قبر میں میت کو نبیﷺ کی صورت دکھایا جانا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : حدیث میں آتا ہے کہ میت سے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفسِ نفیس قبر میں تشریف لاتے ہیں ؟
جواب : جب انسان اس دارفانی سے اپنا وقت مقررہ ختم کے قبر کی آغوش میں پہنچتا ہے تو اس سے منکر نکیر جو سوالات کرتے ہیں ان میں سے ایک سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ہوتا ہے، کہا جاتا ہے : ما كنت تقول فى هذا الرجل ’’ تو اس مرد کے متعلق کیا کہتا ہے ؟“ اگر آدمی ایمانداری ہو تو اس کا صحیح جواب دیتا ہے اور اگر کافر ہو تو کہتا ہے : لا ادرى ’’ میں نہیں جانتا“۔ لیکن کسی صحیح حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لاتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک وہاں پیش کی جاتی ہے جسے دیکھ کر اور اشارہ کر کے فرشتے کہتے ہیں ما كنت تقول فى هذا الرجل ”تو اس مرد کے متعلق کیا کہتا ہے ؟“

◈ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھا ہے :
قيل يكشف للميت حتي يري النبي صلي الله عليه وسلم وهي بشري عظيمة للمومن ان صح ذلك ولا نعلم حديثا صحيحا مرويا في ذلك
’’ کہا گیا ہے کہ میت کے لئے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہو تو مومن کے لیے بڑی خوشخبری ہے ( کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر لیتا ہے ) لیکن ہم نہیں جانتے کہ کوئی صحیح حدیث اس بارے میں مروی ہے۔“ [مرقاة شرح مشكاة 24/1]

◈ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وسئل الحافظ بن حجر هل يكشف له اي للميت حتي يرى النبى صلى الله عليه وسلم فاجاب انه لم يرو هذا في حديث و انما ادعاه بعض من لا يحتج به بغير مستند سوي قوله هذا الرجل ولا حجة فيه لان الاشارة الي الحاضر في الذهن
’’ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا : کیا میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے ؟“ تو انہوں نے جواب دیا : ’’ یہ بات کہ میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے، کسی حدیث میں مروی نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے غیر مستند باتوں سے استدلال کیا ہے جو قابل حجت نہیں سوائے اس قول هذا الرجل کے اور اس میں اس کے متعلق کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ هذا اسم اشارہ یہاں ذہن کے لیے ہے۔“

هذا اسم اشارہ سے استدلال درست نہیں کیونکہ حضور دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک حضور ذہنی (تصوراتی) اور دوسرا حضور شخصی یہاں حضور ذہنی مراد ہے شخصی نہیں۔ [ مرقاة المفاتيح 1/ 370]

↰ اس کے علاوہ قرآن مجید اور کتب احادیث میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ هذا اسم اشارہ کو بعید کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف هذا کا اشارہ ہو وہ پاس ہی موجود ہو۔

قرآن مجید میں مذکور ہے کہ فرشتے جب سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے تشریف لائے تو پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے آمد کا سبب دریافت کیا تو وہاں فرشتوں نے جواب دیا :
إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ [29-العنكبوت:31]
’’ ہم اس بستی کے باشندوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہ ظالم ہیں۔“

↰ لوط علیہ السلام سدوم اور ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں تھے۔ بستی سدوم کے پاس موجود نہیں تھی لیکن فرشتے هذٰه کا اشارہ کر کے کہتے ہیں کیونکہ سدوم ابراہیم علیہ السلام اور فرشتوں کے ذہن میں تھا۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ ہرقل نے بیت المقدس میں جب ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو کہا :
ايكم اقرب نسبا بهذا الرجل
’’ تم میں سے اس آدمی کے نسبی لحاظ سے کون زیادہ قریب ہے۔“ [بخاري، كتاب بدء الوحي : باب بدء الوحي 7 ]

↰ اسی طرح اس روایت میں یہ بھی موجود ہے :
اني سائل عن هذا الرجل مراد یہ ہے کہ جب بیت المقدس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گفتگو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ھذا کا لفط استعمال کیا گیا۔ اور بیت المقدس مدینہ سے تقریباً (810) میل کے سفر پر ہے تو لامحالہ یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ یہاں ھذا اسم اشارہ حضور شخصی کے لیے نہیں بلکہ حضور ذہنی کے لیے بولا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کے وقت وہاں موجود نہ تھے۔

اسی طرح صلح حدیبیہ میں بدیل بن ورقاء مشرکین مکہ کی طرف سے شرائط صلح نامہ طے کرنے کے لیے سفیر بن کر آیا اور گفتگو کر کے واپس مکہ پہنچا تو اس نے کہا :
انا قد جئناك من عند هذا الرجل
’’ ہم تمہارے پاس اس آدمی سے ہو کر آئے ہیں۔“ [ مسند احمد 18166 ]

سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سنا تو تحقیق حال کے لیے اپنے بھائی کو بھیجا اور کہا :
اركب الي هذا الوادي فاعلم لي علم هذا الرجل
’’ تو اس کی طرف سوار ہو اور مجھے اس آدمی کے باری میں معلومات فراہم کر۔“ [ بخاری، کتاب المناقب : باب اسلام ابی ذر الغفاری 3861 ]

اس قسم کی کئی مثالیں کتب احادیث میں موجود ہیں کہ هذٰا اسم اشارہ کو بعید اور حضور ذہنی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح جو قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اور اس میں لفظ هذٰا مستعمل ہے اور بھی حضور ذہنی کے لیے ہے جیسا کہ اوپر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے حوالے سے گزر چکا ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 58 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply