باب خیبر کا معاملہ

تحریر : ابن الحسن محمدی

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بسالت کا انکار کوئی کافر ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین قوت بھی عطا فرمائی تھی۔ وہ بلاشبہ شیر خدا تھے۔
حقیقی ہیرو کو کسی جھوٹی فضیلت و منقبت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن ہمیشہ سے لوگوں کا یہ چلن رہا ہے کہ وہ اپنی من پسند شخصیت کے بارے میں جھوٹی باتیں مشہور کر دیتے ہیں، جو اکثر اوقات اس شخصیت کی سیرت کو نکھارنے کی بجائے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا غلط تصور بٹھاتی ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی ایک ایسی ہی بات مشہور ہے۔ وہ یہ کہ خیبری دروازہ جسے
بہت سارے لوگ مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے تھے، انہوں نے اکیلے ہی اٹھا کر پھینک دیا تھا۔ یہ واقعہ غیر ثابت اور غیر معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک مافوق الفطرت مخلوق ہونے کا تصور بھی پیدا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں کل چار روایات آتی ہیں ؛ تین اہل سنت کی کتب میں اور ایک روافض کی کتب میں۔ آئیے اصولِ محدثین کی روشنی میں ان سب کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
روایت نمبر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سیدنا ابورافع سے منسوب ہے :
خرجنا مع على حين بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم برأيته، فلما دنا من الحصن؛ خرج إليه أهله فقاتلهم، فضربه رجل من يهود، فطرح ترسه من يده، فتناول على بابا كان عند الحصن، فترس به نفسه، فلم يزل فى يده وهو يقاتل، حتٰي فتح الله عليه، ثم ألقاه من يده حين فرغ، فلقد رأيتني فى نفر معي سبعة؛ أنا ثامنهم، نجهد علٰي أن نقلب ذٰلك الباب، فما نقلبه .
’’ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ( خیبر کے قلعہ کی طرف ) نکلے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دے کر بھیجا تھا۔ جب ہم قلعہ کے پاس پہنچے، تو قلعہ والے لوگ باہر آئے، ان کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی، ایک یہودی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال ہاتھ سے گر گئی۔ انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا۔ وہ دروازہ دورانِ قتال مستقل طور پر ان کے ہاتھ میں رہا، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرما دی۔ جنگ سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں نے، جن کے ساتھ آٹھواں میں تھا، اس دروازے کو ہلانے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن ہم اسے ہلا بھی نہیں سکے۔ “ [مسند الإمام أحمد :8/6، دلائل النبوة للبيهقي :212/4، سيرة ابن هشام : 350، 349/6، تاريخ دمشق لابن عساكر : 111/42]

تبصره :
یہ سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ اس میں :
بعض أهله ’’مبہم“ اور ’’مجہول“ لوگ ہیں۔
شریعت ہمیں نامعلوم افراد سے دین اخذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواه أحمد، وفيه راو لم يسم .
’’اسے امام احمد نے روایت کیا ہے، اس میں ایک ایسا راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ “ [مجمع الزوائد : 152/6]
دلائل النبوة کی سند میں عبداللہ بن حسن کا واسطہ گر گیا ہے، اسی لئے :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي هٰذا الخبر جهالة وانقطاع ظاهر .
’’اس روایت میں جہالت اور واضح اقطاع موجود ہے۔ “ [البداية والنهاية : 191/4]
——————

روایت نمبر

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
إن عليا حمل الباب يوم خيبر، حتٰي صعد المسلمون ففتحوها، وإنه جرب، فلم يحمله؛ إلا أربعون رجلا .
’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے دن قلعے کے دروازے کو اٹھا لیا، حتی کہ مسلمانوں نے چڑھائی کر کے اسے فتح کر لیا۔ تجربہ کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ اس دروازے کو چالیس طاقتور افراد ہی اٹھا سکتے تھے۔ “ [مصنف ابن أبي شيبة : 84/12، تاريخ بغداد للخطيب : 324/1، تاريخ دمشق لابن عساكر : 111/42]

تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس میں لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف“ خراب حافظے والا موجود ہے۔
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعفه الجمهور . ’’جمہور محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ [المغني عن حمل الأسفار : 187/2، تخريج أحاديث الإحياء للحداد : 1648]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضعفه الـأكثر . ’’اکثر محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔ “ [مجمع الزوائد : 178/2]
◈ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ضعيف عند الجمهور . ’’یہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ [البدر المنير : 104/2، 227/7، تحفة المحتاج : 48/2]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فضعفه الجماهير . ’’جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ [شرح مقدمة صحيح مسلم : 4، وفي نسخة : 52]
◈ حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضعفه الجمهور . ’’جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا: ہے۔ “ [زوائد ابن ماجة : 54]
◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفي الزوائد ليث بن أبي سليم، ضعفه الجمهور .
’’زوائد میں ہے کہ اس میں لیث بن ابی سلیم ہے، اور اس کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ [حاشية السندي على ابن ماجة : 1891]
◈ حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فإن ليث بن أبي سليم متفق علٰي ضعفه .
’’لیث بن ابی سلیم کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔ “ [الحاوي للفتاوي : 7/3.8]
◈ اسے امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابوزرعہ رازی، امام ابوحاتم رازی، امام عمرو بن علی فلاس، امام دارقطنی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام بزار، امام ابن سعد رحمها اللہ اور جمہور محدثین کرام نے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ نووی لکھتے ہیں :
اتفق العلماء علٰي ضعفه، واضطراب حديثه، واختلال ضبطه .
’’علمائے کرام کا اس کے ضعیف ہونے، اس کی حدیث کے مضطرب ہونے اور اس کے حافظے کے خراب ہونے پر اتفاق ہے۔ “ [تهذيب الأسماء واللغات : 597/1]
◈ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے متابعت میں روایت لی ہے، نہ کہ اصول میں۔
لہٰذا اس کے ’’ضعیف“ اور ’’مختلط“ ہونے کی
وجہ سے صحیح مسلم پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ما علمت أحدا صرح بأنه ثقة .
’’میرے علم کے مطابق کسی نے اس کے ثقہ ہونے کی صراحت نہیں کی۔ “ [زوائد مسند البزار : 403/2]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’منکر“ قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال : 113/3]
◈ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفيه ضعف أيضا . ’’اس میں بھی کمزوری ہے۔ “ [البداية والنهاية : 191/4]
——————
روایت نمبر

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہی سے منسوب ہے :
إن عليا لما انتهٰي إلى الحصن؛ اجتبذ أحد أبوابه، فألقاه بالـأرض، فاجتمع عليه بعده منا سبعون رجلا، فكان جهدهم أن أعادوا الباب .
’’جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ قلعہ کے پاس پہنچے، تو انہوں نے قلعہ کے ایک دروازے کو اکھیڑ کر زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد ہم میں سے ستر آدمیوں نے بڑی کوشش کر کے اس کو واپس اپنی جگہ پر رکھا۔ “ [دلائل النبوة للبيهقي : 212/4، المقاصد الحسنة للسخاوي : 313]

تبصره :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس کا راوی حرام بن عثمان سخت ترین ’’ضعیف“ اور مجروح ہے۔
◈ اسے امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام دارقطنی، امام ابن حبان، امام ابن سعد، امام یحییٰ بن معین اور علامہ جوزجانی
رحمها اللہ نے ’’ضعیف“ کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں :
متروك باتفاق، مبتدع .
’’یہ بالاتفاق متروک اور بدعتی راوی ہے۔ “ [ديوان الضعفاء : 859]
◈ خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ کہا ہے۔
◈ مورخ اسلام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [البداية والنهاية : 191/4]
نوٹ : دلائل النبوة بیہقی میں ستر کی بجائے چالیس مردوں کا ذکر ہے۔
——————
روایت نمبر

امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب ہے، وہ اپنے آبا سے بیان کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف کو خط لکھا :
والله، ما قلعت باب خيبر، ورميت به خلف ظهري أربعين ذراعا بقوة جسدية ولا حركة غذائية، لٰكني أبدت بقوة ملكوتية نفس بنور ربها مضية، وأنا من أحمد كالضوئ من الضوء .
’’اللہ کی قسم ! میں نے جو خیبر کے دروازے کو اکھیڑا اور اپنے پیچھے کی طرف چالیس گز کے فاصلے پر پھینک دیا، یہ نہ جسمانی قوت تھی اور نہ خوراک کی طاقت، بلکہ یہ ایک ملکوتی و نورانی قوت تھی، جو میرے رب نے مجھے عطا کی تھی۔ میری احمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی نسبت ہے، جو روشنی کو روشنی سے ہوتی ہے۔ “ [بحار الأنوار للمجلسي الرافضي : 26/21]

تبصره :
یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ :
① امام جعفر کے آبا نامعلوم و ’’مجہول“ ہیں۔
② محمد بن محصن اسدی عکاشی باتفاق محدثین غیر ثقہ، ’’منکر الحدیث“، ”متروک“، ”کذاب“ اور وضاع“ ہے۔
③ یونس بن ظبیان کے اہل سنت کی کتب سے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ اور کتب رجال شیعہ میں بھی اس پر جرح موجود ہے۔
④ علی بن احمد بن موسیٰ بن عمران دقاق کی اہل سنت اور شیعہ کتب رجال میں کہیں بھی توثیق نہیں مل سکی۔
⑤ محمد بن ہارون مدنی بھی ’’مجہول“ ہے۔
⑥ ابوبکر عبیداللہ بن موسیٰ خباز حبال طبری کی اہل سنت اور شیعہ کتب رجال میں توثیق مذکور نہیں، لہٰذا یہ ’’مجہول“ ہے۔
◈ مؤرّ خِ دیار مصر، علامہ مقریزی رحمہ اللہ (م : 845ھ) لکھتے ہیں :
وزعم بعضهم أن حمل باب خيبر لا أصل له .
’’بعض محدثین تو کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھانے کے واقعہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ “ [إمتاع الأسماع : 310/1]
علامہ سخاوی رحمہ اللہ (831۔ 902ھ) لکھتے ہیں :
بل كلها واهية، ولذا أنكره بعض العلماء .
’’اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں اس لئے بعض علما نے اس واقعے کو منکر قرار دیا ہے۔ “ [المقاصد الحسنة : 313]
الحاصل : یہ واقعہ معتبر سندوں سے ثابت نہیں، فضیلت وہی ہے جو قابل اعتبار سندوں سے ثابت ہو۔

 

اس تحریر کو اب تک 18 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply