علیؓ اور معاویہؓ سے متعلق کچھ ضعیف روایات

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ کی ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے۔
«لا اله الا الله محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ايدته بعلي» اللہ کے علاوہ کوئی الہ نہیں، محمد اللہ کے رسول ہیں، میں نے آپ کی تائید علی کے ذریعہ کی ہے۔
اور میں نے یہ تحریر زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل لکھی تھی۔ [ميزان الاعتدال: 433/1 – وذكره المتقي الهندي فى الكنز: 33043۔ وأخرجه ابن جوزي فى العلل: 238/1]
جب انسانوں کا کوئی وجود نہ تھا تو جنت کہاں وقوع میں آئی اور کیسے وقوع میں آئی؟
اس روایت کا راوی اشعث ہے جو حسن بن صاملح بن حیی کا بھتیجا ہے۔ ذہبی کا بیان ہے کہ یہ کٹر شیعہ ہے۔ محدثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ عقیلی کا بیان ہے۔ یہ احادیث یاد نہ رکھ سکتا تھا۔ [ميزان الاعتدال: 433/1۔ المغني: 92/1]
اس کا ایک اور راوی عطیۃ العوفی ہے جس کا حال پہلے گزر چکا ہے۔ وہ یہ داستان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کر رہا ہے۔ حالانکہ اس نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
اس روایت کی سند میں ایک اور راوی یحیی بن سالم الکوفی ہے دارقطنی کا بیان ہے کہ یہ
ضعیف ہے۔ [ميزان الاعتدال: 179/7۔ المغني: 735/2۔ الضعفاء والمتروكين: 195/3]
اس روایت کی سند کا ایک اور راوی زکریا بن یحیی الکسائی ہے۔ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں یہ بدترین روایات بیان کرتا ہے۔ عقیلی کہتے ہیں اس کی یہ روایت باطل ہے۔
حافظ ابو نعیم اصبہانی لکھتے ہیں۔ اس کی روایت میں اختلاف ہے۔ کیونکہ یہ ایک اور روایت میں کہتا ہے۔
آسمانوں کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل جنت کے دروازے پر لکھا تھا کہ «لا اله الا الله محمد رسول الله على اخو رسول الله صلى الله عليه وسلم»
نسائی اور دارقطنی کا بیان ہے۔ یہ زکریا متروک ہے۔ ([ميزان الاعتدال: 110/3۔ الضعفاء والمتروكين: 295/1۔ الضعفاء الكبير: 86/2 – الجرح والتعديل: 595/3]
یحیی بن معین کا بیان ہے کہ کسی کے لیے حلال نہیں کہ اس کی روایت نقل کرے۔ ابو حاتم کہتے ہیں منکر الحدیث ہے۔ دارقطنی کا بیان ہے کہ ضعیف ہے۔ نسائی کا قول ہے کہ متروک ہے ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ہوتا ہے اور اس کی روایت سے اس کا ضعف ظاہر ہے۔ [ميزان الاعتدال: 118/3]
نیز یہ روایت ابو ایو ب انصاری کی جانب منسو ب کی گئی ہے۔ حالانکہ ابو ایو ب رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک نہ تھے۔ ان کی یہ عدم شرکت روایت کے جھوٹ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ جب بقول ابو ایو ب رضی اللہ عنہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر نا کثین، قاسطین اور مارقین سے قتال کرنا لیکن انہوں نے قتال نہیں کیا جو دو سال سے خالی نہیں۔ یا تو ابو ایو ب انصاری رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کی جو عمدا کسی صحابی سے مکن نہیں یا یہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے نام سے جھوٹ بولا گیا۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ نا کثین یعنی عہد توڑنے والوں سے مراد زبیر و طلحہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ قاسطین سے مراد انصاف چاہنے والے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا انصاف چاہتے تھے۔ اور مارقین سے مراد ساتھ چھوڑ کر جانے والے یعنی خارجی ہیں۔ ان سے قتال کا حکم متعدد احادیث میں موجود ہے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کا اعلان کیا۔ اور ابو ایوب رضی اللہ عنہ مدینہ سے آکر شریک ہوئے اسے جنگ نہروان کہا جاتا ہے۔
——————

میرے بعد فتنہ واقع ہوگا۔ لہٰذا تم علی رضی اللہ عنہ کو لازم پکڑ لینا
حضرت ابو لیلی غفاری کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ عنقریب میرے بعد ایک فتنہ ہوگا۔ تو تم اس وقت علی رضی اللہ عنہ کو لازم پکڑ لینا۔ کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلا وہ شخص ہے جس نے مجھے دیکھا۔ یہی سب سے پہلا شخص ہے جو قیامت کے روز مجھ سے مصافہ کرے گا۔ اور یہ علی رضی اللہ عنہ بلند آسمان میں میرے ساتھ ہوگا۔ اور یہ علی حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرے گا۔ [ميزان الاعتدال: 3371]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سنبھالی۔ اور ان لوگوں سے اعلان جنگ کیاجنہوں نے ان کی خلافت کو قبول نہ کیا تھا تو صحابہ کرام کی اکثریت نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ اور یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اس میں کھڑا ہونے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔ اور اس قسم کی دیگر تفصیلات بیان کیں۔ جو صحیح بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت اسامہ بن زید، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو موسی اشعری، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت کعب بن مالک، حضرت ابو بکر، حضرت ام سلمہ اور حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ سے مروی ہیں۔ یہ زیر بحث روایت ایک زمانہ دراز بعد ان احادیث کے جواب کے لیے تیار کی گئی۔
اس روایت کی رو سے جہاں ان حضرات پر الزام قائم کیا گیاجنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اور اسے جائز تصور کیا۔ مثلا ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت معاویہ، حضرت عمر و بن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہم وغیرہ وغیرہ۔
اصل میں اس روایت کا واضع اسحاق بن بشر بن مقاتل الکوفی ا کاہلی ہے۔ اس کی کنیت ابو یعقو ب ہے۔ مطین کا بیان ہے کہ میں نے امام ابو بکر بن ابی شیبہ سے کسی کو کذاب کہتے نہیں سنا۔ لیکن اسحاق کو وہ کذاب کہتے۔ موسی بن ہارون اور ابو زرعہ نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے۔ فلاس وغیرہ کا قول ہے کہ یہ متروک ہے۔ دارقطنی کا بیان ہے کہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو احادیث وضع کرتے تھے۔ ذہبی کا بیان ہے کہ اس داستان کا واضح اسحاق بن بشر اکاہلی ہے۔ اللہ اس پر کبھی برکت نازل نہ فرمائے۔ [ميزان الاعتدال: 337/1۔ المغني: 70/1۔ الجرح والتعديل: 214/2۔ الضعفاء والمتروكين: 1001]
(1)اسحاق بن بشرالکاہلی نے یہ روایت حسن بصری کی جانب منسو ب کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت ابولیلی سے نقل کی ہے۔ اگر حسن بصری و اقعتا اس داستان سے واقف ہوتے اور وہ نقل کرتے تو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنگ کے لیے بصرہ پہنچے تو حسن بصری کو چاہیے تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کاساتھ دیتے۔ لیکن وہ فتنہ کے خوف سے بصرہ چھوڑ کر ایک گاؤں چلے گئے۔ حتی کہ جنگ کے بعد بھی انہوں نے بصرہ کا رخ نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے بصرہ کے گورنر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ متعین کیے گئے۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے حسن بصری نے ان سے ملاقات تک نہیں کی یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ حسن بصری کے نام سے جھوٹ بولا گیا ہے۔
(2)حسن بصری مشہور مدلس ہیں اور صحابہ سے مرسل روایات نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے ابو لیلی صحابی کو دیکھا تک نہیں۔ الغرض یہ اس روایت کے جھوٹا ہونے کی ایک دلیل ہوئی۔
(3)حسن بصری سے یہ کہانی نقل کرنے والا عوف اعرابی ہے جو حسن بصری کا شاگرد ہے وہ
تاریخ میں عوف الصدوق کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن امام ابن المبارک جنہیں فرید الدین عطار نے تذکرہ الاولیاء میں تبع تابعین کے زاہدوں اور اولیاء میں شمار کیا ہے۔ انہوں نے ایک روز جعفر بن سلیمان الضبعی سے فرمایا۔ تو نے ابن عون، یونس اور ایوب کو دیکھا ہے۔ جب اس نے اس کا اقرار کیا تو فرمایا تو پھر اس کی کیا وجہ کہ تو نے ان سے علم حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ان تینوں حضرات کو چھوڑ کر عوف اعرابی کی مجلس میں شرکت کی؟
اللہ کی قسم یہ عوف اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک وہ دو باتیں اختیار نہ کر لے کیونکہ وہ قدری (تقدیر کا منکر) بھی ہے اور شیعہ بھی۔ محمد بن عبد اللہ الانصاری کا بیان ہے کہ میں نے داود بن ابی ہند کو دیکھا کہ وہ اس عوف کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے اے قدری
محمد بن بشار المعروف بہ بندار جب اس عوف کی روایت بیان کرتے تو فرماتے اللہ کی قسم عوف قدری ہے۔ رافضی ہے۔ شیطان ہے۔ مقدمہ مسلم۔ [ميزان الاعتدال: 305/3]
عوف اعرابی سے یہ داستان نقل کرنے والا خالد بن الحارث ہے جو مجہول ہے۔ الغرض اس روایت کی سند کے جتنے بھی راوی ہیں ان میں سے ایک بھی قابل اعتبار ہیں۔

——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ ہادی ہیں
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «انما انت منذر» ’’ بے شک تو ڈرانے والا ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک میں مندر ہوں لیکن علی رضی اللہ عنہا تجھے ہدایت کرنے والے ہیں اے علی یہ ہدایت یافتہ لوگ تیرے ذریعہ ہدایت پائیں گے۔ [ميزان الاعتدال: 231/2 واخرجه ابن جرير الطبري فى التفسير: 72/13۔ و ابن جوزي فى زاد المسير 307/4 والسيوطي فى الدرر 45/4 و ابن حجر فى الفتح 376/8 و الهندي فى الكنز رقم: 330/2]
ذہبی لکھتے ہیں اس آیت «انما انت منذر ولكل قوم هاد» کی یہ تفسیر مفسر ابن جریر نے۔ حسن بن الحسین کے ذریعہ معاذ بن مسلم سے نقل کی ہے۔ یہ روایت منکر ہے اور غالبا بہ آفت اسی معاذ کی ڈھائی ہوئی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آفت ابن جریر نے ڈھائی ہو۔
حسن بن الحسین:
حسن بن الحسین کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ شخص کوفہ کا باشندہ ہے۔ ابوحاتم لکھتے ہیں یہ محدثین کے نزدیک سچا نہیں۔ اس کا شمار بڑے درجہ کے شیعوں میں ہوتا ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ اس
کی روایت ثقہ راویوں جیسی نہیں ہوتی۔ ابن حبان لکھتے ہیں یہ ثقہ راویوں کے نام سے لغو با تمیں روایت کرتا اور احادیث میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔ [ميزان الاعتدال: 23/2۔ ترجمه الحسن بن الحسين العرني الكوفي المغني: 1389/1۔ تنزيه الشريعة: 48/1۔ الجرح والتعديل: 20/3]
معاذ بن سلم:
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ مجہول ہے اور اس نے عطاء بن السائب سے یہ موضوع حدیث
روایت کی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 132/4]
عطاء بن السائب:
معاز بن مسلم نے یہ روایت عطاء بن السائب سے نقل کی ہے۔ عطاء اگرچہ تمام محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ لیکن اول تو ان کا آخر عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ ثانیا وہ مرسلروایات نقل کرتے ہیں۔

——————

میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حساب کے لیے رکوں گا
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سب سے اول جنت میں ابو بکر و عمر داخل ہوں گے۔ اور میں معاویہ کے ساتھ حساب دینے کے لیے رکا ہوں گا۔ [ميزان الاعتدال: 437/1۔ تنزيه الشريعة: 390/1۔ وذكره المغني فى تذكرة الموضوعات: 100]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسے نقل کرنے والا اصبغ ہے۔ لیکن یہ وہ اصبغ بن نباتہ نہیں۔ بلکہ
یہ اصبغ ابو بکر الشیہبانی ہے۔ [المغني: 93/1۔ الضعفاء الكبير: 130/1۔ الضعفاء والمتروكين: 126/1] یہ سدی کا شاگرد اور تبع تابعین کے بعد ہے جب کہ پہلا اصبغ تابعی ہے۔ ذہبی کا بیان ہے کہ یہ مجہول ہے۔ اور اس کی یہ روایت منکر ہے۔
اصبغ نے اسے سدی سے نقل کیا ہے۔ اور سدی کے لقب سے وہ شخص مشہور ہیں۔ ہر دو کا حال پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ اور دونوں رافضی ہیں۔ باقی اس روایت میں ہم نے جو اعتراضات کیے ہیں۔ اصولی طور پر تو وہی اعتراضات وارد ہونے چاہئیں۔ لیکن اغلب گمان یہ ہے کہ ایسا ہونا بعید نہیں۔ اس لیے کہ ایک شیعہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ بولے گا یہ خلاف عقل ہے۔ مکن ہے کہ اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا کچھ عندیہ ظاہر فرمایا ہو۔ اور اس صورت میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا تخیل ہوگا، ممکن ہے کہ قیامت کے روز ہر دو کا حساب ہو۔ یا دونوں معاف کر دئیے جائیں۔

——————

اس تحریر کو اب تک 16 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply