جنت کے خزانے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہوں گے

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شب عروسی کا بستر مینڈھے کی کھال تھی
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں حاضر ہوئے۔ اور گھر پر بہت عمدہ مٹی کا پلاستر کیا۔ ہمارے رو برو کشمش اور چھوہارے لائے گئے جو ہم نے کھائے اور شب عروس میں علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بستر مینڈھے کی کھال تھی۔
[ميزان الاعتدال: 210/4، 211 واخرجه ابن عدي فى الكامل ضمن ترجمه عبدالله هذا]
عبداللہ بن میمون القداح:
اس روایت کا راوی عبداللہ بن میمون القداح المکی ہے۔ جو یہ کہانی جعفر بن محمد سے نقل کر رہا ہے۔ اس کی روایت ترمذی میں پائی جاتی ہے۔ ابو حاتم کہتے ہیں یہ متروک ہے۔
بخاری کا بیان ہے کہ اس کی روایت ردی ہوتی ہے۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ اگر یہ کوئی تنہا روایت بیان کرے گا تو ہرگز قابل حجت نہیں ابو زرعہ رازی کا بیان ہے کہ اس کی حدیث واہی
ہوتی ہے۔ [ميزان الاعتدال، ج 2، ص: 512]
نسائی لکھتے ہیں، عبداللہ بن میمون القداح ضعیف ہے۔ [الضعفاء والمتروكين للنسائي، ص: 64]
——————

علی سے زیادہ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد عباس رضی اللہ عنہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ اچانک علی رضی اللہ عنہ آگئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی خاطر اس سے مجھ سے زیادہ کوئی محبت نہیں کرتا۔ اللہ نے ہر نبی کی اولاد اس کی پشت میں رکھی ہے۔ اور میری اولا علی رضی اللہ عنہ کی پشت میں رکھ دی۔
[ميزان الاعتدال : ج 4، ص 313 وذكره الحافظ ابن حجر رحمه الله فى اللسان ضمن ترجمه عبد الرحمان بن محمد الحاسب]
کیونکہ بقول روافض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی صاجزا دی تھیں اور آپ کا ایک ہی داماد تھا۔ اور اتفاق سے کسی اور کے اولاد نہ ہوئی تھی۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولا على رضی اللہ عنہ کی پشت میں رکھ دی گئی۔
اور چونکہ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے داماد نہ تھے۔ بلکہ ایسے ہی مانگے کی بیٹیاں لے کر پال لی تھیں۔ لہٰذا آپ کا ایک ہی داماد تھا۔ اور اس کا نام علی رضی اللہ عنہ تھا۔ اور ابو العاص رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ ایسے ہی زبردستی داماد بن گئے تھے، لہٰذا ان کی اولاد اولاد رسول نہیں کہلا سکتی۔ ورنہ پورا ایک دستہ تیار ہو جائے گا۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے صاجزادے عبد اللہ فتح مکہ کے بعد مدینہ آئے تھے۔ اس سے قبل تو مدینہ میں ان کا کوئی وجود نہ تھا۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد علی رضی اللہ عنہ کی پشت میں رکھی گئی تھی۔ اور اس پشت میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی پیدا ہوئیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکا ح میں گئیں ان ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے عمر رضی اللہ عنہ کی جو اولاد ہوئی۔ زید اور رقیہ وہ بھی اولاد رسول ہے۔
عبد الرحمن بن محمد الحاسب :
یہ داستان عبد الرحمن بن محمد نے نقل کی ہے۔ ذہبی کا بیان ہے کہ اسے کوئی نہیں جانتا اور یہ روایت جھوٹی ہے۔ [ميزان الاعتدال : ج 2، ص : 586]
——————

اے زبیر رضی اللہ عنہ تو مجھ سے جنگ کرے گا، حالانکہ یہ تیرا ظلم ہوگا
ابو جرد کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو قسم دے کر سوال کیا،کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا تھا کہ اے زبیر رضی اللہ عنہ تو علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرے گا حالانکہ تو ظالم ہوگا ؟ زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کیوں نہیں لیکن میں بھول گیا تھا۔
[ميزان الاعتدال، ج 4، ص : 411۔ و اخرجه العقيلي فى الضعفاء : 35/3]
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ ابو جرد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قصہ نقل کر رہا
ہے۔ یہ مجہول ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔ [ميزان الاعتدال، ج 7، ص : 349]
عبد الملک بن مسلم الرقاشی :
ابو جرد سے یہ داستان نقل کرنے والا عبد الملک بن مسلم الرقاشی ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ اس کی روایت صحیح نہیں۔ ذہبی کہتے ہیں اسے عبد الملک کے علاوہ اور کوئی روایت نہیں کرتا۔
عبد اللہ بن محمد الرقاشی :
اس عبد الملک بن مسلم سے عبد اللہ بن محمد الرقاشی کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا جو اس کا پوتا ہے۔ جعفر بن سلمان کے کوئی روایت نہیں لیتا۔ بخاری کہتے ہیں اس کی روایت پر اعتراض ہے اس نے زبیر و علی رضی اللہ عنہ کا قصہ نقل کیا ہے عقیلی کا بیان ہے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے۔ [ميزان الاعتدال : ج 2، ص488]
جعفر بن سلیمان الصبعی :
یہ کڑ رافضی تھا۔ خلفائے ثلاثہ کو گالیاں دیتا۔
ہماری عرض صرف اتنی ہے کہ جب حسب روایت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی غلطی قبول کر لی تھی۔ اور میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پھر انہیں کس جر م میں قتل کیا گیا اور قتل کے بعد جب قاتل نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے قتل کا اعلان کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس قاتل سے زبیر رضی اللہ عنہ کا قصاص کیوں نہیں لیا ؟
——————

بغض علی رضی اللہ عنہ کا انجام
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ ! اگر میری امت تجھ سے بغض رکھے گی تو اللہ تعالیٰ ان سب کو ناک کے بال دوزخ میں ڈال دے گا۔
[ميزان الاعتدال : 54/5 و اخرجه ابن جوزي فى العلل : 242/1۔ و ابن عراق فى تنزيه الشريعة : 400/1]
اس روایت کو عثمان بن عبد اللہ القرشی الشامی نے ابن لہیعہ سے نقل کیا ہے۔ اس عثمان کے نسب نامہ میں اختلاف ہے کوئی اس کانسب نامہ اس طرح بیان کرتا ہے۔ عثمان بن عبداللہ بن عمر و بن عثمان۔
خطیب کا بیان ہے کہ حاکم نے اس کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے۔ عثمان بن عبد اللہ بن عمر و بن عثمان بن عبد الرحمن بن الحکم بن ابی العاص الاموی۔
بعض نے اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب منسو ب کیا ہے۔ اور نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے۔
عثمان بن عبد اللہ بن عمر و بن عثمان بن محمد بن عبد الملک بن سلیمان بن عبد الملک بن عبد اللہ بن عتبۃ بن عمر و بن عثمان بن عفان۔
ذہبی کا بیان ہے کہ نسب نامہ طویل ہے۔ اور خالص جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ عبد اللہ
القرشی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان دس آیا تو کہاں ہوتے چھ کا ہونا بھی محال ہے۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ نصیبیں اور دار البلاد میں رہا کرتا تھا۔ یہ ثقہ راویوں کے نام سے موضوع احادیث نقل کرتا ہے۔
[ميزان الاعتدال : ج 3، ص 41]
——————

جنت کے خزانے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہوں گے
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو برزہ رضی اللہ عنہ کے پاس بلانے کے لیے بھیجا۔ جب وہ آگئے تو آپ نے ان سے فرمایا اور میں یہ بات سن رہا تھا۔ اے ابو برزہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پروردگار نے مجھ سے عہد فرمایا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی رضی اللہ عنہ ہدایت کے جھنڈے، ایمان کے منار، میرے اولیاء کے امام
اور ان سب لوگوں کے نور ہیں جنہوں نے میری اطاعت کی۔
اے ابو برز رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ میرے امین ہیں کل میرے حوض پر آئیں گے۔ میرا جھنڈا اٹھائیں گے۔ اور میرے پروردگار کی جنت کے خزانوں کی چابیوں کے ذمہ دار ہوں گے۔ [ميزان الاعتدال : ج 4، ص : 356 رقم : 9440]
آج تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں جتنے بھی عہد و پیمان ہوئے ہیں۔ ان سب پر کسی انصاری کا تقرر ہوتا ہے۔ اور مہاجرین و قریش سے ان کا اخفا کیا جاتا ہے۔ آخر اس میں کیا راز پنہاں ہے کافر و منافق ہونے میں دونوں مساوی ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ہاں میرا سبائیوں سے یہ سوال ضرور ہے کہ چلو تاریخ و رجال سے یہی ثابت کر دو کہ عروۃ بن الزبیر نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کوئی حدیث سنی ہے۔ حالانکہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا تک نہیں۔ اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے بصرہ میں مقیم رہے جب کہ عروہ مدینہ کے عالم ہیں۔ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔
لاہزا ابو عمر والتیمی :
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس روایت کا راوی لاہزا ابو عمر والتیمی ہے جو مجہول ہے اور ثقہ راویوں کے نام سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔ اور یہ روایت باطل ہے۔ ذہبی کا بیان ہے یقینا موضوع ہے۔
سبائیوں سے ہمارا ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس روایت کو عروہ سے ان کے صاجزادے ہشام نقل کر رہے ہیں اور ہشام سے سلیمان بن طرخان التیمی البصری، چلئے یہی ثابت کر دیجئے کہ سلیمان تیمی نے ہشام بن عروہ سے احادیث سنی ہیں۔ اور ہشام کا عراق آنے کے بعد یعنی 131ھ کے بعد حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ ان کی صرف وہ روایات قابل قبول ہیں جو ان سے صرف اہل مدین نقل کریں۔
——————

جنت میں تیرا باغیچہ اس باغیچہ سے بہتر ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے باغوں کی جانب گئے۔ اتفاق سے ہمارا گزر ایک باغیچہ پر سے ہوا۔ حضرت علی ین رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ باغیچہ کتنا عمدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جنت میں تجھے جو باغیچہ ملے گا وہ اس سے بہتر ہوگا۔ حتی کہ آپ سات باغوں پر سے گزرے اور ہر بار یہی کہتے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس قوم کے سینوں میں کینہ بھرا ہوا ہے جسے تجھ سے ظاہر نہیں کرتے۔ اور میری وفات تک یہی ہوتا رہے گا۔
[ميزان الاعتدال : 314/7، 315 و اخرجه ابن جوزي فى العلل 243/1، 244]
آخر قوم کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے کون سا کینہ بھرا ہوا تھا۔ جو پوری قوم اسے دل میں چھپائے بیٹھی تھی۔ اس قوم میں انصار، قریشی، غفار، اوس، لجیلہ، نخخ، اشعر اور دیگر قبائل سب مشترک تھے۔ بالفاظ دیگر پانچ افراد کے علاوہ پورا عرب ان سے کینہ رکھتا تھا۔ حالانکہ جہاں یہ بات خلاف عقل ہے وہاں یہ بات خلاف نقل بھی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لوگ خو ش نہ تھے۔ آخر اس مخفی تبرا کی کیا ضرورت تھی کھل کر اور واضح الفاظ میں کہنا چاہیے تھا کہ سب کافر تھے۔
یونس بن خباب الاسیدی الکوفی :
اس روایت کا راوی یونس بن خباب ہے۔ اس کی روایات ترمذی، نسائی ابوداؤد اور ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ رافضی تھا۔
عباد بن عباد کا بیان ہے کہ میں یونس بن خباب کے پاس گیا۔ اور اس سے عذاب قبر کی حدیث دریافت کی۔ اس نے حدیث بیان کی اور پھر کہنے لگا کہ اس حدیث میں ایک جملہ اور بھی تھا۔ جو میں نے ناصیوں سے چھپا لیا ہے۔ میں نے دریافت کیا وہ جملہ کیا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ قبر میں یہ بھی سوال ہوگا کہ تیرا ولی کون ہے ؟ اگر مرنے والے نے یہ جواب دیا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں تو نجات پا جائے گا۔ (جب ہی تو آج کل ہمارے سنی بھائی کہتے ہیں جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہوتا ہے)۔
عباد کہتے ہیں میں نے اس پر کہا کہ نے ہم تو اپنے باپ دادا سے ایسی بات نہیں سنی تھی۔ اس نے سوال کیا تو کہاں کا باشندہ ہے، میں نے جواب دیا بصرہ کا۔ اس پر بولا : تو تو عثمانی خبیث ہے، عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ عثمان نے حضور کی دو بیٹیوں کو قتل کر دیا تھا۔ عباد کہتے ہیں میں نے کہا جب ایک کو قتل کر چکے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دوسری بیٹی کا نکا ح کیوں فرمایا ؟ تو یہ چپ ہو گیا۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ یونس کذاب ہے یحیی بن معین کا بیان ہے کہ یہ بد ترین انسان تھا۔ ابن حبان کہتے ہیں اس سے روایت لینا بھی حلال نہیں۔ نسائی کا بیان ہے کہ ضعیف ہے دارقطنی کہتے ہیں یہ ایک بد ترین انسان تھا غالی شیعہ ہے۔ بخاری کا قول ہے منکر الحدیث ہے۔
[ميزان الاعتدال : ج 4، ص479۔ كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي ص107۔ كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني، ص : 181]
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش نور کی چھڑی سے ہوئی
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تخلیق سے چالیس ہزار سال قبل نور کی ایک چھڑی پیدا فرمائی اس کے آدھے حصے سے مجھے پیدا کیا اور آدھے سے علی رضی اللہ عنہ کو۔ [ميزان الاعتدال : ج 7، ص360۔ رقم : 10176۔ وذكره الحافظ فى اللسان]
غالبا اسی لیے حضور کی غیر حاضری میں علی رضی اللہ عنہ پر وحی نازل کی جاتی تھی اس طرح یہ دوہری نبوت چلتی رہی جو بارہویں امام لے کر غائب ہو گئے۔
اس کہانی کا راوی ابو ذکوان ہے۔ جو قطعا مجہول ہے۔ ذہہبی کا بیان ہے کہ یہ روایت باطل ہے اس نے یہ روایت احمد بن عمر و سے نقل کی ہے، یہ کونسا احمد بن عمرو ہے اس کا کچھ اتنا پتہ معلوم نہیں ان احمد بن عمرو نے اپنے ہم نام احمد بن عبد اللہ سے حدیث نقل کی ہے۔ اتفاق سے احمد بن عبد اللہ نامی سینکڑوں افراد ہیں۔ احمد بن عبد اللہ نے یہ داستان عبد اللہ بن عمرو سے نقل کی ہے۔ اور عبید اللہ بن عمرو کوئی شخص نہیں۔ دراصل یہ سب افسانوی ہیرو ہیں۔ جن کا وجود کوئی ضروری نہیں۔ عبید اللہ نے یہ روایت عبد الکریم الجزری سے نقل کیا ہے اور یہ منکرات بیان کرنے میں مشہور ہے۔ عبد الکریم نے اسے عکرمہ سے نقل کیا ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا غلام ہے اور مشہور خارجی ہے۔ اگر واقعا اس نے کوئی ایسی روایت سنی اور بیان کی ہوتی تو شاید یہاں تک نوبت نہ آتی۔
ہاں سوچنے اور سمجھے کی بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کب اور کس شئے سے پیدا ہوئے کبھی وہ زمین کی مٹی سے پیدا ہوتے ہیں کبھی جنت کی مٹی سے کبھی درخت سے اور کبھی نور سے کبھی ان کے ساتھ پیدائش میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوتے ہیں۔ کبھی ان کی بیوی اور صاجزادے بھی شریک ہوتے ہیں اور کبھی متبعین بھی آخر وہ ہیں کیا شئے آج تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کوئی ہے تو ہماری رہنمائی کرے۔
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کان اور قرآن کی آیت
ابو الدنیا کا بیان ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «وتعيها اذن واعية» اور اس کے کان اسے محفوظ رکھتے ہوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ ! میں نے اللہ سے سوال کیا کہ وہ تیرے کان ایسے بنادے۔
[ميزان الاعتدال : 364/7 المغني : 783/2 وذكره المتقي الهندي فى الكنز 36562]
اس کا واضع ابو الدنیا الاشج ہے۔ اس نے 300ھ کے بعد یہ دعوی کیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شاگردی میں رہا ہے۔ جس طرح رتن ہندی نے چھ سو سال بعد اپنے صحابی ہونے کا دعوی کیا۔ یہ سب افراد اپنے اپنے زمانہ کے دجال تھے۔ اس ابو الدنیاکی تمام روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہیں کسی اور کی اسے خبر نہیں۔
——————

اے اللہ ! تو علی رضی اللہ عنہ سے دوستی رکھ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں بھائی چارہ کرا رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا علی رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں۔ اور میں علی رضی اللہ عنہ کا بھائی ہوں۔ اے اللہ ! تو اس سے دوری رکھ۔
[ميزان الاعتدال : 104/7 واخرجه ابن عدي فى الكامل فى ترجمه هياج]
ہمیں حیرت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ک7ھ میں فتح خیبر کے وقت کسی بھائی چارے کا خیال نہیں آیا۔ اور جب خیبر فتح ہو گیا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو اس بھائی چارے کا خیال آیا ؟
بھائی چارہ ہجرت مدینہ کے بعد پیش آیا، اور مہاجرین اور انصار کو باہم ایک کر دیا گیا تاکہ باہم اخوت ہو اس لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوا۔ بلکہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ یہ وہ بھائی چارہ ہے جسے عام مورخین مواخات کے نام سے پیش کرتے ہیں۔
دوسرا بھائی چارہ مہاجرین کا باہم کرایا گیا۔ لیکن یہ عام بھائی چارہ نہ تھا۔ بلکہ صرف ان مہاجرین کا بھائی چارہ کرایا گیاجن مہاجرین کا کوئی بھائی نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ مسلمان تھے۔ اس لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی چارے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اس سلسلہ میں جتنی روایات ہیں وہ سب رافضیوں کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ سہل بن حنیف انصاری رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
ہیاج بن بسطام الہروی :
اس روایت کا راوی ہے۔ یحیی بن معین کا بیان ہے کہ یہ ضعیف ہے ابو داؤد کہتے ہیں۔ محدثین نے اس کی روایات ترک کر دی ہیں۔ احمد بن حنبل کا فرمان ہے۔ یہ شخص متروک الحدیث ہے۔ 177ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ ابن ماجہ کے علاوہ اس سے کسی نے روایت نہیں لی نسائی لکھتے ہیں۔ ہیاج بن بسطام ہروی ضعیف ہے۔ [الضعفاء والمتروكين للنسائي، ص : 105]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
ہیاج بن بسطام التمیمی البرجمی الہروی ضعیف ہے۔ اس سے اس کے بیٹے خالد نے
بہت سی منکرات نقل کی ہیں۔ 177ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ [تقريب التهذيب : 367]
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ بادلوں میں
جناب باقر کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ایک چادر اوڑھائی۔ اس چادر کو ”سحاب“ کہا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سحاب (بادل) پہن کر تشریف لائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا یہ علی سحاب میں آرہے ہیں۔ جعفر کا بیان ہے کہ میرے والد باقر نے فرمایا ان لوگوں نے اس میں تحریف کر ڈالی اور یہ کہنا شروع کیا کہ علی رضی اللہ عنہ بادلوں میں آرہے ہیں۔ [ميزان الاعتدال : ج 6، ص 408]
شیعوں میں سے فرقہ رجعیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ زندہ بادلوں میں اٹھا لیے گئے ہیں۔ یہ بجلی کی کڑک ان کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز ہے اور یہ بجلی ان کے کوڑے کی چمک ہے۔ اسے فرقہ رجیحہ کہتے تھے۔ جناب باقر نے اس کی خوب عمدہ تاویل پیش کی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب باقر کو یہ چادر اڑھانے کا قصہ کیسے معلوم ہوا کیونکہ جناب باقر بقول ملا مجلسی 57ھ میں پیدا ہوئے اور علی بیمار خود کمسن بچے تھے ان کے یہ صاجزادے میدان کربلا میں چار سال کے تھے۔ انہوں نے یہ واقعہ کس سے سنا محدثین اہل سنت کی نظر میں یہ روایت مرسل ہے اور مرسل روایت قابل قبول نہیں ہوتی۔
ہاں فرقہ شیعہ کے ہاں اس سے زیادہ مقبول کوئی روایت نہیں ہوتی کیونکہ اسے ایک امام روایت کر رہا ہے۔ ان سے ان کے صاجزادے جعفر نقل کر رہے ہیں۔ جن کی ذات پر ہم پہلے بحث کر چکے ہیں جعفر سے نقل کرنے والا مسعدۃ بن السیع البابلی ہے۔
مسعدۃ :
ابن عدی کا بیان ہے یہ تباہ کن ہے۔ ابو داؤد کا قول ہے کذاب ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں ایک زمانہ گزر گیا کہ ہم نے اس کی روایات پھاڑ کر پھینک دیں۔
قتیبہ کا بیان ہے کہ میں نے اسے دیکھا ہے لیکن میں نے اس سے روایات سننا پسند نہیں کیا۔
[ميزان الاعتدال : 408/6 المغني 654/2 الضعفاء والمتروكين 116/3 الضعفاء الكبير 245/4]
دارقطنی لکھتے ہیں یہ مسعدۃ بن السیع الباہلی بصرہ کا باشندہ ہے۔ جعفر ابن جریج اور محمد بن عمرو سے روایات نقل کرتا ہے۔ متروک ہے۔
[كتاب الضعفا والمتروكين : 159]
——————

علی رضی اللہ عنہ انبیائے کرام کا ایک نمونہ
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جو شخص بلحاظ علم آدم علیہ السلام کو، بلحاظ حکمت نوح علیہ السلام کو اور بلحاظ بردباری ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنا چاہے وہ علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔
[ميزان الاعتدال : 409/6۔ وذكره ابن جوزي فى الموضوعات 370/1 السيوطي فى اللالي 184/1 و ابن كثير فى البدايه 357/7]
ہمارے نظریہ کے مطابق یہ انبیائے کرام کی صریح توہین ہے کہ کسی غیر نبی کو ان کے مثل قرار دیا جائے۔ لیکن مذہب تشیع کی رو سے ہر امام کا مقام تمام انبیاء سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ تشبیہ غلط ہے کیونکہ مشبہ اور مشہ بہ کا ہم شل ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان انبیاء سے تشبیہ دی گئی تو تسلیم کر لیا گیا کہ یہ انبیاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر درجہ رکھتے ہیں لیکن جب یہ عقیدہ مانا جائے کہ معرا ج میں پس پردہ جو آواز آرہی تھی وہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آواز تھی تو اس لحاظ سے انہیں انبیاء سے تشبیہ دینا یہ بھی سراسر توہین ہے۔ لیکن ہم اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ کسی غیر نبی کو نبی کے برابر درجہ نہیں دے سکتے۔ اس لحاظ سے تشبیہ غلط ہے۔
مسعر بن یحیی النہدی :
اس کا راوی مسعر بن یحیی ہے۔ ذہبی کا بیان ہے میں اسے نہیں جانتا اور اس کی یہ روایت منکر ہے۔ [ميزان الاعتدال : 408/6 رقم 8391]
مسعر بن یحیی نے یہ روایت شریک بن عبد اللہ بن سنان سے نقل کی ہے اور وہ خالص شیعہ ہے اس کا حال پہلے گزر چکا ہے۔ شریک نے یہ روایت ابو اسحاق سبیعی سے نقل کی ہے۔ جو مدلس ہے۔ اور وہ اپنے باپ سے نقل کر رہا ہے جو غیر معروف ہے۔ اس روایت پر وہ مثل صادق آتی ہے کہ اونٹ رسے اونٹ تیری کونی کل سیدھی۔
——————

خیبر کے روز تلوار جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی
مسیب بن عبد الرحمن جو جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے تھے، فرماتے ہیں۔ میں حضرت حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات بیان فرمانے لگے انہوں نے فرمایا جب علی رضی اللہ عنہ نے روز خیبر حملہ کی تیاری کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔
اے علی رضی اللہ عنہ ! میرا باپ تجھ پر قربان قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تیرے ساتھ وہ ہستی ہے جو تجھے کبھی رسوا نہ کرے گی۔ تیرے دائیں جبرائیل علیہ السلام ہیں ان کے ہاتھ میں تلوار ہے کہ اگر اسے پہاڑوں پر مار دیں تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔
اے علی رضی اللہ عنہ ! تجھے رضوان اور جنت کی خوشخبری ہو۔ اے علی رضی اللہ عنہ ! تو عرب کا سردار ہے اور میں
اولاد آدم کا سردار ہوں۔
[ميزان الاعتدال : 430/6 وذكره الحافظ ابن حجر رحمه الله فى اللسان المغني : 95912]
یہ حدیث کافی طویل ہے۔ افسوس کہ امام ذہبی نے اس کا صرف اتنا ابتدائی حصہ بیان کیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسیب کی یہ روایت منکر ہے۔ جب بقول مسیب اتنی لمبی چوڑی تلوار لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام ساتھ تھے تو ہو سکتا ہے کہ درہ خیبر جبرائیل علیہ السلام نے ا کھاڑا ہو اور یار لوگوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسو ب کر دیا ہو۔
رہا ان کے سید عرب ہونے کا مسئلہ تو اہل عرب تو انہیں خلیفہ بھی ماننے کے لیے تیار نہ
ہوئے حتی کہ ان کی خلافت سمٹ سمٹا کر صرف کوفہ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اور ساتھ میں صرف ایرانی اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ رہ گئے تو وہ کس وقت سید عرب بنے ہمیں اس کی خبر نہیں۔
——————

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply