صدقہ میں اگر بیٹیوں کو کچھ نہ دیا جائے تو

تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

288- ایک آدمی نے اپنی اولاد میں سے لڑکوں پر صدقہ کیا لیکن بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا
اگر یہ صدقہ لڑکوں کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا جبکہ لڑکیاں، اپنے مال کی وجہ سے، یا اگر شادی شدہ تھیں تو اپنے خاوندوں کے مال کی وجہ سے ضرورت مند نہیں تھیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ باپ اگر مالدار ہو اور اولاد غریب ہو تو ان پر خرچ کرنا باپ کا فرض ہے، اس لیے اگر وہ انہیں کچھ صدقہ دے دیتا ہے جس سے ان کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو یہ کوئی قابل گرفت کام نہیں۔
لیکن اگر وہ انہیں محض خوش دلی سے کچھ دیتا ہے، پھر انسان کے لیے لڑکیوں کو چھوڑ کر لڑکوں کو دینا روا ہے، نہ کچھ لڑکوں کو کچھ پر ترجیح دینا ہی جائز ہے کیونکہ بشیر بن سعد نے اپنے بیٹے نعمان بن بشیر کو کوئی تحفہ دیا، وہ غلام تھا یا کوئی باغ یا دونوں ہی تھے، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر خدمت ہوئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو یہ دیا ہے؟ یا اس جیسا کوئی کلمہ کہا، انہوں نے جواب دیا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587 صحيح مسلم 1622/18]
پس بشیر نے اپنے بیٹے نعمان کو جو دیا تھا، واپس لے لیا۔ یہ اولاد کو تحفہ دیتے وقت ان کے درمیان فرق رکھنے کی حرمت کی دلیل ہے لیکن جو ضرورت رفع کرنے کے لیے ہو وہ اس میں شامل نہیں، جس طرح پہلے بیان ہوا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کریں کہ باپ ایسا کرنے سے پہلے وفات پا جاتا ہے یعنی اولاد کے درمیان مساوی تقسیم سے پہلے، تو پھر کیا اس کے لیے جس کو ترجیح دی گئی تھی، وہ تحفہ اپنے پاس رکھنا جائز ہے؟ جواب ہے کہ نہیں، اس پر لازم ہے کہ اسے ترکے میں واپس کرے اور تمام ورثا اسے تقسیم کریں۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 15/247]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء