اصولوں کی تشریح کے لئے تشریف لائے، انہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل فرمائیں، ان تمام اصولوں کو ماننے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔

اس تحریر کو اب تک 17 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply