اسلام میں پکی قبروں کی حیثیت

تحریر: امام محمد بن علی الشوکانی

بت پرستی اور قبر پرستی کا آغاز 
سب سے پہلے بت پرستی اور قبر پرستی کی  بیماری قوم نوح میں آئی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
﴿قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا * وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا * وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (71-نوح: 21، 22، 23)
” (کفار سے مایوس ہو کر) حضرت نوح علیہ السلام یوں دعا کرنے لگے۔ پروردگا! (یہ کافر لوگ) میری بات نہیں مانتے۔ یہ ان (بتوں) کی پیروی کرنے پر اصرار کرتے ہیں جو ان کے مال و دولت اور اولاد میں افزائش کرنے سے عاجز ہیں۔ البتہ ان کی نحوست سے ان (کفار) کا نقصان ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے (میرے ساتھ) بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تم اپنے معبودوں (کی پوجا) سے ہرگز باز نہ آنا خاص کر سواع، یعوق، یغوث اور نسر کی عبادت پر ڈٹے رہنا‘‘۔ 

یہ حضرت آدم الله عليه السلام کی اولاد میں سے نیک لوگ تھے۔ ان کی زندگی میں یہ لوگ ان کے پیروکار تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاروں نے اکٹھے ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ ہم ان کی تصویریں اور مجسمے بنائیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عبادت میں زیادہ شوق پیدا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ان بزرگوں کی تصویریں اور مجسمے بنائے۔ جب یہ لوگ اس عالم آب و گل سے رختِ سفر باندھ کر ملك عدم میں چلے گئے اور ان کی اولادیں بڑی ہوئیں تو ان سے کہا گیا کہ وہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان سے بارش طلب کرتے تھے۔ اس کی بات سن كر ان کے پرستار بن گئے آہستہ آہستہ تمام عرب ان کا پجاری بن گیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے مذکور ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں سے صالح اور نیک انسان تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاران کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ پھر ان کی تصویریں اور مجسمے بنائے، پھر کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔ (صحیح بخاری: کتاب التفسیر) 

اس بات کی تصدیق صحیحین اور دیگر کتب حدیث کی اس روایت سے ہوتی ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مذکور ہے۔

قبروں پر مسجد بنانے کی ممانعت 
 ایک مرتبہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ملک حبشہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک گرجا گھر دیکھا جو تصویروں اور بتوں سے بھرا پڑا تھا۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس گرجے کا ذکر کیا یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ وہ لوگ ہیں جب ان میں سےکوئی نیک اور صالح انسان فوت ہو جاتا تو وہ اس کی قبر كو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ یہ لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں“۔ (صحيح مسلم ج : 1 ص :20) 

ابن جریر رحمہ اللہ نے افرئيتم اللات والعزى کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ لات ایک ایسا شخص تھا جو حاجیوں کو ستو بھگو کر پلایا کرتا تھا۔ جب وہ فوت ہو گیا تو لوگ اس کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ 

صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحلت سے چند روز پیشتر فرمایا: الا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبيائهم مساجد فاني انهاكم عن ذالك “. (صحيحين مشكوة ج : 1 ص :69)
”میری بات غور سے سنو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد ہی تصور کرتے تھے۔ خبردار!تم ایسی غلطی مت کرنا۔ میں تم کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کرتا ہوں“۔ 

صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب اللہ کے حکم سے ملک الموت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنے چہرہ انور سے دور ہٹائی۔ پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر جب ہوش آیا تو فرمایا:
لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مساجد۔ (مشکوة ص :69/ صحیح بخاری، ج:2 ص : 639 نیل الاوطار، ج:4 ص: 97)
”یہود و نصاری پر لعنت خداوندی ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو جدہ گاہ بنا لیا“۔  صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت کے موقعہ پر فرمایا : 

لعن الله اليهود والنصاري اتخذوا قبور انبيائهم مساجد ولو لا ذالك لا برز قبره غير انه خشي ان يكون مسجدا (صحیحین مشکوہ ج :1 ص1 : 19)
”یہود اور نصاری پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ حضورا کرم صلی اللہ علیہ سلم کی قبر مبارک کو سجدہ گاہ بنا لیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک باہر بنائی جاتی۔ مگر خدشہ تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو آپ کی قبر مبارک سجدہ گاہ بن جائے گی“۔ 

امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے جید سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے برے وہ لوگ ہوں گے جن پر قیامت قائم ہو گی اور وہ لوگ جو قبروں کو مسجدوں کی حیثیت دیتے ہیں“۔ (الفتح الربانی، ج : 24، ص : 50) 

امام احمد اور اہل سنن نے زید بن ثابت کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، قبروں پر مسجدیں بنانے والوں پر اور قبروں پر چراغ روشن کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو“۔ (نیل الاوطار، ج : 4 ص : 97 ) 

 قبروں سے گنبد اور قبے گرانے کا حکم 
 صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ابوالہیاج اسدی سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا کر کہا: کہ میں آپ کو ایسے کام پر مامور کرتا ہوں جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مامور کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ :
”اے علی ! تمہیں جو بت اور تصویر نظر آئے اسے مٹا دو اور جو اونچی قبر دکھائی دے اسے دیگر قبرووں کے برابر کر دو۔ “ 
(مشكوة ج : 1 ص : 147، صحيح مسلم ج : 1 ص : 312) 

تنبیہ: آج سے تقریباً نصف صدی پیشتر جب کہ شاہ خالد مرحوم کے والد عبدالعزیز مرحوم و مغفور نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں تھامی تو اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے قبرستانوں میں جو گنبد اور روضے نظر آئے مسمار کر دیئے۔ جسے دیکھ کر قبر پرستوں کے قلوب میں رنج و غم کی لہر دور ہو گئی۔ انہوں نے شاہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے اہل بیت، صحابہ کرام اور بزرگان دین کی قبروں کے گنبد اور روضے کو مسمار کر کے بہت برا کام کیا ہے۔ چنانچہ شاہ کے خلاف نازبیہ الفاظ استعمال کیے گئے اور تمام اسلامی ممالک میں کہا گیا کہ شاہ بزرگوں کا بے ادب اور گستاخ ہے۔ شاہ نے جب یہ شور و غوغا سنا تو بڑے بڑے علماء کو مدعو کیا اور ان سے سوال کیا کہ بتاؤ قرآن و سنت کی رو سے میرا قبروں سے گنبد اور قبے گرانا ناجائز ہے ؟ پھر کہا: اگر آپ قرآن و سنت کی روشنی میں قبروں پر گنبد اور روضے بنانا ثابت کر دیں تو میں ان سب کے روضے سونے اور چاندی کے بنانے پر تیار ہوں مگر یہ سن کر تمام لاجواب ہو گئے اور کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔

 قبے اور مزارات کی شرعی حیثیت 
صحیح مسلم میں سیدنا ثمامہ رضی اللہ عنہ بن شفی کی روایت سے بھی ایسی حدیث مذکور ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر اونچی قبر کو جو شریعت کی مقدار سے زائد ہو گرانا لازمی اور فرض ہے۔ 

قبروں کو اونچا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس پر گنبد بنایا جائے۔ تو ان باتوں کی بلاشبہ اور یقیناً ممانعت ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے گرانے پر مامور کیا تھا۔

ابن حبان نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحجصص القبر وان يبني عليه وان يوطاءَ (مشكوة ج : 1 ص : 148)
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونے گچ کرنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا اور قبر کو روندنے سے بھی منع کیا“۔ 

صحیح مسلم کی حدیث میں یہ الفاظ زائد آئے ہیں۔
وان يكتب عليه ”یعنی اس پر کوئی کتبہ لگانے یا عبارت لکھنے سے منع فرمایا“۔
حاکم کہتے ہیں کہ قبر پر کتبہ لگانے کی ممانعت کی حدیث مسلم کی شرط کے مطابق ہے اور یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
کسی قبر کے ارد گرد دیوار بنانا منع ہے۔ 

 اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ قبر پر عمارت بنانا ممنوع ہے۔ اور منع کا اطلاق قبر کے ارد گرد دیوار بنانے پر بھی صادق ہوتا ہے۔ جیسے اکثر لوگ مردوں کی قبروں کے ارد گرد ایک ہاتھ یا اس سے اونچی دیوار بناتے ہیں کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ قبر کو مسجد بنایا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قبر کی وہ متصل جگہ ہے جو اس کے ارد گرد ہوتی ہے جہاں پر دیوار تعمیر کی جاتی ہے۔ اس کا اطلاق گنبدوں، مسجدوں اور بڑے بڑے مزاروں پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ قبر اس کے وسط میں یا ایک جانب ہوتی ہے۔ جسے معمولی سی سوجھ بوجھ ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ بادشاہ نے فلاں شہر یا فلاں بستی پر فصیل بنائی۔ حالانکہ دیوار کی تعمیر شہر کے چاروں طرف ہوتی ہے بستی یا مکان کے ارد گرد ہوتی ہے۔ اب اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ اطراف جہاں پر دیوار تعمیر کی گئی ہے شہر اس کے وسط میں ہو جیسے چھوٹے شہروں، قصبوں اور تنگ مقامات میں ہوتا ہے۔ یا وسط سے کچھ دور ہو جیسے بڑے شہروں اور وسع مقامات میں ہے۔ جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس لفظ کا اطلاق مذکورہ بالا معنی پر نہیں ہوتا وہ لغت عرب سے ناواقف ہے اسے اس بات کا علم ہی نہیں کہ اہل عرب اسے اپنی زبان میں کن معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ 

اہل قبور کو نفع و نقصان کا اختیار نہیں 
 جب یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ گئی تو آپ کے لیے واضح ہو گیا کہ قبروں کو اونچا کرنا ان پر گنبد بنانا، مسجد بنانا اور مزار تعمیر کرنا منع ہے۔ اور ایسا کام کرنے والے کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لعنت فرمائی، کبھی فرمایا اس قوم پر اللہ کا شدید غضب ہوا جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ کبھی ان کے لئے یہ بددعا فرمائی کہ ان پر اللہ کا غضب ہو کیونکہ انہوں نے اس کی نافرمانی کی۔ یہ باتیں صحیح حدیث سے ثابت ہیں۔ بعض اوقات اس سے منع فرمایا اور کبھی ان کو گرانے کے لئے کسی آدمی کو بھیجا اور کبھی اس کو یہود و نصاریٰ کا عمل بتایا اور کبھی فرمایا میری قبر کو بت نہ بنانا اور کبھی فرمایا میری قبر کو عید نہ بنانا یعنی سال بہ سال میلے نہ لگانا جیسے اکثر اہل قبور کرتے ہیں وہ ان مردوں سے حسن عقیدت رکھنے والوں کے لئے ایک دن معین کرتے ہیں۔ پھر اس روز تمام لوگ اس قبر کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور وہاں پر قربانیاں کرتے ہیں اور چلےکاثتے ہیں۔ جیسا کہ ان ذلیل اور خسیس الطبع لوگوں کی حرکات شنیعہ سے ہر آدمی واقف ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کی عبادت ترک کر دی۔ حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا اور رزق دیا، وہی ان کو مارے گا اور پھر قیامت کو وہی زندہ کرے گا۔ وہ اللہ کے بندوں کے پجاری بن گئے حالانکہ وہ منوں مٹی کے نیچے ربے پڑے ہیں۔ وہ اپنے نفع و نقصان پر قادر نہیں اور نہ کسی کی تکیف دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ لوگوں کو بتلا دیں کہ :
﴿ . . . لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا . . . ﴾ (7-الأعراف:188)
” . . . . مجھے تو انپے نفح و نقصان کا بھی کوئی اختیار نہیں . . . . “۔
اسی طرح اپنی لاڈلی اور چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اے فاطمہ ! محمد 
(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی ! میں اللہ کے ہاں تیرے کسی کام نہیں آؤں گا“۔ 

غور کیجئے ! سید البشر اور اللہ کی برگزیدہ ہستی نے اپنے پروردگار کے حکم کو کیسے وضاحت سے ذکر فرمایا کہ میں اپنے نفح و نقصان کا ما لک نہیں۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس اور ایسے نزدیک ترین قرابت داروں اور اپنی محبوب ترین بیٹی کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تو باقی لوگ جو انبیاء کی طرح معصوم نہیں اور نہ رسول بن کر آئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا ؟ ان کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امت محمدیہ اور ملت اسلامیہ کے افراد ہیں۔ یہ لوگ نہایت عاجز ہیں۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عجز کا اظہار فرمایا۔ اور اپنی امت کو اس کی خبر دی جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ لوگوں سے کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ اور اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کے کسی کام نہیں آؤں گا۔

کتنی تعجب انگیز بات ہے کہ ایک معمولی سا علم اور ادنیٰ معرفت رکھنے والے انسان کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو نفح پہنچانے اور ان کی تکیف دور کرنے پر قادر ہے۔ حالانکہ وہ اس نبی کی امت کا ایک فرد ہے جس نے اپنے متعلق فرمایا :
”مجھے اپنے نفح و نقصان کا کوئی اختیار نہیں“۔

اور یہ شخص آپ کے پیروکاروں میں سے ایک ہے۔ کیا آپ کے کانوں نے اس سے بڑی گمراہی کی بات کبھی سنی ؟ جو قبروں کے پجاری کہتے ہیں ؟  . . . . انا الله وانا اليه راجعون . . . . 
ہم اس کی پوری وضاحت اپنے رسالہ الدر النضيد فى اخلاص كلمة التو حيد میں کر چکے ہیں۔ 

 قبروں پر گنبد اورقبے بنانے کے مفاسد 
 یہ یقینی بات ہے کہ لوگوں میں اس اعتقاد کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے لوگوں کو قبریں اونچا کرنے کی ترغیب دی اور اس کام کو ان کے لیے نہایت خوبصورت دکھلایا اور انہیں ترغیب دی کہ بزرگوں کی قبروں کو غلافوں سے ڈھانپیں اور ان کو چونے گچ بنائیں۔ اور ان پر بیل بوٹے بنائیں۔ اب جاہل آدمی جب کسی قبر کو دیکھتا ہے کہ اس کی عمارت پرگنبد ہے تو اس میں داخل ہوتا ہے۔ اندر جا کر قبر پر خوبصورت پردے ارغلاف دیکھتا ہے اوپر روشنی کرتے ہوئے چراغ بھی اسے نظر آتے ہیں۔ اس کے ارد گرد خوشبو دار انگیٹھیوں کو دیکھتا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر اس کے دل میں صاحب قبر کی تعظیم و تکر یم کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ذہن اس میت کی تعریف بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کے دل اور دماغ پر اس کا خوف اور رعب چھا جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اس کے دل میں شیطانی عقائد جنم لیتے ہیں مسلمانوں کو قابو میں لانے کے لیے شیطان کا یہ سب سے بڑا ہتھکنڈا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا مضبوط ترین ذریعہ ہے۔ بدیں وجہ آہستہ آہستہ اس کے پاؤں اسلام سے لڑکھڑا نے لگتے ہیں۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ صاحب قبر سے ایسی درخواستیں کرنے لگتا ہے کہ جن کو منظور کرنے کی اللہ کے سوا کسی کو قدرت نہیں۔ اس وقت اس کا نام موحدین کی جماعت سے خارج ہو جاتا ہے اور مشرکین کے زمرہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ 

بعض اوقات پہلی مرتبہ قبر کو دیکھتے ہی مرعوب ہو کر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب مذکورہ بالاصفت کے مطابق کسی قبر کو دیکھتا ہے تو اس پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور پہلی ملاقات پر ہی اس کے دل میں یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگوں نے اس مردہ کی قبر کا خاص اہتمام کیا ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے، یہ کوئی اللہ کی بزرگ ہستی یا خدا رسیدہ بندے کی قبر ہے . لوگ اس سے دینی اور دنیاوی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ایسے بزرگوں کی قبروں کو دیکھ کر اپنے آپ کو حقیر تصور کرتا ہے اور اس کی قبر پر جھکتا ہے .

 صاحب قبر کے متعلق جھوٹی کہانیاں 
بعض اوقات شیطان اور اس کے بھائیوں یعنی بنی آدم میں سے ایک جماعت اس کی قبر پر متعین کرتا ہے۔ جو زائرین وہاں آتے ہیں وہ لوگ ان کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں اس کا ہول اور خوف پیدا کرتے ہے۔ کچھ باتیں اپنی طرف سے بنا کر اس میت کی طرف منسوب کرتے ہیں جسے جاہل لوگ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بعض اوقات جھوٹ اور فریب کی کہانی خود بنا کر اسے بزرگوں کی کرامات شمار کرتے ہیں اور اس کی نشر و اشاعت عوام میں کرتے ہیں۔ اپنی مجالس میں ایسی کرامات کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔ جب لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو وہاں پر ان کی زبان پر وہی کہانیاں اور کرامتیں ہوتی ہیں۔ 

اس طریقہ سے ان کا جھوٹ بکثرت لوگوں میں پھلیتا جاتا ہے اور لوگ اسے حقیقت پر محمول کرنے لگتے ہیں۔ جو شخص ان کے متعلق حسن ظن رکھتا ہے وہ فوراً ان کی باتوں اور کہانیوں کا یقین کر لیتا ہے۔ اور ان کی کذب و افتراء کی کہانیوں کو اس کی عقل صحیح باور کرنے میں ذرہ بھر نہیں ہچکچاتی۔ وہ جیسے واقعہ اور کہانی سنتا ہے ویسے ہی اپنی مجلسوں میں اس کا ذکر کرتا ہے۔

قبر کی نذر ماننا 
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جاہل لوگ مشرکانہ عقائد میں مبتلا ہو کر مصیبت عظمیٰ کے پنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ اور اپنا عمدہ اور بہترین مال ان کی نذر کرتے ہیں۔ اور وہاں پر خرچ کرتے ہیں کیونکہ ان کے نام پر خرچ کر کے ان سے بہت بڑے فائدے اور ثواب کے امیدوار ہوتے ہیں۔ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑی عبادت، مفید اطاعت اور مقبول نیکی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا مدّعا اور مقصود حاصل ہو جاتا ہے جن کو بنی آدم کی اولاد میں شیطان نے اس قبر پر اپنے حپلے چانٹے بنا رکھا ہوتا ہے۔ یہ عجیب و غریب قسم کے کام ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کہ دلوں میں اس کا رعب اور خوف ڈالتے ہیں۔ اور کئی قسم کی کذب و افتراء کی داستانیں جوڑتے ہیں۔ تاکہ انہیں جاہل اور نادان لوگوں کا مال حاصل ہو۔ اس ملعون ذریعہ اور شیطانی وسیلہ سے قبروں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ قبر کے مجاور لوگوں کی دولت ناجائز ذریعے سے اکھٹی کرتے ہیں۔ ان میں سے جو قبروں کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں اگر ان کا قبروں پر وقف کردہ مال کا حساب لگایا جائے تو اس قدر ہو جائے کے مسلمانوں کے ایک بڑے شہر کے باشندگان کی خوراک کے لیے کافی ہو۔ اگر ان کے باطل نذرانوں کو فروحت کیا جائے تو اتنی رقم حاصل ہو جو فقیروں کی ایک بڑی جماعت کے لیے کافی ہو۔ یہ سب کچھ معصیت اور گناہ ہے۔ 

چنانچہ ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
لا وفاء لنذر فى معصيته (مشكوة ج : 2 ص : 297)
”اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں“۔ 

یہ نذر بھی ایسی ہے کیونکہ اس سے رضائے الہیٰ مقصود ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ تمام نذریں ایسی ہیں کہ ان کو پورا کرنے والا اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے اور اس کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ کیونکہ یہ نذر ماننے والے کے دل میں ایسا اعتناء پیدا کرتی ہے کے جس کے نتیجہ میں وہ مُردوں کو الوہیت کے درجہ پر تصور کرنے لگتا ہے۔ پھر دین کے معاملہ میں اس کے پاؤں میں استقلال نہیں رہتا اور قدم قدم پر لڑکھڑاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنا پیارا مال اور دل پسند مال خرچ کرتا ہے تو شیطان اس کے دل میں اس کی محبت اور تعظیم کا بیج بوتا ہے اور قبر کی تقدیس کا اعتقاد پیدا کرتا ہے۔ صاحب قبر کی تعظیم و تکریم کا جذبہ دل میں ابھارتا ہے۔ اور قبروں پر اس کے اعتقاد میں غلو پیدا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ باطل عقائد میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور اسلام کی طرف واپس نہیں آتا۔ ایسی ذلت و رسوائی سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شخص ان فریب خوردہ لوگوں سے مطالبہ کرے کہ جو نذرانے وہ قبر پر دے رہے ہیں وہ کسی نیکی اور اطاعت کے کام پر لگائیں تو وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ بلکہ ایسا کرنے کا ان کے دلوں میں خیال نہیں آئے گا۔

غور کیجئے ! شیطان نے ان کو کس قدر بھول بھلیوں میں لگایا ہوا ہے اور گمراہی کے گڑھے میں کیسا گرایا ہے۔ وہ گڑھا ایسا ہے کہ اس میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

 قبروں کو اونچا کرنے کی خرابیاں 
قبروں کو اونچا کرنے، چونے گچ بنانے اور خوبصورت و پختہ بنانے میں کئی خرابیاں ہیں۔ کچھ خرابیوں اور مفاسد کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ اور کئی خرابیاں اور مفاسد ہیں جو قبروں کو اونچا کرنے والے اسلام کی چار دیواری سے باہر پھینک دیتی ہیں اور دین کے بلند و بالا ٹیلے سے منہ کے بل نیچے گراتی ہے۔ 

ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے عمدہ چوپائے اور بہترین مویشی قبر کے پاس لے جا کر ذبح کرتے ہیں۔ اس کی غرض و غایت ان کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نیز وہ امید رکھتے ہیں کہ ان سے کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔ ایسی صورت میں قربانی غیر اللہ کے نام پر ہو گی اور بتوں کی عبادت شمار ہو گی۔ کیونکہ کھڑے کئے ہوئے پتھر (جس کو وثن کہتے ہیں) کے پاس قربانی کرنے اور کسی میت کی قبر کے پاس جا کر قربانی کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ صرف نام بدلنے سے باطل کو حق و صداقت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی حلال و حرام پر کوئی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص شراب کا نام بدل دے اور اسے پئے تو اس کے فعل کو معصیت کے دائرہ سے خارج نہیں کر سکتے بلکہ اسے معصیت ہی شمار کریں گے اور اس کا حکم وہ ہی ہو گا جو شراب پینے والے کا ہو گا اس مسئلہ میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔    

قربانی بھی عبادت ہے 
اس میں کوئی شک نہیں اللہ کے بندے جو اس کی عبادت کرتے ہیں، قربانی بھی اس کی ایک قسم ہے جیسے عام قربانی، فدیہ، عید کی قربانی وغیرہ۔ تو وہ شخص جو کسی جانور کو قبر پر لے جاکر ذبخ کرتا ہے تو اس کی غرض و غایت اس کی تعظیم و تکریم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اس سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور تکلیف اور معصیت سے محفوظ رہنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کے عبادت ہونے میں رائی بھر شک نہیں۔ تیرے لیے یہی برائی کافی ہے کہ تو اس کی بات سنتا ہے۔ لاحول والا قوة الا بلله العلي العظيم 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : 
. . . . . لا عقر فى الاسلام . . . . . (سنن انى داوء باب كراهية الزبح عند القبر ج : 3 ص : 209)
” . . . . . . قبروں پر جانور ذبح کرنا اسلام میں جائز نہیں . . . . . . .“۔ 

عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ قبروں کے پاس آ کر جانوروں کی قربانیاں کیا کرتے تھے۔ اور اس کی مثل دیگر جانور ذبخ کیا کرتے ہیں۔
امام ابوداود رحمتہ اللہ علیہ اسے صحیح سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا ہے۔

تمام بحث کا خلاصہ 
قبروں کو اونچا کرنا، ان پر گنبد بنانا اور مسجد بنانا ایسے کام ہیں جن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز حکم نہیں دیا بلکہ ایسے امور سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

بعض لوگ قبروں پر گنبد اور روضے بنانے کے جواز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک پر گنبد بنانے کا ہرگز ہرگز حکم نہیں فرمایا نہ خلفاء راشدین نے ایسا حکم دیا اور نہ تابعین کے زمانے میں کسی نے گنبد خضراء بنایا بلکہ آپ کی رحلت کے چھ سو سال تک کسی نے نہیں بنایا۔ اس کے بعد مصر کے بادشاہ قلادوں صالحی نے (جو ملک منصور کے نام سے مشہور تھا) اسے تعمیر کرایا۔ اس نے 278ھ میں اسے تعمیر کرایا۔ اس نے اسے علماء سے فتویٰ لے کر شریعت کے احکام کو ملحوظ خاطر رکھ کر نہیں بنایا تھا بلکہ سرکاری حیثیت سے بنایا تھا۔ لیکن اہل قبور نے اسے شرعی حیثیت دیدی۔ بریں وجہ اس بادشاہ کے اس فعل کو بطور دلیل پیش کرنا بے معنی ہے۔ کیونکہ قابل قبول وہی دلیل ہے جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہو۔ ان کے مقابل شریعت کی نظر میں سب دلائل ہیچ اور بے معنی ہیں۔ مزید تحقیق کے لیے ”تحقیق النصرہ بتلخیص معالم دار الہجر ۃ“ کا مطالعہ فرمائیں۔ الفلاح بی۔ اے کسی عالم کی پیروی، خواہ وہ علامہ ہو یا متجر عالم ہو، جائز نہیں جبکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف چلے یا کسی حکم میں خلاف ورزی کرے۔ لیکن غلطی سرزد ہونے کے باوجود وہ اجر کا مستحق ہو گا۔ بشرطیکہ وہ اجتہاد کی شرائط پوری کرے۔ مگر کسی کو اس کی پیروی کرنا جائز نہیں۔ ہم آغاز بجث میں اس کی پوری وضاحت کر چکے ہیں۔ اب تکرار سے کوئی فائدہ نہیں۔

امام یحییٰ بن حمزہ کا استد لال اور اس کا جواب 
امام یحییٰ کا یہ استدلال کہ مسلمانوں نے گنبد اور روضے قبروں پر تعمیر کئے ہیں لیکن کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔ جو ان کے جواز کا واضح ثبوت ہے۔ 
 جواب 
 ان کی یہ دلیل قابل قبول نہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کے علماء ہر زمانہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے رہتے ہیں کہ آپ نے ایسا کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے اور یہ بھی ثابت کرتے رہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں ایسا کام حرام ہے۔ علمائے کرام نے یہ حدیثیں مدارس میں اور قبروں کے محافظوں کے پاس بیان کی ہیں خلف نے سلف سے، چھوٹوں نے بڑوں سے اور متعلم نے عالم سے یہ حدیثں سیکھیں۔ صحابہ کرام کے عہد سے آج تک بیان کرتے آئے ہیں۔ محدثین نے اپنی مشہور کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا، مورخین اور اہل سیر نے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے ایسا کرنے والے پر اعتراض نہیں کیا۔ حالانکہ سلف اور خلف کے پاس دلائل موجود ہیں جو ان کی نہی اور ممانعت پر دلالت کرتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو لعنت کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ ہر زمانہ میں علماء نے ان دلائل کو پیش کیا اور ان امور قبیحہ سے لوگوں کو سختی سے منع کیا۔ 

 ائمہ اربعہ کا فتوی 
امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ اپنے استاد شیخ تقی الدین شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق بیان کرتے ہیں جو سلف صالحین کے بہت بڑے امام ہیں۔ انہوں نے قبروں پر مسجد بنانے کو ممنون قرار دیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ امام احمد، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کے شاگردوں نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے اسے مطلق مکروہ تصور کیا ہے۔ لیکن اسے مکروہ تحریمی پر محمول کیا جائے گا۔ ہم ان کے متعلق سوئے ظن نہیں رکھتے بلکہ حسن ظن رکھتے ہیں۔ کیونکہ جس کام کے متعلق تواتر کے ساتھ نہی وادر ہوئی ہو اور اس کے کرنے پر لعنت کا ذکر ہو وہ ایسے کام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ 

آپ دیکھیے ! انہوں نے تمام مذاہب کی تصریح کیسے کی ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علماء کے مختلف مذاہب کے باوجود اہل علم کا اس پر اجماع ہو چکا ہے۔ پھر اس کے بعد تین مذاہب کے متعلق واضح کیا ہے کہ وہ اس کی حرمت کے قائل ہیں اور ایک مذہب کے متعلق بیان کیا کہ وہ اسے مکروہ تصور کرتا ہے۔ لیکن اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے۔ تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ قبروں پر گنبد اور مزارات بنانا جائز ہے اور ان کے بنانے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ 

کسی قبر پر بھی گنبد اور قبہ بنانا جائز نہیں 
پھر ذرا غور کیجئے ! اہل علم اور اہل فضل کی قبروں پر گنبد اور قبے بنانا کیسے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے جسے ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”یہ لوگ جب ان میں سے کوئی نیک شخص یا کوئی بزرگ فوت ہو جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے تھے “۔ 
(صحيح مسلم ج : 1ص : 201)
اس وجہ سے ان پر لعنت فرمائی اور اپنی امت کو ان کی کاروائی سے ڈرایا کہ انہوں نے اپنے نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد کی حیثیت دے رکھی تھی۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی جو سید البشر ہیں تمام مخلوق سے افضل ہیں۔ خاتم الرسل ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سب سے برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ نے اپنی امت کو اپنی قبر کو سجدہ گاہ بنانے یا بت بنانے یا معبد بنانے سے منع فرمایا۔ آپ اپنی امت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ اور اہل علم اور اہل فضل کے لیے بھی اسوہ حسنہ ہیں۔ وہ آپ کے افعال اور اقوال کی سختی سے پیروی کرتے رہے۔ وہ امت میں سب سے زیادہ حق دار تھے اور استحقاق رکھتے تھے کہ ان کی پیروی کی جائے۔ مگر امت کے بعض افراد کی اتباع کیسے جائز ہو سکتی ہے حالانکہ ان کے افعال کی اصلاع کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان کی قبر پر ایسا برا کام کیا جائے۔ 

بس افضیلت کا اصل مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ آپ کی فضیلت کے مقابلہ میں سب فضیلتیں ہیچ ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر یہ تمام امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر منع ہیں اور آپ کی قبر مبارک پر ایسے امور شنیعہ کرنے والا لعنت کا مستحق ہے تو اس امت کے باقی لوگوں کی قبروں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے !!!؟

محرمات کو حلال کرنے اور منکرات کو جائز قرار دینے کے لیے فضیلت کو کوئی دخل نہیں۔
الٰہی! ہمیں معاف فرما۔
تمام تعریفیں صرف اللہ رب العزت کی ذات اقداس کے لیے ہیں جس نے ہمیں راہ حق دکھلائی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعداروں میں ہونے کی توفیق عنایت فرمائی۔  وصلي  الله على محمد عبدالله ورسوله وعلي آله واصحابه اجمعين

اس تحریر کو اب تک 126 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply