رسولوں پر ایمان لانا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ
” میں اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام رسولوں کو مانتا ہوں۔ “ [صحيح بخاري / الجنائز : 3011]
فوائد :
اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ کے ایک یہودی لڑکے ابن صیاد کی پشت پر اپنا دست مبارک مار کر فرمایا : ”تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔“ اس نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اُمی لوگوں یعنی عربوں کے رسول ہیں۔ پھر ابن صیاد نے کہا : آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھکا دے کر فرمایا : ”میں اللہ اور اس کے رسولوں کو مانتا ہوں۔“ [صحيح بخاري / الادب : 6173 ]
رسول پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ صدق دل سے اس بات کا اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں انہی سے ایک رسول مبعوث کیا ہے۔ تاکہ وہ لوگوں کی عبادت کرنے کی دعوت دے اور مبعودان باطلہ کا انکار کرے۔ نیز یہ کہ حضرات انبیاء اور رسول تمام کے تمام سچے، نیکوکار، رشد و ہدایت کے حامل، کرم پیشہ، نیک، متقی، امین اور راہنما تھے۔ ظاہری دلائل اور روشن نشانیوں کے ذریعے اپنے رب کی طرف سے تصدیق شدہ تھے اور انہوں نے ہر اس چیز کو اپنی قوم تک پہنچایا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی تھی۔ اسے نہ تو چھپایا اور نہ کوئی تبدیلی کی اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی اضافہ کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”رسولوں کے ذمے اللہ کے احکام کو کھول کر پہنچا دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔“ [النحل : 35]
کسی قرآنی آیت یا صحیح حدیث سے ان انبیاء علیہم السلام کی تعداد کا پتہ نہیں چلتا، البتہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ [مسند احمد : 178؛ ج 5]
بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہدایت میں راہنمائی کے لئے رسول ضرور بھیجا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔ [فاطر : 24 ]

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply